انتخاب گل بخشالوی
…آپ تو ایسے گئے کہ پلٹ کر دیکھا ہی نہیں وہ تو خیر ہوئی کہ آپ کی آواز تقریباً ہر دوسرے تیسرے روز سننے کو ملتی ہے میں تو غمِ فرقت میں جان دے دیتی ،کراچی میں رہتی ہوں اس لےے جس طرف آنکھ اُٹھاﺅں تیری تصویریں ہیں ،ورنہ میری آنکھیں ترس جاتیں آپ کو دیکھنے کیلئے بس ایک مشکل ہے میں آپ کا نام سب کے سامنے نہیں لے سکتی ،جب بھی ایسا کیا ”لڑکوں “نے یہ کہہ کر ڈانٹ دیا کہ ”بدتمیز نام لیتی ہے بھائی بول “اب آپ ہی بتائیں میں کیا کروں جانو بھائی ۔صرف آپ کی چندہ ۔
٭….میرے ماہی
….ایروں غیروں سے بال کیوں لگوائے کیا میں مر گئی تھی ،میری زُلفیں مانگ لیتے کب سے آپ کاپیار دل میں بسائے بیٹھی ہوں ۔آپ جیل میں ہوں یاجدہ میں ،میرے دل میں رہتے ہیں ،توجہ کی طالب ہوں مگر آپ کی نگاہِ التفات نصیب ہی نہیں ہوتی ،میرے ساجن میں نے لاہور کا ڈومیسائل بھی بنوالیا ہے اور نام میں ”بٹ“لگا کر سیّد سے کشمیری بھی ہوگئی ہوں دیکھئے آپ کی ساری شرائط پوری کردیں اب تومیری محبت قبول کر کے مجھے اپنی محبوبہ ”لگادیجئے“
جواب کی منتظر :شریفہ بٹ نوٹ :ساجن میں نے پائے پکانے بھی سیکھ لےے ہیں ۔
٭….پیارے مولانا
….آپ کا نورانی چہرہ ،آنکھوں میں سجااور آپ کا عربی طن سماعت میں گونجتا رہتا ہے ”رانجھا رانجھا کرتی میں آپے رانجھا ہوئی “آپ کے لہجے میں حلق کے سُر سے آواز نکال کر بولنے کی کوشش کرتی ہوں تو قے ہوجاتی ہے اور گھروالے مشکوک نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں ۔آپ جب سے دل کے مہمان ہوتے ہیں ۔میرادل بڑا ہوگیا ہے اگرچہ شرعاًمحبت نامہ لکھنا جائز نہیں مگر1973ءکا آئین اس پر پابندی نہیں لگاتا اس لےے یہ خطرہ نہیں کہ آپ میرے اس اقدام کو غیر شرعی قرار دے دیں گے محبت کے جواب میں محبت نہ دیجئے۔چلےے ”اتحاد“ہی کر لیجئے۔صرف آپ کی خاطر میں نے ماں باپ کا دیا نام نیک پروین بدل کر ”حکومت خاتون رکھ لیا ہے اب تو آجائےے آپ کے انتظار میں بے تاب حکومت خاتون “
٭….ڈارلنگ
….کیسے ہو ،کبھی تو آﺅ ،میں کون سی عدالت یا ایوان کا اجلاس ہوں کہ تم سے آئے نہ بنے شاید تم اس لےے مجھ سے دور ہوگئے ہو کہ میں نے تمہارے مخالفین سے مل کر ”وردی اُتارو“کے نعرے لگائے تھ ارے پگلے وہ میرا بھول پن تھا ،مجھ بولی کو کیا پتہ کہ وہ موٹے کیا چاہتے ہیں ۔میرا تو اپنا ایجنڈا تھا اب سوچتی ہوں کہ وردی تمہاری کھال تھی کھال میں رہتے تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا ۔اس دکھیاری سے ایک بار تو کہہ دو سب س پہلے فرخندہ ۔تمہاری فرخندہ
٭….میرے فارغ بالما
….تمہارے سگار کی طرح تمہارے پیار میں سُلگ رہی ہوں ان دنوں فارغ ہو کب تک ٹاک شو میں شامیں گنواتے رہو گے ۔کچھ نہیں تو محب ہی کر لو ،الیکشن کی طرح دل بھی ہار جاﺅ ۔یہ کام تو ہے تم جیسے ”ویلوں“کا
٭….تمہاری طرح کنواری ”لالی“
….میرے سائیں پیار کھپے کھپے کھپے ،آپ کے صاحبزادے نے کہا تھا سرچاہےے ،سردیں گے ،جان چاہےے جان دیں گے ۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ اس بیان کو آپ کی پارٹی پالیسی سمجھتے ہوئے میں آپ سے آپ کا دل مانگتی ہوں ،مجھے سری پائے سے کوئی دلچسپی نہیں ،دل دیجئے نا،خدا سے دعا ہے کہ مجھے انسان سے قیمتی پلاٹ بنادے تاکہ آپ کی نگاہوں میں سماسکوں ،ہر ویلنٹائن ڈے پر آپ کو گلاب کے پھول بھیجے مگر کوئی جواب نہیں آیا اس بار پھول نہ مل سکے ،آپ کیلئے نوٹ نوٹ جوڑ کر سوکے نوٹوں کا سرخ ”گلدستہ“بنایا ہے کہ جواب آئے گا کچھ نہیں تو مفاہمت کی پالیسی ہی کے تحت میری محبت قبول کیجئے ،توجہ کی طالب ،سرمایہ بانو ۔،۔۔۔۔۔۔
٭….میرے محبوب
….یہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔تبدیلی تو نہ لاسکے مگر خود اتنابدل گئے کہ حسینوں کے جھرمٹ میں رہنے والا طالبات کمیٹی کیلئے نامزد کر دیا گیا انصاف کی بات کرتے ہو مگر مجھ پر اتنا ظلم کہ تمہارے پیار کےلئے ترس رہی ہوں اور تم خبر تک نہیں لیتے ایک شادی ختم ہونے پر اتنی مایوسی کیوں ،کہ دوسری کرتے ہیں نہیں اے میرے میانوالی والے مجھے میاں والی کردونا تمہاری سرخ روئی کیلئےمیں نے اپنا نام بدل کر ”تبدیلی “رکھ لیا ہے تاکہ تم مجھے اپنا کر فخر سے کہہ سکو تبدیلی آگئی ۔تمہارے پیار کے سونامی کی ماری تبدیلی
٭….میرے ساجن
….دل چاہتا ہے کہ آپ کے کالے چشمے کے اندھے کنوﺅں میں ڈوب جاﺅں ،پیار میں گھل گھل کر آپ کی پارٹی کی آدھی ادھوری رہ گئی ہوں ۔بس اتنا بتا دیجئے کہ ہماری پہلی اور اب تک کی آخری ملاقات میں آپ نے مجھ سے دوگھنٹے تک جو گفتگو کی تھی اس میں میرے حسن کی تعریف اور اظہار محبت ہی کر رہے تھے نا پلیز فون مت کیجئے گا تحریری جواب دیجئے گا ۔
آپ کی دلربا ۔۔۔۔ بانو