سلطان الاصفیاء حضرت علاوالدین احمد صابرؒ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کے داماد اور بھانجے تھے۔آپؒ کے متعلق مشہور کہ آپ صاحب جلال تھے ،جو ایک بار زبان سے نکل گیا وہ پورا ہوکر رہا ۔ محقق ڈاکٹر ظہور الحسن شازب لکھتے ہیں کہ حضرت بابا فریدؒ نے جب آپؒ کو بیعت فرمایا تو 14 ذی الحجہ 650 ھ کو خرقہ خلافت عطا کرتے ہوئے دہلی کی ولایت آپؒ کے سپرد فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ پہلے ہانسی جاکر حضرت جمال الدین سے خلافت نامہ پر مہر لگوالینا پھر دہلی جانا
حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ جب کسی کو خلافت نامہ عطا فرماتے، اس شخص کو تاکید فرماتے کہ ہانسی جاکر پہلے شیخ جمالؒ سے مہر لگواؤ۔ اگر آپؒ مہر لگا دیتے تو اس کا خلافت نامہ مستند سمجھا جاتا اور اگر آپؒ مہر نہیں لگاتے تو حضرت بابافریدؒ بھی قبول نہ فرماتے اور جواب دیتے ’’جمال کے پارہ کئے ہوئے کو ہم نہیں سی سکتے‘‘ ۔ حضرت جمال ؒ پیمانہ طریقت پر ہر کسی کو تولتے تھے ۔لیکن جب حضرت صابرؒ آپؒ کے پاس پہنچے تو آپؒ دونوں بزرگان میں ٹکراؤ پیدا ہوگیا۔
حضرت علاو الدین صابرؒ ہانسی پہنچ کر آپؒ حضرت جمال الدین کی خانقاہ میں ڈولی نما ایک سواری پر سوار ہوکر داخل ہوئے۔توجمال الدین ہانسویؒ کو آپ کو یوں شان تفاخر و راحت سے آنا نا گوار گزرا۔نماز کے بعد آپؒ نے اپنے پیرو مرشد کا عطا کردہ خلافت نامہ نکالا اور حضرت جمال الدین ہانسویؒ سے اس پر مہر لگانے کو کہا۔حضرت جمال الدین ہانسویؒ نے چراغ منگوایا اور خلافت نامہ کو پڑھنا شروع کیا۔ ہوا تیز چل رہی تھی۔ چراغ یکایک گْل ہوگیا۔حضرت جمال الدین ہانسویؒ نے آپؒ سے کہا کہ چونکہ چراغ گل ہوگیا ہے لہٰذا اب خلافت نامہ پر کل دستخط کردیے جائیں گے۔
حضرت صابر ؒ نے جب یہ سنا تو پھونک مارکربجھے چراغ کوروشن کردیا۔حضرت جمال الدین ہانسویؒ ناراض ہوئے اور کہا ’’ دہلی والے کب آپؒ کو برداشت کر سکیں گے۔ آپؒ تو ذرا سی دیر میں دہلی کو جلا کر خاک کردیں گے‘‘۔یہ کہہ کر حضرت جمال الدین ہانسوی نے آپؒ کا خلافت نامہ پھاڑ دیا۔خلافت نامہ پر مہر نہیں لگائی۔
حضرت علاؤ الدینؒ کوبھی حضرت جمال الدین ہانسویؒ کا یہ عمل ناگوار لگا اور آپ ؒ نے غصہ کی حالت میں حضرت جمال الدین ہانسویؒ سے فرمایا’’ چونکہ تم نے میرے خلافت نامے کو چاک کر دیا ،میں نے تمہارے سلسلہ کو مٹادیا‘‘۔
حضرت جمال الدین ہانسویؒ نے پوچھا ’’ از اوّل یا از آخر‘‘۔آپؒ نے جواب دیا ’’ از اوّل‘‘ آپؒ اجودھن واپس آئے اور سارا ماجرا حضرت بابا صاحب کے گوش گزار کیا۔ یہ سن کر با با فریدؒ نے فرمایا ’’ جمال کے پارہ کئے ہوئے کو فرید نہیں سی سکتا‘‘۔ اس کے بعد بابا فرید نے آپؒ کو کلیر کی ولایت سپرد فرمائی لہٰذا آپؒ اپنے پیر و مرشد کے حکم پر کلیرپہنچے۔
ایک روز آپؒ جامع مسجد کی پہلی صف میں بیٹھے تھے۔ اتنے میں رئیس کلیر اور قاضی شہر مسجد میں آئے۔ آپؒ کو پہلی صف میں بیٹھا دیکھا توآپؒ کو اور آپؒ کے معتقدین کو برا بھلا کہا اور پہلی صف سے ہٹا دیا۔آپؒ وہاں سے اٹھ کر مسجد سے باہر آکر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ آپؒ نے مسجد کی طرف دیکھا اور فرمایا ’’ تو نے ان لوگوں کو صحیح سلامت چھوڑ دیا‘‘ آپؒ کا یہ فرمانا تھا کہ مسجد ایک دم گری وہ سب لوگ دب کر مر گئے۔