سویڈن کی ڈائری
کالم نگار عارف کسانہ
پچیس مئی کو سویڈن میں دیگر یورپی ممالک کی طرح یورپین پارلیمنٹ کے لیے انتخابات ہوئے ۔آبادی کے تناسب سے سویڈن کی یورپی پارلیمنٹ میں بیس نشستیں ہیں۔یہ انتخابات بہت پر امن ماحول میں ہوئے۔اور ملک بھر میں کہیں بھی نہ تو کوئی نا خوشگوار واقعہ ہوا ، نہ ہی دھاندلی ہوئی اور نہ ہی اس کے الزامات عائد ہوئے۔انتخابی مہم کے دوران اسٹاک ہوم شہر کے وسط میںتمام سیاسی جماعتوں نے شہر میں ایک ہی جگہ پر اپنے الیکشن کیمپ لگائے ہوئے تھے۔حزب اقتدار اور حزب مخالف کی جماعتوں کے کارکن اپنا منشور اپنے قریب سے گزرنے والوں کو دے رہے تھے۔نہ کوئی کسی سے جھگڑا کر رہا تھا اور نہ کوئی کسی کا اشتہار پھاڑ رہاتھا۔ انتخابی نتائج میں حکمران پارٹی کو شکست ہوئی جو اس نے کھلے دل کے ساتھ قبول کی۔انتخابات سے قبل تمام جماعتوں کے سربراہ لائیو ٹی وی پر لائیو مباحثہ میں شریک ہوئے۔دو گھنٹے جاری رہنے والے مباحثہ میں وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف اپنے اپنے بلاک کی نمائندگی کر رہے تھے اور سب کو کھڑے ہو کر بات کرنا تھی اور دو گھنٹے مسلسل کھڑے ہو کر انہوں نے مباحثہ میں حصہ لیا۔کسی نے نہ جذباتی انداز اختیار کیا نہ ہی پاکستانی سیاستدانوں کی طرح ٹاک شو میں اودھم مچایا۔یہ دراصل جمہوریت کا اصل چہرہ ہے۔
یورپین یونین کے ان انتخابا ت نے اس سال ستمبر میں سویڈن کے انتخابات کے لیے حزب اختلاف کو امید کی کرن دکھائی۔جبکہ حکمران چار جماعتی پارٹی پریشانی میں مبتلا ہے۔کہ وہ تیسری بار کیسے کامیابی حاصل کرے۔رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق تین جماعتی حزب اختلاف اتحادی پارٹی یعنی سوشل ڈیموکریٹ،گرین پارٹی اور لیف پارٹی کو پچاس فیصد سے ذائد حمائیت حاصل ہے اور سوشل ڈیموکریٹ کے سربراہ سٹیفن لوفون وزیر اعظم منتخب ہو سکتے ہیں ۔حالیہ یورپی پارلیمنٹ کے انتخاب میں سوشل ڈیموکریٹ پارٹی نے چھ نشستیں جیتی ہیں۔جبکہ حزب مخالف کی گرین پارٹی نے سب سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔اور پندرہ فیصد سے ذائد ووٹ لے کر تین نشستیں حاصل کی ہیں۔لیفٹ پارٹی کو ایک نشست ملی ہے۔حکمران جماعت ماڈریٹ پارٹی کو دو،فولک پارٹی ،پیپلز پارٹی سنیٹر پارٹی اور کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کو بھی ایک ایک نشست ملی ہے۔نسل پرست پارٹی سویڈش پارٹی نے بھی اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔اور وہ دو نشستیں لے اڑی ہے۔ان انتخابت کی اہم بات خواتین کے حقوق کی جماعت فیمینسٹ پارٹی نے پہلی بار کامیابی حاصل کی ہے۔اور وہ ایک نشست حاصل کر پائی ہے۔توقع کی جا رہی ہے کہ یہ جماعت آئندہ انتخابات میں سویڈش پارلیمنٹ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو سکے گی۔یہ سویڈش جمہوریت ہے کہ یہاں نہ تو حسب نسب کی اہمیت ہے اور نہ دولت کے سہارے کی ضرورت ہے۔سیاسی جماعتوںپر نہ تو خاندانوں کا غلبہ ہے اور نہ ہی ادارے سیاسی غلبہ کی وجہ سے متنازعہ ہیں۔ملکی تعمیر و ترقی کے منصوبے حکمرانوں کی ذاتی تشہیر کے بغیر جاری ہیں۔پاکستان کے تمام سیاستدانوں نے یورپ میں بہت وقت گزارا ہے۔مگر انہوں نے یہاںکی کسی بھی اچھی روائیت کو نہ تو اپنایا ہے اور نہ ہی سابقہ روش کو چھوڑا ہے۔عوام کے ٹیکس کی رقم جب ان پر لگائی جاتی ہے تو ایسے احسان کیا جاتا ہے جیسے یہ انکا ذاتی پیسہ ہو۔ملکی ادارے اس قدر کمزور او ر غیر فعال ہیںکہ ملک میں چھوٹے چھوٹے معاملات میں ملکی وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کو نوٹس لینا پڑتا ہے۔ملکی مسائل ،سیاسی بے چینی اور معاشرتی بگاڑ کی وجہ پاکستان کا عدالتی نظام ہے۔آج تک نہ تو کسی بڑے مجرم یا دہشت گرد کو سزا مل سکی ہے اور نہ ہی جرائم میں کمی آئی ہے۔عدالتی طریقہ کار ،پولیس،وکلائ،اور جج سب اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔سیاسی،مذہبی اور سماجی رہنمائوںمیں عدم بداشت اور اپنی مخالفت سننے کا حوصلہ نہیں۔مذہبی رہنماء معمولی اختلاف رائے برداشت نہیں کرتے۔اور فتویٰ صادر کر دیتے ہیں۔حالانکہ خود اللہ تعالیٰ نے رسول پاک سے فرمایا کہ ہم نے آپ صلعم کو داروغہ بنا کرنہیں بھیجا۔(10 / 103) جمہوریت ہو یا مذہب جب تک اسے اس کے تمام مکمل اوصاف کے ساتھ نہ اپنایا جائے وہ حقیقی نتائج دے ہی نہیں سکتا ۔یہی سوچنے کی بات ہے۔