غزل اردو شاعری کی آبرو یا جان ہی نہیں بلکہ ایسی صنفِ سخن ہے جس سے اردو کی انفرادیت و شان و شوکت قائم و دائم ہے۔یوں تو ہر زبان میں شاعری زبان و بیان، اختصار و اجمال اور فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے اعلیٰ مقام پر فائز ہے لیکن اردو غزلیہ شاعری کے اشعار کا جو مقام و مرتبہ ہے اُس کی کوئی نظیر نہیں مل سکتی بشرطے کہ شاعر نے اس کے تقاضوں کو کسی حد تک پورا کیا ہو۔ کوزے میں دریا بند کرنے کی کہاوت در حقیقت غزل کے اشعار ہی پر سو فی صد صادق آتی ہے۔ یہاں دو مصرعوں میں ایک با شعور شاعر نہ صرف ایک جہانِ معنیٰ و مفہوم کو قید کر دیتا ہے بلکہ ایسے امکانات فراہم کر دیتا جہاں سے رنگ برنگی تفہیم کا چشمہ پھوٹ نکلتا ہے۔ غزل کی مقبولیت اور اس کی پُر کشش چمک دمک ہی وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے تقریباً ہر نیا شاعر شاعری کے آغاز کے وقت اس طرح اس کی طرف لپکتا ہے جیسے کوئی نونہال چراغ کو چھونے کے لیے لپکے۔ غزل کی طرف لپک کر جب اس سے آغازِ شاعری کرتا ہے تو یہاں اس کا ہاتھ نہیں جلتا بلکہ وہ ایک کیف و سرور محسوس کرتا ہے جو مزید اس کو غزل کا گرویدہ بناتا جاتا ہے اور جیسے جیسے اس کی باریکیوں اور تقاضوں سے واقف ہوتا ہے تو اپنی کاوشوں کو ادھورے خواب کی تعبیر سا محسوس کرنے لگتا ہے اور اس کا حق ادا کرنے سے خود کو عاجز پاتا ہے اور آخری سانس تک یہ احساس اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا بلکہ اس میں اضافہ ہی محسوس کرتا ہے۔ غزل وہ غزال ہے جس پر پوری طرح قابو پانا ناممکن تو نہیں لیکن انتہائی مشکل ضرور ہے۔ کسی کسی کو ہی اس پر گرفت نصیب ہوتی ہے۔
’’جاگتی آنکھیں خواب ادھورے‘‘ ڈاکٹر افتخار شکیلؔ کا پہلا مجموعۂ غزلیات ہے جس میں دھنک رنگ ہی نہیں بلکہ صد رنگ غزلوں کے علاوہ عقیدت و محبت سے لبریز چند حمد و نعت بھی غزل ہی کے فارمٹ میں شامل ہیں۔شاعر نے غزالِ غزل پر قابو پانے کی بھر پور کوشش کی ہے اور اس کوشش کے ثمرات جا بجا چمکتے دمکتے اشعار کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ افتخار شکیلؔ کہتے ہیں:
مانا روایتوں کے رہیں پاس دار ہم
کچھ تو جدیدیت کا بھی شعروں میں رنگ ہو
خود کو روایتوں کا پاس دار رکھنے کی تلقین کرنا زبان و ادب کے ماضی سے گہرے لگاو کی دلیل ہے۔ روایت پسندی در اصل اپنے ماقبل فن کاروں کی کورانہ تقلید یا اُن کے نقوشِ پا سے چمٹے رہنا نہیں بلکہ ان کے بھرپور ادراک کا نام ہے۔ اس ادراک سے جو جدیدیت نمودار ہوتی ہے وہی پائدار یا دیر پا ہوتی ہے جو مستقبل میں روایت کا حصہ بننے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ افتخار شکیلؔ کو روایت کا قابلِ قدر ادراک ہے۔ ان کی شاعری میں زبان و بیان کی چاشنی و روایت کی پاس داری کے ساتھ خیال و فکر کی نیرنگی جلوہ گر نظر آتی ہے۔
کسی بھی ادب پارہ میں انشایہ بیان خبریہ بیان سے بہتر سمجھا جاتا ہے۔ غزل کے شعروں میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ اشعار کا استفہامیہ رنگ انھیں اور زیادہ دل کش و دلربا بنا دیتاہے۔ شاعر جب مصرعوں میں سوال اٹھاتا ہے تو قاری یا سامع اپنے تجربے، مشاہدے اور مطالعے کے مطابق اس کا جواب تلاش کرتا ہے۔ اس طرح ایک ہی شعر میں اٹھائے گئے سوال کے مختلف جواب ابھرتے ہیں اور ان باتوں کی طرف ذہن لپکتا ہے جو بظاہر شعر میں نظر نہیں آتیں۔ افتخار شکیلؔ نے بھی بعض اشعار میں سوالات اٹھائے ہیں۔ کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے اور ذرا ٹھہر کر ان کا حظ اٹھائیے:
کس کو آواز دے رہے ہو شکیلؔ
یار تو جا چکے ہیں سب کے سب
کہاں اس کی قربت نے سیرابیاں دیں
مرے ساتھ سوکھی ندی چل رہی ہے
بات کیا ہے کبھی اک بار بتا بھی دیتے
یہ کوئی بات ہے ہردم مجھے تکتے رہنا
یہ کیسی فکر مجھ کو ہو رہی ہے
یہ کیسی بد گمانی درمیاں ہے
اکھڑنے لگتی ہیں سانسیں نہ جانے کیوں میری
اداس کمرے سے جب بھی صبا گزرتی ہے
وہ جو رہتا تھا گھیرے میں احباب کے
کیا ہوا اِن دنوں وہ اکیلا ہے کیوں
ایک فطری شاعر مظاہرِ فطرت سے خود کو ہم آہنگ پاتا ہے۔ یہ ہم آہنگی جس قدر مضبوط ہوتی ہے اسی قدر شاعری میں بھی فطری رنگ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ افتخار شکیلؔ نے مظاہرِ فطرت سے سورج، چاند، دھوپ، چھانو، جھرنا اور جگنو وغیرہ جیسی تشبیہات، استعارے اور علامتوں سے اپنی شعری کہکشاں کو خوب جگمگایا ہے:
چاند بن کر میں ترے ساتھ رہوں گا ہردم
تیری راہوں میں اندھیرا نہیں دیکھا جاتا
عجیب شور سا رہتا ہے آس پاس ترے
ترا وجود تو پانی کا ایک جھرنا ہے
سورج کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے اب تھک گیا ہوں میں
جگنو ہی کوئی مجھ کو چمکتا دکھائی دے
اِس قدر دھوپ چاروں طرف دیکھ کر
چھانو بھی مجھ سے کترا گئی دھوپ میں
جب سے اک چاند ہو گیا برہم
سر پہ سورج اٹھائے پھرتا ہوں
چاند کو محبوب کی علامت کے طور پر اردو شاعری میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہاں پہلے شعر میں شاعر نے خود کو چاند بنا کر مجبوب کی راہوں کے اندھیروں کو دور کرنے کے لیے پیش کیا ہے۔ گویا یہاں چاند محبوب نہیں بلکہ محبوب کا محبوب ہے جو اپنی محبت کی روشنی سے محبوب کی راہوں کو منور کر رہا ہے۔ دوسرے شعر میں شاعر نے محبوب کو جھرنے سے تشبیہ دی ہے جس کو جھرنے کے پاس اٹھنے والے شور اور محبوب کے آس پاس ہونے والی ہنگامہ خیزی سے مشابہ کیا ہے۔ تیسرے شعر میں سورج یعنی روشنی کے بڑے منبع کو ڈھونڈنے سے مراد کسی بڑی چیز کی جستجو سے لیا ہے اور نہ ملنے کی صورت میں جگنو پر اکتفا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ چوتھے شعر میں شاعر نے دھوپ سے مراد رنج و غم، مشکلوں اور مصیبتوں سے لیا ہے چھانو یعنی راحت بخشنے والی شے یا لوگ۔ آخری شعر میں چاند سے مراد محبوب ہے جو برہم ہو گیا ہے۔ لیکن اس برہمی کی وجہ سے سر پر سورج اٹھائے رکھنا مختلف کیفیات کی غمازی کرتا ہے جس کی وجہ سے شعر میں ابہام کا حسن بھی در آیا ہے۔ کیا سورج سر پر اٹھائے پھرنے سے شاعر نے مصیبت کا مارا یا پریشان حال مراد لیا ہے یا روشنی کے منبع کو سر پر اٹھائے پھرنا جس کی ضرورت چاند کو ہے۔ اِس طرح کے کئی سوال ذہن میں اُبھرتے ہیں۔
سادگی بھی شعر کے محاسن و خوبیوں میں سے ایک ہے جو بعض اوقات شعر کو سہلِ ممتنع کے قریب پہنچا دیتی ہے۔ سہلِ ممتنع میں عام طور سے سہل ہی کو سب کچھ سمجھ لیا جاتا ہے ممتنع کے مفہو م پر غور نہیں کیا جاتا جب کہ اصل مفہوم سہل کو ممتنع کے ساتھ سمجھنے سے واضح ہوتا ہے۔ سادگی میں پرکاری کے جوہر سے مزین اشعار بھی افتخار شکیلؔ کے یہاں کثرت سے ملتے ہیں جن میں کہیں والہانہ محبت کا اظہار ہوتا ہے تو کہیں محبوب کی شوخی و شرارت کا ذکر، کہیں خواب و خیال کی دنیا کی باتیں تو کہیں حقیقت اپنے رنگ اور روشنی بکھیرتی نظر آتی ہے:
اڑتی پھرتی ہے جو خیالوں میں
آرزو مجھ کو اُس پری کی ہے
جاگ اٹھّا ہوں آدھی رات کو میں
کس نے خوابوں میں گدگدی کی ہے
آپ چاہے یقیں کریں نہ کریں
ہم حقیقت بیان کرتے ہیں
رنگ میں روشنی اتر آئی
تجھ کو کاغذ پہ جب اتارا ہے
آنا ہے شکیلؔ اُس کو کسی روز مرے پاس
میں رنگ محبت کا اترنے نہیں دیتا
مشغلہ آج بھی یہ جاری ہے
نام لکھنا ترا مٹا دینا
افتخار شکیلؔ پیشے سے طبیب یا ماہرِ طب ہیں اور اردو زبان و ادب کی دولت آپ کو وراثت میں ملی ہے۔ آپ نے زندگی کے نشیب و فراز کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ آپ جہاں شاعری کی شکل میں جذبات و خیالات کے چراغ روشن کرتے ہیں وہیں حقیقت کی دنیا میں مختلف سماجی و فلاحی کاموں میں سرگرمِ عمل نظر آتے ہیں۔ شاعر کے ذہن اور اس کی شخصیت کا اس کی شاعری پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔تجربات و مشاہدات کے مطابق شاعر کے جذبات و احساسات جب ایک خاص ترتیب سے گزر کر شعر میں ڈھلتے ہیں اس وقت شاعر کا ذہن اور اس کی شخصیت ہی اچھی شاعری کے وجود میں آنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ افتخار شکیلؔ اپنی شاعری میں جذبات و خیالات کو بڑے فطری انداز میں حقائق کی ترجمانی کرتے ہوئے پیش کرتے ہیں:
دوام کس کو ملا ہے جو ہم کو مل جائے
تمھیں بھی جینا ہے کب تک ہمیں بھی مرنا ہے
پارسائی وبال بن جائے
آدمی اتنا پارسا نہ بنے
ذرا سی روشنی مانگی تھی ہم نے
وہ بستی ہی جلانا چاہتا ہے
زہر کا ذائقہ تو ہوتا ہے
موت کا ذائقہ نہیں ہوتا
آخری شعر میں شاعر نے بڑی پر لطف بات کہی ہے۔ زہر کھانے والوں نے پوٹیسیم سائنائڈ تک کے ذائقے کو مرنے سے پہلے بتا دیا ہے لیکن موت کا ذائقہ کسی نے نہیں بتایا ہے کیوں کہ اس کے بعد کچھ بتانے کی مہلت نہیں ہوتی۔ کلامِ پاک میں فرمایا گیا ہے کہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ یقیناًسب کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے یعنی موت سے کسی کو رستگاری نصیب نہیں ہے لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کسی کو بھی موت کا ذائقہ معلوم نہیں ہے ۔
الفاظ کی تکرار کو عام طور سے شاعری میں معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن ایک باشعور شاعر اسی تکرار سے شعروں میں حیرت انگیز دلکشی پیدا کر دیتا ہے۔ افتخار شکیل ؔ کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے:
کہنے کو کہہ دیا تھا کہ جی کر دکھائیں گے
تیرے بغیر جی کے دکھانے سے ہم رہے
میں تیرے بن نہیں کچھ بھی، نہیں کچھ بھی میں تیرے بن
کوئی چپکے سے میرے کان میں یہ بدبداتا ہے
شاعری میں شاعر کہیں جز کا ذکر کرکے کُل مراد لیتا ہے تو کہیں کُل سے جز۔ اشعار میں ابہام سے جو حسن پیدا ہوتا ہے اس کا بھی اپنا لطف ہوتا ہے۔ لیکن ان سب کے لیے ہنرمندی و سلیقہ شرط ہے ورنہ سب کچھ غارت ہونے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے۔ افتخار شکیلؔ کی ہنرمندی بھی ملاحظہ کیجیے:
سوچ منفی بدل بھی سکتی ہے
پاس اپنے ہمیں بٹھاؤ کبھی
دل سے تمھاری یاد ابھی تک نہیں گئی
عمرِ رواں کے کتنے دسمبر گزر گئے
پہلے شعر میں بہت لطیف ابہام ہے۔ یہ واضح نہیں ہوتا کہ منفی سوچ قائل کی ہے یا مخاطب کی۔ یہی ابہام اس شعر کا اصل حسن ہے۔ دوسرے شعر میں دسمبر گزرنے سے شاعر نے سال گزرنا مراد لیا ہے جو کہ بہت واضح ہے ۔
افتخار شکیلؔ کی شاعری میں پیچیدہ تراکیب، مشکل الفاظ یا گنجلک خیالات و مبہم اظہارِ بیان کہیں نظر نہیں آتا۔ آپ بڑی سادگی اور بے ساختگی کے ساتھ دو ٹوک انداز میں اپنے تجربات، مشاہدات، خیالات، جذبات و احساسات کو شاعری کے قالب میں ڈھال دیتے ہیں۔ طرحی غزلوں میں بھی آمد کی کیفیت پیدا کرلینے کے گُر سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ عام فہم زبان میں اشعار کی تخلیق اورصد رنگ مضامین سے غزلوں کو مزیّن کرنے کا ہنر بھی آپ کو خوب آتا ہے۔ امید ہے ڈاکٹر افتخار شکیلؔ کی جاگتی آنکھوں کے ادھورے خوابوں کی دل کشی و دلربائی سے قارئین خوب محظوظ ہوں گے اور شاعر کی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھ کر اور خاطر خواہ پزیرائی سے نواز کر ان کی تخلیقی قوت کو مزید توانائی و تابانی فراہم کریں گے۔
افتخار راغبؔ
جنرل سکریٹری ۔ بزمِ اردو قطر (قائم شدہ ۱۹۵۹ء )
ای میل: iftekhar_raghib@hotmail.com
دوحہ، قطر
۱۸ / ستمبر ۲۰۱۸ء