عارف محمود کسانہ
تصور کریں کہ آپ کسی سنسان علاقہ میں اندھیری رات میں محو سفرہوں اور آپ کو درست راستے کا بھی علم نہیں اور سڑک پر راہنمائی کے لئے سائن بورڈ بھی نہ ہوں تو ایسے میں آپ کی کی حالت کیا ہوگی۔ کچھ ایسا معاملہ ہمارے ساتھ ایک مرتبہ پیش آیا جب ہم ناروے کے شمال میں سفر کررہے تھے۔ ہم اپنے ہوٹل پہنچنے کے لئے جس راستہ سے گزر رہے تھے وہاں آبادی بہت ہی کم تھی اور ہوٹل کسی پہاڑی پر واقع تھا۔ رات بہت اندھیری تھی اور اس پر مزید یہ کہ جس سڑک سے سفر کر رہے تھے وہ زیر تعمیر تھی۔ اس پر نہ ہی کوئی روشنی کا انتظام اور نہ ہی کوئی راہ نمائی کے نشانات تھے۔ گاڑی بہت ہی کم رفتار سے چلائی جاسکتی تھی۔ اہلیہ بہت ہمت کرکے گاڑی چلا رہی تھیں اور میں ساتھ بیٹھا اپنے آپ کوکوس رہا تھا کہ اس ہوٹل کا انتخاب کیوں کیا اور پھر سر شام کیوں یہاں نہ پہنچے۔ کہیں کوئی روشنی دیکھائی نہیں دے رہی تھی اور محسوس ہورہا تھا کہ ہم بلندی کی طرف سفر کرہے ہیں۔اجنبی علاقہ میں ہم دونوں گاڑی میں متفکر بیٹھے تھے اور بہت سست روی سے سفر کٹ رہا تھاوقت گزرتا جا رہا تھا لیکن منزل کے کوئی آثار دیکھائی نہیں دے رہے تھے۔ اس پریشان کن ماحول میں ہوٹل کے استقبالیہ کو فون کیا اوراپنی پریشان کیفیت سے آگاہ کرتے ہوئے راہ نمائی چاہی۔ استقبالیہ پر موجود خاتون نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس نیوی گیٹر ہے۔کیاوہ منزل کی نشاندہی کررہا ہے اور کیا آپ کا فاصلہ کم ہوتا جارہا ہے۔ انہیں بتایا کہ تینوں باتیں درست ہیں، نیوی گیٹر منزل کی نشادہی کررہا ہے اور ہوٹل کی جانب فاصلہ بھی بتدریج کم ہوتا جارہا ہے۔ اس پر ہوٹل کے استقبالیہ پر موجود خاتون نے کہا کہ پھر فکر کی کوئی بات نہیں، آپ ہوٹل پر پہنچ جائیں گے۔ یہ سن کر قدرے اطمینان ہوا اور واقعی کچھ دیر بعد ہماری گاڑی ہوٹل کے سامنے کھڑی تھی۔ اس ساری کہانی کا مقصد یہ کہ اندھیری رات، انجانے اور دشوار راستہ میں اگر نیوی گیٹر نہ ہوتا تو ہم اپنی مقصود پر نہ پہنچ پاتے۔ خالق کائنات نے انسان کو پیدا کیا اور شاہراہ حیات پر سفر کی راہ نمائی کے لئے قرآن حکیم کی صورت میں نیوی گیٹر دیا ہے۔ قرآن حکیم زندگی کی گاڑی کی درست سمت میں راہ نمائی کرتے ہوئے کامیابی سے منزل تک پہنچا دیتا ہے۔اس کتاب عظیم کے بارے میں پروردگار عالم نے کہا ہے کہ جب انسانیت ظلمت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں بھٹک رہی تھی تو ہم نے اس قرآن کو بہت فضیلت والی رات نازل کیا۔ ایسی رات جو ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے۔ اس کتاب میں انسانوں کی نفسیاتی الجھنوں کا حل بھی ہے اور دل کا اطمینان بھی۔ شاہراہ زندگی پر کامیاب سفر کے لئے خضر راہ ہے اور راستے کی دشواریوں سے نہ صرف آگاہ کرتی ہے بلکہ ان کا حل بھی بتاتی ہے۔ گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹکتی ہوئی انسانیت کے لئے یہ رب کی طرف سے اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس کے ملنے پر جشن مسرت منانے کا حکم دیا ہے۔ چونکہ قرآن حکیم کا نزول ماہ رمضان میں ہوا اس لئے اس ماہ مبارک کے اختتام پر منائی جانے والی عیدالفطر ایک طرح سے جشن نزول قرآن بھی ہے۔ قرآن مجید جیسی عظیم نعمت ملنے پر ہم خوشی کا اظہا رکرتے ہیں۔
اس کتاب عظیم کا تعارف کراتے ہوئے اس کے بھیجنے والے نے کہا کہ یہ روشن کتاب ہے اس لئے اسے خارج سے کسی روشنی کی ضرورت نہیں۔ یہ خیر ہے، ذکر ہے، اس کا محافظ اسے بھیجنے والا ہے۔ یہ اختلافات مٹانے کے لئے آیا ہے اور سمجھنے کے لئے نہایت آسان ہے۔ یہ اپنا مطلب خود واضح کرتا ہے اور اسے تصریف آیات کی تحت سمجھا چاہیے۔ یہ نصیحت ہے، شفا ہے، نکھار کر بات کرنے والی ہے، مفصل ہے، مبارک ہے، عربی مبین میں ہے، غیر متبادل ہے، ہدایت ہے، تنذیر اور تبشیر ہے، کتاب حکمت ہے اور پھر یہ وہ کتاب ہے جس میں تمہارا ذکر ہے۔ اس کی سچائی کی دلیل یہ ہے کہ اس میں کوئی اختلافی بات نہیں اور دنیا بھر کے جن و انس اس کی مثل نہیں بنا سکتے۔ یہ خدا کی طرف سے ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسے بدل نہیں سکتے تھے۔ حکم دیا گیا کہ اس پر ایمان لاؤ، اسے سمجھو اور اس کا اتباع کرو اور رسول اکرم بھی اسی کا اتباع کرتے تھے۔ تمام متنازعہ امور کے فیصلے اس کی رو سے کرو اور جو اس کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ فاسق، ظالم اور کافر ہیں۔ خدا نے جو کچھ کہنا تھا وہ اس کتاب میں کہہ دیا ہے۔ حکیم الامت علامہ محمداقبال قرآنی ہدایات کے تناظر میں مسلمان کو قرآنی احکامات پر عمل کرنے اور قرآن مجید میں تدبر کرنے کی تلقین پر گفتگو کرتے ہوئے اپنے خطبات میں لکھتے ہیں کہ قرآن مجید کا حقیقی مقصد تو یہ ہے کہ انسان اپنے اندر گوناگوں روابط کا ایک اعلیٰ اور برتر شعور پیدا کرے جو اس کے اور کائنات کے درمیان قائم ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ قرآن میں گہرے غور و فکر کے بعد انسان کے اندر خدا سے قلبی ربط کا اعلیٰ شعور بیدار ہو جائے اور قرآن کے بغیر یہ شعور پانا ناممکن ہے۔
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
رمضان المبارک میں قرآن حکیم بہت زیادہ پڑھا جاتا ہے لیکن کاش اگر اسے سمجھ کر پڑھا جائے۔ قرآن حکیم بھی یہی مطالبہ کرتا ہے کہ اسے غوروفکر کے ساتھ سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ قرآن حکیم کو سمجھے بغیر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کتاب سے راہ نمائی حاصل کی جائے۔ اسی طرح ہمارے ہاں میلاد کی محافل میں جہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور فضیلت بیان کی جاتی وہیں اگر اسوہ حسنہ پر عمل، حضور کی پیروی اور قرآن حکیم کے مطابق زندگی بسر کرنے کا درس دیا جائے تو ہماری زندگی میں تبدیلی واقع ہوگی۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ تم قرآن پر غورکیوں عمل نہیں کرتے، کیا تمہارے دلوں پر تالے پڑے ہوئے۔ رسول اکرم سے محبت کا دعوی کرتے وقت ہمیں قرآن کی اس آیت کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ روز قیامت رسول اکرم اللہ سے اپنی امت کی شکایت کریں گے کہ میری امت نے اس قرآن کو مہجور بنادیا تھا۔ یعنی قرآن کو متروک بنا کر اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا تھا۔ ہمیں سورہ فرقان کی اس آیت پر غور کرنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارا شمار ان لوگوں میں نہ ہو جن کی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خدا سے شکایت کریں گے۔
Jazakallah.