تحریر شازیہ عندلیب
راولپنڈی کی تاریخی آگ اور اوجڑی کیمپ میں اصلحہ ڈپو پھٹنے کا آنکھوں دیکھا حال
وہ دس اپریل کی عطر بیز صبح تھی۔راولپنڈی اسلام آباد کی فضائیں موسم بہار کی آمد پر پھلوں کی خوبوئوں سے مہک رہی تھیں۔سڑکو ںکے درمیان پیلی چمبیلی کے پھول طبیعت کو بشاش کر دیتے تو کچنار کے کی کچی کلیاںفضاء میں اپنے حصے کی خوشبو بکھیر رہی تھیں۔ایسے میں کون سوچ سکتا تھا کہ کچھ دیر بعد یہ خوشبوئوں میں بسا شہرخون اور دھوئیں کی لپیٹ میں آجائے گا ۔جن پیڑوں پر پرندے گیت گا یا کرتے تھے انہی پیڑوں کے سائے میںموت رقص کرے گی۔زندگی ماتم کناں ہو گی۔
بی اے کے امتحان کے بعد میں نے رزلٹ کا انتطار کرنے کے بجائے ایک اسکول میں جاب کر لی۔یہ شہر کا بہترین او ر مہنگا پرائیویٹ اسکول تھا۔مجھے نرسری کلاس ملی۔میں نے بچوں کو نظمیں پڑہا کر رائیٹنگ بکس نکالنے کا کہا تو اچانک کان پھاڑ دینے والی ایک خوفناک اور زور دار دھماکے کی
آواز سنائی دی۔ساتھ ہی گولیوں کی تڑاتڑ کی آوازآنے لگی۔میں تو کیا اس وقت شہر کا ہر ذی روح کانپ اٹھا۔نہ جانے اس ایک دھماکے سے کتنے ہی لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہوں گے۔میں صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔کوئی لوہے کی چیز چھت سے آ کر ٹکرائی۔مجھے ایسا لگا جیسے فضاء میں کوئی بڑا طیارہ پھٹ گیا ہے اورا ب اسکے ٹکرے چھت پر گر رہے ہے ہیں ۔بچے مجھ سے پوچھ رہے تھے میڈم یہ کیا ہے؟مجھے ماحول سے خطرے کی بو آ رہی تھی ہر طرف دھوئیں کی چراند پھیل رہی تھی۔موت کے سائے لہرا رہے تھے۔زندگی تڑپ رہی تھی۔انسانیت سسک رہی تھی۔کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ ہو کیا رہا ہے کہ ایک اور بچے نے میرا دامن تھام کر بڑی مصومیت سے سوال کیا۔میں کیا جواب دیتی ۔مجھے تو خود کچھ پتہ نہیں تھا بس ایک احساس تھا شدید خطرے کا۔میری آنکھوںمیں آنسو آ گئے جو میں نے کھڑکی کی جانب منہ کر کے پینے کی کوشش کی۔اتنے میں مجھے اسکول کے پرنسپل برطانوی نثراد سر برمبل کومب نظر آئے۔میں نے دیکھا انکی آنکھوں میں بھی آنسو تھے وہ دونوں ہاتھ ہلا ہلا کر سب ٹیچرز کو بچوں کے ساتھ چیخ چیخ کر کلاسز سے باہر نکلنے کا اشارہ کر رہے تھے ۔میں نے فوراًبچوں سے باہر نکلنے کا کہا۔بچے جلدی سے بیگ اٹھانے لگے میں نے انہیں کہا بیگز رہنے دو پھر لائن بنانے لگے میں نے انہیں لائن بنانے سے منع کیا اس روز بیس بچے تھے۔سب کو کلاس سے نکال کر میں دھماکوں کی آواز سے مخالف سمت میں پڑوس کے وسیع بنگلے کی جانب پناہ کے لیے بھاگی۔یہ ایک پرانی طرز کا شاندار بنگلہ تھا اسکی طویل چاردیواری اینٹوں سے بنی تھی جو کہ چار فٹ بلند تھی۔میں نے اوپر کے حصے کی اینٹیں ہاتھوں سے اکھاڑیں۔جانے اس وقت اتنی طاقت کہاں سے آ گئی تھی۔پھر بچوں کو اٹھا اٹھا کر دیوار کی دوسری جانب گھاس پر پھینکا۔میں نے بچے گنے یہ بیس نہیں بلکہ پچیس تھے۔ساتھ والی کلاس کے بچے بھی میرے پاس ہی آ گئے تھے۔کئی کلاسز کی ٹیچرز اپنے بچوں کو لینے گاڑیوں میں بھاگ گئی تھیں۔جو کہ بعد میں بے ہنگم ٹریفک کی افرا تفری میں پھنس گئیں تو کچھ زخمی بھی ہوگئی تھیں۔اس وقت ہر کسی کو اپنی جان کی ہی فکر تھی۔فضاء میں مسلسل دھماکے اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ تھی۔سر برمبل کی گاڑی ایک راکٹ لانچر سے پچک گئی تھی۔باقی کئی ٹیچرز اپنی گاڑیوں میں بھاگ چکی تھیں۔میں اپنی زندگی کی انیس بہاریں دیکھ چکی تھی۔ان ننھے بچوں نے ابھی زندگی میں کچھ نہیں دیکھا تھا۔اب مجھے انہیں بچانا تھا۔میں نے فیصلہ کیا اور پڑوس کے ڈرائنگ روم میں بچوں کو لے گئی۔وسیع اور سجا سجایا ہال نماء ڈرائنگ روم خالی پڑا تھا۔گھر کے مکین گھر کھلا چھوڑ کر پناہ کی تلاش میں بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔میرے ساتھ وائس پرنسپل انجم بھی تھی۔کہیں سے کوئی فوج کا میجر بھی آگیا تھا۔وہ کہنے لگا حافط آباد میں ایک ایمونیشن ڈپو میں آگ لگ گئی ہے۔فکر کی کوئی بات نہیں۔آگ پہ قابو پانے کی کوششیں ہو رہی ہیں آپ لوگ جہاں ہیں وہیں رہیں۔ ادھر ادھر نہ بھاگیں۔اگر کوئی بھی اصلح نظر آئے تو بم ڈسپوزل اسکواڈ کو فون کریں اسے ہاتھ بالکل نہ لگائیں۔
تین ماہ بعد میری شادی تھی۔اس کے علاوہ بیرون ملک کا ویزہ بھی لگا ہوا تھا۔میں شادی سے پہلے اپنی بہن کے گھر جانا چاہتی تھی۔مگر ویزہ اتنا لیٹ ملا کہ وزٹ کینسل کرنا پڑا۔چارسالہ منگنی کا پر لطف دور ختم ہو کر شادی کے امتحان میں ڈھلنے جا رہاتھا۔شادی کا ایک اپنا چارم ،امنگیں اور آرزوئیں ہوتی ہیں۔خوبصورت سپنے اور مستقبل کی خواہشیں دل کو اپنی مٹھی میں لے لیتی ہیں۔میں شادی کی سنہری زنجیروں میں قید ہونے کے کی تیاری میں تھی۔ مگر اب لگتا تھا کہ کہیں یہ زنجیر ہی نہ بکھر جائے نہ ہم ہوں گے نہ سپنے اور بس اس سے آگے کچھ نہیں سوچا جاتا تھا۔میں سوچ کی بند گلی میں کھڑی تھی جہاں سے کوئی راستہ نہیں جاتا تھا۔میں نہ جانے بچ بھی پائوں گی کہ نہیں۔دل میں وسوسے اٹھنے لگے۔اس قطار کا ہر گھر ویران تھا۔صرف ہم لوگ اتنے خطرناک زون مین پناہ لیے ہوئے تھے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ۔شادی کی خواہش تو دل میں تھی مگر اب ہر خواہش پر صرف بچوں کی زندگی کی خواہش ہی غالب تھی۔باہر فضاء میں بدستو رکان پھاڑ دینے والے اور دل دہلا دینے والے خوفناک دھماکے جاری تھے۔اس کے ساتھ گولیوں کی جان لیوا تڑتڑاہت بھی تسلسل سے آ رہی تھی۔یوں لگتا تھا کہ موت فضاء میں گرج رہی ہے اور ہر ذی روح کو للکار رہی ہے۔میجر صاحب نے بتایا کہ اصلحہ میں سے فیوز نکلے ہوئے ہیں اس لیے وہ چل نہیں سکتا بس تھوڑا بہت نقصان ہو گا۔ابھی کم نقصان ہو گا فیوز نکلے ہوئے ہیں اور ہر طرف تباہی ہو رہی تھی ۔اگر فیوز لگے ہوتے تو کیا ہوتا یہ سوچ کر ہی جھرجھری سی آگئی۔دھماکوں سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔مگر یہ کیا میں نے اپنے اندر جھانکا تو وہاں سکون کا ایک بیکراں سمندر موجزن تھا۔کب زبان پر آئیت الکرسی کاورد جاری ہوا یاد نہیں۔ایسامحسوس ہوا جیسے میرے ارد گرد ایک حفاظتی حصار سا کھینچ گیا ہو اس حصار میں میں بالکل محفوظ ہوں۔ساری گولیاں سارے بم سارے راکٹ لانچر اور اصلحہ اس حصار سے ٹکرا ٹکرا کر تتر بتر ہو رہا ہے میں اور میرے ساتھ بچے سب محفوظ ہیں۔پورے شہر کے لوگ ادھر ادھر جان بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے اور میں اطمینان سے ایک اجنبی مکان میں بیٹھی تھی جس کے مکین خود پناہ کی تلاش میں گھر سے بھاگ چکے تھے۔تھوڑی دیر بعد وقفہ وقفہ سے والدین اپنے بچوں کو آ کر لے گئے۔چند بچے رہ گئے تھے۔ٹھیک سوا بارہ بجے اسکول وین کا باریش ڈرائیور کسی فرشتہ کی طرح واردہو گیا۔اسکول سے گھر تک کا راستہ ویران کھنڈر کا منظر پیش کر رہاتھا۔دوکانیں بند اور ویران تھیں جگہ جگہ سے دھواں اٹھ رہا تھا۔پنڈوڑہ چوک کا کونے والا لکڑی کا ٹال جل کر سیاہ ہو چکا تھا۔ایسے میں دل کی گہرائیوں سے میں نے التجاء آمیز لحجے میں اپنے رب کے حضور دعا کی کہ مجھے کوئی خوفناک منظر نہ دکھانا میں تاب نہ لا سکوں گی۔میرے رب نے میری دعا سن لی اور پندرہ منٹ بعد میں گھر کے دروازے پر تھی۔دروازے کے آگے بم پڑا تھا۔مجھے میجر کی بات یاد آئی کہ کسی اصلحہ کو ہاتھ نہ لگائیں۔میں نے بم پھلانگ کر گھر کی دہلیز پار کی۔یہ وہ وقت تھا کہ پورے شہر میں اصلحہ اور اانسانی جسموں کے اعضا ء کھلونوں کی طرح بکھرے پڑے تھے۔امی نے مجھے دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا ۔اور بتایا کہ چھوٹا بھائی اسکول سے ڈر کر سڑک پر بھاگا جا رہا تھا کہ اسے ایک اسکوٹر والے نے گھر پہنچایا۔گھرکی مشرقی حصے میں بہت دور دھویں کے کثیف بادل اٹھ رہے تھے۔یہی اوجڑی کیمپ کا ڈپو تھا جہاں حادثہ ہوا تھا۔
میرے بدن کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا۔میںنڈھال ہو کر بستر پر لیٹ گئی کہ اچانک ایک خیال مجھے بجلی کے کوندے کی طرح ذہن پر لپکا۔پچھلے ہفتے میں نے ایک خواب دیکھا تھا۔جس میں میں نے دیکھا تھا کہ ایک ایرانی چڑیل نے پورے شہر کو آگ لگا دی ہے ا ور گوشت کے لوتھڑے بجلی کی تاروں سے لٹک رہے ہیں۔میں اس چڑیل سے بھی اوپر اڑتے ہوئے آئیت الکرسی کا ورد کرتی ہوئی گھر پہنچتی ہوں اور گھر کے دروازے کے آگے بم پڑا ہوتا ہے۔یہ خواب میں نے ٹھیک ایک ہفتہ پہلے دیکھا تھا۔صبح اٹھ کر میں نے سوچا بھی تھا کہ یہ خوفناک کہانیوں جیساخواب مجھے کیوں آیا ہے حالانکہ میںنے ماضی قریب میں نہ تو کوئی خوفناک فلم دیکھی نہ ہی کوئی دھماکہ ہوا اورنہ ہی کبھی بم دیکھا۔کچھ سمجھ نہیں آئی۔میں جب بھی خواب دیکھتی ہوں اسکا تجزیہ ضرور کرتی ہوں کیونکہ اکثر خواب سچے ہوتے ہیں۔مگر اس خواب کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔ٹھیک ایک ہفتہ پہلے میں نے یہ خواب دیکھا اور اس میں ایرانی چڑیل کا شارہ دراصل اس جانب تھا جس میں اصلحہ میںآگ لگا کر ثبوت ختم کی کوشش کی گئی ۔اس واقعہ میں ایران کو اصلحہ ناجائز طور پر فراہم کرنے کا معاملہ بھی تھا۔میںنے اپنے رب کریم کی ذات کا کروڑہا شکر ادا کیا جس نے نہ صرف مجھے گھر محفوظ پہنچا دیا بلکہ ساتھ میں ننھے منے بچوں کی بھی حفاظت کرائی۔مگر بے قصور شہریوں کی جانیں تلف ہونے کا بے حد رنج تھا۔بعد کے واقعات اس قدر جان لیوا اور دکھی کرنے والے تھے کہ یہ واقعہ کبھی میر ے ذہن سے محو نہیں ہوا ۔میں ہزار چاہنے کے باوجود بھی اس کی خوفناکی کو قلم بند نہ کر سکی گو ہر برس ارادہ ضرور کرتی تھی۔وہ دن کس قدر خوفناک تھا میری تحریرر اسکا احاطہ نہیں کر سکتی ۔میں تحریر تو نہ کر سکی مگر ہر برس دس اپریل کے روز میرا پورا وجود اس خوفناک واقعہ کو یاد کر کے لرز اٹھتا ہے۔
وہ ایسا دن تھا کہ اصلحہ فضاء میں پتنگوں کی طرح اڑتا تھا اور جو لوگ گاڑیوں میں بھاگ رہے تھے ان کے پیچھے اڑتا تھا ۔کئی مقامات پر لوگوں نے انسانیاعضاء دیکھے۔کسی کو کسی کا ہوش نہیں تھا۔بچے گم ہو گئے ۔مائیں بچے چھوڑ کر بھاگ گئیں۔ڈاکٹر آپریشن ٹیبل پر مریض چھوڑ کر بھاگ گئے۔مریض بستروں سے ا ٹھ بھاگے اور مکیں اپنے مکان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ کئی لوگ شیخ رشید کے اعلان جنگ پر کمین گاہوں اور تہہ خانوں میں جا چھپے اور کئی کئی روز بعد یہ کہتے ہوئی نکلے کہ جنگ ختم ہو گئی ؟؟کثر تو یہ شہر ہی چھوڑ کر بھاگ گئے۔بعض گٹھیا کے مریض اچانک اٹھ کر بھاگنے سے صحتمند ہو گئے۔جبکہ کئی معذور بھی ہو گئے۔ادھر لوگ گھر چھوڑ کر بھاگے تو ادھر چور گھر لوٹ کر بھاگے کہ اصلحہ کا نشانہ بن کر نشان عبرت بن گئے۔
یہ دو واقعات تو بہت ہی عبرتناک تھے۔ایک بوڑھی عورت جو ایک گڑھے میں پناہ گزین تھی۔ایک چور نے اسکی چوڑیاں اتارنے کی کوشش کی۔بوڑہی عورت نے احتجاج کیا تو بے رحم چور نے اس ضعیف عورت کا بازو ہی کاٹ لیا ۔اسکا چوڑیوں بھرا بازو کاٹ کر اپنے تھیلے میں ڈالا جوغالباً وہ چوری کا مال اکٹھا کرنے کی نیت سے ہی لایا تھا۔کچھ دور چلا کہ ایک راکٹ لانچر کا نشانہ بن گیا اور اسکا سر دھڑ سے الگ ہو کر دور جا گرا۔جب لوگوںنے اسکی مٹھی میںمضبوطی سے پکڑے ہوئے تھیلے کو کھولا تو اس میں سے چوڑیوں بھرا بازو بر آمد ہوا۔اسی طرح ایک گرلز کالج کی ایک پروفیسر کے جسم کو ایک راکٹ لانچر نے اس وقت دو حصوں میں تقسیم کر دیا جب وہ بھاگ کر اپنی گاڑی کی طرف جا رہی تھی۔اس پرو فیسر کے بارے میں اس کے پڑوسیوں نے بتایا کہ اس کی ماں اس کے گھر سے اکثر روتی ہوئی جاتی تھی کیونکہ وہ اپنے چھوٹے بھائی کا وراثت کا حصہ نہیں دیتی تھی۔
میں نے اس المناک حادثہ سے یہ سبق سیکھا کہ موت تو برحق ہے اس سے کوئی بچ نہیں سکتا چاہے وہ اس سے کتنا ہی کیوں نہ بھاگے ۔لیکن صرف انسان کی اچھی نیت اپنے رب پہ کامل بھروسہ اور دوسروں کی مدد ہی انسان کو مشکل سے مشکل حالات سے نکال سکتی ہے۔مگر میں یہ نہ سمجھ سکی آج تک کہ مجھے وہ خواب کیوں آیا کاش میں اس کے پیغام کو سمجھ سکتی اے کاش یا پھر کوئی مجھے سمجھا دے۔
درحقیقت امریکہ سے لیے گئے اصلحہ کی تحقیقات سے بچنے کے لیے یہ آگ لگائی گئی تھی ۔کہ پاکستان نے ایران کو اصلحہ کیوںبیچا۔آگ لگانے والوں کا خیال تھا کہ اس پر قابو پا لیا جائے گا۔کاش یہ آگ لگانے والے یہ سوچ لیتے کہ آج وہ خود تو اتنے لوگوں کو آگ میں جھونک کر بچ گئے ہیں۔مگر وہ جہنم کی آگ سے کیسے بچیں گے۔اس وقت وہ کسے پکاریں گے جب روز محشر انکا جرم خود انہیںپکارے گا۔کیا وہ اسی رب سے مدد مانگیں گے جس کے حکم پر وہ دنیا میں کان بھی نہیںدھرتے تھے۔کیا وہ اس ربّ زوالجلال سے رحم کی توقع رکھتے ہیں جس کی مخلوق پر انہوں نے کبھی رحم نہیں کیا؟؟؟