غزل
بھاتی تھی ہم کو کل تک، بس روشنی کی باتیں
راس آئیں شامِ غم میں،اب تیرگی کی باتیں
شدّت کی دھوپ میں جب، جلتا ہو جسم سارا
ٹھنڈک کہاں سے دیں گی، پھر چاندنی کی باتیں
جس شخص کو بھی دیکھو، اِس دور کا خدا ہے
لب پر نہیں کسی کے، اب بندگی کی باتیں
دیر و حرم میں اُلجھو، جھگڑے ہزار ہوں گے
دل کو سکون دیں گی، کچھ شاعری کی باتیں
جن کو نہ علم تھا کچھ، کیا چیز ہے محبت
اُن کو بھی آگئی ہیں، اب عاشقی کی باتیں
دن رات خودپرستی جن کی بنی ہے فطرت
اُن کے لبوں پہ آئیں کیوں بے خودی کی باتیں
رہنے دو اے رفیقو! یہ تلخیاں زباں کی
چھیڑیں نہ آج کیوں ہم کچھ دلکشی کی باتیں
ہمدرد ہو اگر تم، تو خود اُنہیں پرکھ لو
اُن فاقہ مستیوں میں، ہیں بے بسی کی باتیں
مانگو جو پیار سے گر، حاضر ہے جان و دل بھی
موناؔ سے مت کرو تم، یہ بے رخی کی باتیں