جعلی نوٹ اور ملاوٹی تیل کا غم۔۔۔

انتخاب
رفعت سلطانہ درامن
ایک شادی پرجانا ہوا ۔ہال کے ایک کونے پر نظر گئی تو ایک جان پہچان والا شخص نظر آ گیا۔۔۔ وہ اکیلا ہی بیٹھا تھا۔اس کے ساتھ جا کر میں بھی بیٹھ گیا۔وہ شخص بڑی گرمجوشی سے مل؛ا۔اسکا گاڑیوں کے پرزے اور انجن آئل وغیرہ کا کام ہے۔
حال لچال پوچھنے کے بعد وہی عام طور پر کی جانے والی باتیں شروع ہو گئیں۔یعنی مہنگائی اور کاروباری مندے کا رونا۔
کہنے لگا آجکل کوئی کام نہیں چل رہا اوپر سے گاہک بھی ایسے ہیں کہ سالوں کو مرنا بھولا ہوا ہے۔خدا خوفی تو گویا ہے ہی نہیں۔ابھی پرسوں کی ہی بات ہے ایک بندے نے گاڑی کا آئل تبدیل کروایا۔پچیس سوکا بل بنا اسنے پیسے دیے اور چلا گیا۔۔۔۔بعد میں پتہ چلا کہ ہزار روپئے کا نوٹ جعلی تھا۔۔۔۔
اوہ ۔۔۔میرے منہ سے نکلا۔۔۔پھر ؟؟؟
پھر کیا۔۔۔بڑی گالیاں نکالیں اسے۔۔۔پتہ نہیں کون تھا سالا پہلی بار آیا تھا۔۔۔۔وہ تو شکر ہے میں نے آئل ہی جعلی ڈالا تھا ا سکی گاڑی میں۔۔۔۔ اسی دوران روٹی کھل گئی کا نعرہ لگا اور ہال میں گویا بھونچال سا آگیا۔وہ مرغی کے قورمے کی پلیٹ کا ڈھیرلیے فاتحانہ انداز میں واپس آگیا۔میں سمجھا شائید میرے لیے بھی لے آیا ہے۔کہنے لگا بھا جی لے آؤ تم بھی ۔۔۔بعد میں شادی ہال والے خراب کھانا دینا شروع کر دیتے ہیں۔میں اٹھا اور بریانی لے کر واپس آ گیا۔اس سے پوچھا اس جعلی ہزار والے نوٹ کا کیا تم نے؟؟
کرنا کیا ہے۔۔۔لڑکے والوں نے شادی پہ بلایاہے۔۔۔دولہا کے والد کو سلامی میں دے دیا وہ نوٹ۔۔۔اور میزکے نیچے چھپائی ہوئی چار بوتلوں میں سے ایک نکال کر دو گھونٹ میں خالی کر دی۔۔۔۔اس کے بعد چھ سیکنڈ دورانیے کا لمبا ڈکار لینے کے بعد دونوں ہاتھ جوڑے۔۔۔عقیدت سے آنکھیں بند کیں اور بولا شکر الحمد ا للہ
منقول

اپنا تبصرہ لکھیں