جج صاحب آپ تو پڑھے لکھے لگتے ہیں
خالد سعید اختر | Stories in Urdu
بعض دفعہ عدالتوں میں بڑے دلچسپ مقدمات سماعت کے لیے آجاتے ہیں۔ میں سَن چوراسی، پچاسی میں لاہور میں تعینات تھا اور ایک دن اپنے ریٹائرنگ روم میں بیٹھا ایک فائل کی ورق گردانی کررہا تھا کہ میرا ریڈر ہنستا ہوا اندر آیا اور بولا ’’سر جی! ہلے نہ وس وے کالیا۔‘‘
میں اس وقت کچھ خوش گوار موڈ میں نہ تھا۔ مجھے اُس کی یہ بے تُکلفی اچھی نہ لگی۔ میں درشت لہجے میں بولا’’یہ کیا بدتمیزی ہے؟‘‘ وہ سنجیدہ ہوگیا اور ایک مقدمہ کی مِسل میری طرف بڑھاتے ہوئے بولا’’سر! آپ خود ہی دیکھ لیں۔‘‘
ایک مقدمہ کسی دوسری عدالت سے منتقل ہو کر میری عدالت کے سپرد ہوا تھا۔ اور ہرجانہ دلاپانے کا دعویٰ تھا۔ جو ایک شخص نے جس کا نام اب یاد نہیں، ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کے خلاف دائر کررکھا تھا۔
مِسل ملاحظہ کرنے سے پتا چلا کہ مدعی مقدمہ نے مؤقف اختیار کررکھا تھا کہ مشہور پنجابی گیت’’ہَلے نہ وَس وے کالیا‘‘ اس کا تخلیق کردہ ہے جو کہ پنجابی زبان کی نظموں اور گیتوں پر مشتمل ایک کتاب میں اُس کے نام سے چھپا ہے اور کتاب پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل میں رہنے والے چند پرانے طلبہ نے چھپوا کر شائع کرائی ہے۔
جسے ریڈیو پاکستان اور پی-ٹی-وی نے رائلٹی ادا کیے بغیر اور اس کی اجازت لیے بغیر مشہور گلو کار اسد امانت علی سے گوایا ہے اور یہ گیت ریڈیو اور پی ٹی وی سے اکثر نشر ہوتا ہے۔
جبکہ ریڈیو اور پی ٹی وی کا مؤقف تھا کہ یہ ایک لوک گیت ہے اور مدعی کا تخلیق کردہ نہیں۔ اُس نے اس میں اپنے چند مصرعے شامل کرکے اپنے نام سے شائع کردیا ہے اور ادبی سَرقہ ہے۔ نیز لوک گیت کسی کی ملکیت نہیں ہوتا۔ لہٰذا مدعی مقدمہ کسی قسم کا ہرجانہ وصول کرنے کا حقدار نہیں۔
عرض دعویٰ کے مندرجات کے پیشِ نظر منجملہ دیگر تنقیحات (Issues)کے اس کیس میں یہ تنقیحات بھی وضع ہوچکی تھیں کہ’’لوک گیت‘‘ کیا ہوتا ہے؟ آیا گیت متنازعہ مدعی کا تخلیق کردہ ہے یا نہیں؟
یاد رہے کہ عدالتی زبان میں تنقیحات ایسے تصفیہ طلب امور کے تعین کرنے کو کہتے ہیں جو فریقین مقدمہ کے مابین متنازعہ ہوتے ہیں اور جن پر مقدمے کے فیصلے کا انحصار ہوتا ہے۔
قبل ازیں مدعی کی طرف سے شہادت پیش ہوچکی تھی اور فریق ثانی یعنی ریڈیو اور پی ٹی وی کی شہادت ریکارڈ ہونا باقی تھی۔ میں نے ریڈر سے کہا کہ وہ مقدمے کی پکارکراکر شہادت مدعا علیہان کے لیے تاریخ مقرر کردے۔
اگلی تاریخ پر باری آنے پر جب میں نے اُس مقدمہ کی پکار کرائی تو میری حیرانی کی کوئی انتہا نہ رہی جب ریڈیو اور پی ٹی وی کے چند افسران کے ہمراہ مشہور ادیب و دانشور جناب اشفاق احمد ، ایوب رومانی ڈائریکڑ جنرل ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی اور اس وقت کے پنچاب یونیورسٹی کے شعبہ پنجابی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر رشید ملک کمراء عدالت میں داخل ہوئے۔
اتنے بڑے بڑے عالم فاضل لوگوں کو دیکھ کر پہلے تو میں کچھ ٹھٹکا پھر جلد ہی سنبھل گیا اور ان سے رسمی دُعا سلام ہوئی۔
خیر جب اشفاق احمد ،ایوب رومانی اور ڈاکٹر رشید ملک کے بیان قلم بند ہوئے، تو انھوں نے لوک گیت کے بارے میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ لوک گیت کیاہوتا ہے اورآیاگیت متنازعہ ’’ہَلے نہ وَس وے کالیا‘‘ لوک گیت ہے؟
یا یہ مدعی مقدمہ کی تخلیق ہے۔ نیز اشفاق صاحب نے علم کے ماخذ (Sources of Knowledge)کے بارے میں اظہار خیال کیا۔ اُن سب کا خیال تھا کہ لوک گیت وہ ہوتا ہے جس کے لکھنے والے کا پتا نہ ہو۔
وہ نامعلوم ہو اور ایسا گیت عرصہ دراز سے موجود ہو۔ اور ایسا گیت کسی کی ملکیت نہیں ہوتا۔ انھوں نے مزید فرمایا کہ گیت متنازعہ ’’ہَلے نہ وَس وے کالیا‘‘ ایک لوک گیت ہے۔ اسے لکھنے والے کے بارے میں علم نہیں کہ اسے کس نے اور کب لکھا۔ ہم اسے عرصہ دراز سے سنتے آرہے ہیں۔ یہ گیت مدعی مقدمہ کی تخلیق نہیں اس نے ادبی سَرقہ کیا ہے۔
اشفاق صاحب نے علم کے مختلف ذرائع پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ علم کے حصول کا ایک ذریعہ تو یہ ہے کہ بڑے، بزرگ نوجوان نسل کو اپنے تجربے اور علم سے آگاہ کرتے ہیں۔ اور یہ علم سینہ بہ سینہ اگلی نسلوں کو منتقل ہوتا رہتا ہے۔
دوسرا ذریعہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے سُن کر کچھ چیزیں سیکھتے ہیں۔ تیسرا ذریعہ کتابیں ہیں جو ہم پڑھ کر علم حاصل کرتے ہیں اور چوتھا ذریعہ اسکول و کالج ہیں جہاں استاد اپنے علم اور تجربے سے اپنے شاگردوں کو سکھاتے اور کتابوں سے پڑھاتے ہیں۔
جب اُن کے بیان قلم بند ہوچکے، تو میں نے اُن سے نہایت ادب کے ساتھ گزارش کی کہ آپ میرے استادوں کے برابر ہیں بلکہ آپ لوگ استادوں کے استاد ہیں۔ آپ کے آگے بات کرنا، تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے سورج کو چراغ دکھانا۔ آپ بُرا نہ مانیں تو کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
انھوں نے قدرے حیران ہوکر کہا’’جج صاحب! فرمائیے کیا کہنا چاہتے ہیں؟ میں نے ذرا جھجکتے ہوا کہا کہ آپ لوگوں نے لوک گیت کی جو تعریف کی ہے وہ نامکمل ہے اور جامع نہیں۔ ضروری نہیں کہ جس گیت کا لکھنے والا نامعلوم ہو اور وہ گیت عرصہ دراز سے موجود بھی ہو تو لوک گیت بھی ہو یا جس گیت کے تخلیق کار اور عرصہ تخلیق کا علم تو ہو لیکن وہ لوک گیت نہ ہو
میں نے وضاحت کی کہ لوک گیت وہ ہوتا ہے جس میں عوامی اُمنگوں، عوامی جذبات اور مقامی ثقافت کی ترجمانی کی گئی ہو۔ اُس کے تخلیق کار یا عرصہ تخلیق کے معلوم ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اورمیں نے اپنے مؤقف کی تائید میں کچھ بولیوں، گیتوں اور ماہیے کی مثالیں دیں جن کے تخلیق کاروں اور عرصہ تخلیق کے بارے میں معلوم تھا مثلاً’’چٹے دند ہَسنوں نیوں رہندے تے لوکی بھَیڑے شک کردے۔‘‘ ’’تینوں چن دی سیر کراواں رُوس دے راکٹ تے‘‘ انڈیا کی مشہور پنجابی فلم’’بھنگڑا‘‘ کے بول ہیں۔
نقش لائل پوری کے لکھے ہوئے مشہور لوک گیت ہیں’’مینوں گُھنڈ کڈھناں نَچ آوے تے ماہیاں دا انیڑ آگیا‘‘ اور ’’مینوں اَگ دے بھبھوکے وانگوں مَچ لین دے تے دیور دے ویاہ وچ نچ لین دے۔‘‘ اور پھر ماہیے کے مشہور بول’’دوپَتر اناراں دے۔
تیرا میرا دُکھ سُن کے روندے پتھر پہاڑاں دے‘‘ ماضی کی مشہور فلم سٹار صبیحہ خانم کی والدہ اقبال بانو عرف بانو اور والد علی محمد عرف ماہیا سے منسوب ہیںاور اسی طرح کچھ دیگربھی۔
اور اُن کی رائے معلوم کی کہ آیا آپ اِن کو لوک گیتوں میں شامل کرتے ہیں یا نہیں تو انھوں نے اثبات میں سَر ہلایا۔ پھر میں نے اشفاق احمد صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ علم کے ایک ماخذ کو بھُول رہے ہیں۔
انھوں نے حیران ہو کر پوچھا: وہ کیا؟
، تو میں نے علامہ اقبال کا مشہور شعر پڑھ دیا۔
؎یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
اس پر وہ حیران ہوئے اور بولے’’جج صاحب! آپ تو پڑھے لکھے لگتے ہیں‘‘
مقدمہ ابھی زیر سماعت تھا کہ میرا تبادلہ ہوگیا۔