جنگل میں فلم
شایدایک دفعہ کا ذکر ہے کسی جنگل میں جنگلی جانوروں کیفلاح و بہبود بہتر نشو ونما اور قربانیوں کے موضوع پر ایک فلم شو کا اہتمام کیا گیا ۔
جنگل میں منادی کرائی گئی۔
جنگل کے تمام ترسے ہوئے جانوروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔کہ ان کے پامال کئے ہوئے حقوق کے تحفظ کے اقدامات کا بالاخر ارادہ کر لیا گیا ۔
جنگل بدر جانوروں کا غول بھی شریک ہونے کو آن پہنچا۔
ترس کھا کر حشرات الارض کو بھی شریک فلم کیا گیا۔وہ سب بھی اپنی بساط بھرآواز میں نعرے لگاتے فلم دیکھنے آن پہنچے۔
کسی سیانے مخبر نے اندر کی خبر دی کہ اس ساری فلم میں حشرات الارض کے حقوق کی کوئی بات نہیں کی جائیگی لیکن وہ نادان فلم کے شوق میں پھر بھی جمع تھے۔کچھ واپس جانے لگے توفلم کے شوقینوں نے روائتی امید دلاء اور کہا متاں (شاید)
جنگل کے شیر یعنی بادشاہ سلامت کی سربراہی میں حسب دستور سب فلم دیکھنے کو اکٹھے ہوئے۔
شیر صاحب نے تمام جانوروں کو ایک عیار مسکراہٹ سے خوش آمدید کہا۔ ایک نظر التفات جنگل بدر جانوروں پر ڈالی ۔
انہوں نے بھی بغض بھرے کینہ پرور لہجے میں منافقت سے مسکرا کر شکریہ ادا کیا۔
سب اپنے اپنے طور پر شیر کے برابر بیٹھ کر فلم دیکھنا چاہ رہے تھے۔ہر کوئی گردن اٹھا اٹھا کر اور کیء ایک ڈکرا کر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے تھے۔
دور سے سور بھی کھیتوں کو اجاڑتا چلا آ رہا تھا۔گینڈے نے ٹکریں مار مار کے اپنے ہونے کا احساس دلایا ۔حتی کہ دن رات منادی کر کے تھکا ہارا بندر بھی کسی معجزے کی توقع کر رہا تھا۔
لیکن ایسے میں دور بیٹھا بھیڈو کہنیاں مار کے بکری کو دعوت گناہ پر اکسا رہا تھا۔ شیر کو جانے کس لمحے میں بھیڈو پرسوچا سمجھا ترس آ گیا۔
اور شیر نے مسکین بھیڈو کو اپنے پاس بلا کر بٹھالیا۔ بھیڈو کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس پر یہ اچانک کیسی مہربانی؟
اس مسکین کی تو شکل بھی د یکھنے لائق تھی،خاص طور پہ جب وہ ڈرتے ڈرتے شیر کے قریب گیا تو اس نے ہلکی سی سر گوشی میں بیں بیں کرتے پوچھا بھی!!!وڈے سائں!!! آپ مجھ نمانڑے کے ساتھ مذاق تو نہیں کر رہے؟؟؟
جواب میں شیر نے کمال بے نیازی سے کہا۔ اوئے تم ہمارے پرانے خدمت گار رہے ہو۔ ویسے بھی ہم نے تمہیں ایک بار حیران کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
جنگل کے سارے جانور حیرت و استعجاب سے تک رہے تھے۔ لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ بادشاہ سلامت کو سرپرائز دینے کا خبط بھی سوار رہتا ہے۔
البتہ چند ایک غدار صفت بھی تھے لیکن ان کا منہ بھی کسی نہ کسی طرح بند کرادیا گیا،اور وہ بھی اگلی قطار میں مطمئن ہو کر اگلے معجزے کے انتظار میں چپ ہو رہے۔
مقررہ وقت پر فلم شو کا آغاز ہوا۔
فلم میں دکھایا گیا کہ کس طرح سے تمام جنگلی جانور گزر اوقات کرتے رہے تھے۔ اور اب بے چارے اپنے اور اپنے خاندان کے دوزخ نماپیٹ کوبھرنے کے لئے دن سے رات محنت کرتے ہیں۔ کس کس انوکھے طریقے سے شکار کے طریقے دریافت کرتے ہیں۔
اور بدلے میں انہیں انسان خونخوار، حرام خور،ظالم، اور جانے کس کس لقب سے پکارتا ہے۔
فلم میں خصوصی طور پر مبینہ قربانیوں کاکریڈٹ اپنے سر لیاگیا۔ جس پر حشرات الارض نے بین کر کے دادوتحسین کے ڈونگرے برسائے۔
البتہ اگلی قطاروں میں چند اٹھے ہوئے سر شرم سے جھکتے ہوئے محسوس کئے گئے۔لیکن مسلسل بین اور جنگل شگاف نعروں کی گونج میں معاملہ رولے گھولے میں پڑ گیا۔
فلم میں جنگل بدر سمیت تمام جانوروں کی جنگلی و غیر جنگلی آل اولاد کے سنہرے مستقبل کے حوالے سے تجاویزبھی پیش کی گئں۔
ریچھ کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ جنگل میں اپنی مرضی کے جانوروں کو فرائض تفویض کرے۔ جسے ریچھ نے کمال بے حیائی سے اس شرط پر قبول کیا کہ اس کی منظور نظر ریچھنی پر خصوصی مہربانیاں کی جایئں۔اور خاص طور سے ریچھنی کے میک اپ کے لئے ایک سیکرٹ فنڈ کی تجویز پر بھی زور دیا گیا ۔
۔۔۔۔۔۔فلم کے کامیڈی منظر دیکھ کر بھی بادشاہ سلامت شیر صاحب اداس لگ رہے تھے۔ ان کے چہرے پر فکر کی گہری لکیریں تھیں۔ لیکن شیر صاحب کی بتیسی دیکھ کر حاضرین فلم یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ ہنس رہے ہیں۔لہذا سب نے ایک ساتھ ہنسنے کی کوشش کی۔ لیکن فورا شاہی داروغہ ریچھ نے اشارے سے سب کو خاموش کرادیا۔
لیکن بھیڈو دیر تک ہنستا رہا۔ بادشاہ نے اسے خود چپ کرایا اور طبیعت پہ کنٹرول کا مشورہ دیا۔سب جانور ایک بار پھر حیران ہوئے۔
فلم میں دن رات کی چیر پھاڑ سے جسمانی اور ذہنی طور پر تھکے ہوئے شیر کو مالش کے لئے جب لیٹا ہوا ایک منظر میں دکھایا گیا تو گھاس کے ٹڈے کی ہنسی چھوٹ گی۔
اس بیہودہ ہنسی پر اسے فلم شو سے باہر نکال دیا گیا۔ لومڑی نے اسے سمجھایا کہ جب تک بادشاہ سلامت کسی منظر پر بذات خود نہ ہنسیں اس وقت تک کسی کو ہنسنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ جنگل کا بغیر لکھے کا قانون ہے۔ لہذا سب جانور اس بات کا ہمیشہ خیال رکھتے ہیں۔
لیکن کچھ دیر بعد فلم کے ایک رومانٹک منظر میں بادشاہ سلامت کو جب نازک انگلیوں سے مساج کرواتے دکھایا گیا تو گھوڑے نے ہنہنانا شروع کر دیا۔ اور ساتھ ہی گدھے نے اپنی ٹانگیں آسمان کی طرف کر کے ڈھینچوں ڈھینچوں کرنا شروع کر دیا۔ اسے سنبھالنے کی کوششیں کی گئں تو اس حرام خور نے دولتیاں جھاڑنی شروع کر دیں۔
بادشاہ سلامت جو منظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے انہیں بے حد غصہ آیا۔
باندروں کی فوج ان دونوں کو پکڑنے پہنچی۔ لیکن ان کی ہنسی رکنے کو نہیں آ رہی تھی۔ پوچھا گیا تم اس طرح بے ہودگی سے ہنس کیوں رہے ہو؟؟؟
کہنے لگے اصل میں ہم فلم دیکھنے میں اتنے مگن تھے کہ خود کو بادشاہ سلامت کی جگہ سمجھ بیٹھے تھے۔ اور ہمارے جسم کے کچھ حصوں پر گدگدی بہت ہوتی ہے اس لئے ہمارا ہنس ہنس کر برا حال ہو رہا ہے۔ ہمیں معاف کر دیا جائے۔
لیکن بادشاہ نے معافی دینے سے انکار کر دیا۔ گھوڑے اور گدھے نے اپنے ساتھ خچروں کو بھی دعوت احتجاج کی کال دی۔ اور اس کے ساتھ ہی ایک ہڑبونگ مچ گی۔ سب شور مچانے لگے کہ اگر بادشاہ اور بھیڈو کو سزا کی معافی ہے تو ہمیں بھی معاف کیا جائے۔
الو نے دیمک زدہ پتوں پر لکھی بے ربط عبارتیں پڑھنی شروع کر دیں۔ بے ہودگیوں پر معافی کے ایسے ایسے حوالے دئے کہ خود اس کا بھی ہاسہ نکل گیا۔ پھر بھی پکا منہ کر کے وہ ڈھٹائی سے لگا رہا۔
لیکن احتجاج حد سے زیادہ بڑھ گیا۔ کان پڑی آواز پلے نہیں پڑ رہی تھی۔ پورا جنگل میدان جنگ بن گیا۔
ہم ابھی کہانی کے انہی حصوں میں بے لگام گھوڑے اور ناہنجار گدھے کی طرح کھوئے ہوئے تھے کہ اچانک اگلے صفحے پر لکھا تھا باقی آئندہ۔۔۔۔۔
کہانی لکھنے والے پر حسب توفیق چند حرف بھیجے،سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ گھوڑے گدھے کو معافی ملی یا نہیں۔فلم میں آگے چل کر کیا کچھ ہوا ہو گا؟؟ وغیرہ وغیرہ جیسے سوال ذہن میں آتے رہے۔۔ ہمیں بھی آپ کی طرح جنگل اور جنگل کے جانوروں کے بیچ ہونے والی نوک جھونک بہت پسند ہے بلکہ بچپن سے ٹارزن کی کہانیاں ہمیں پسند رہی ہیں۔ خیر ٹارزن تو اب ناپید ہوگیا،بس آج کل تو سیاسی ٹارزنوں کی کہانیوں سے دل کو بہلا لیتے ہیں۔
ادھر ادھر نظر دوڑائی کوئی کام کی خبر نہیں تھی۔لیکن ایک خبر میں جنگل کے ایک جانور کا ذکر موجود تھا۔وہ خبر تھی کابینہ کے ایک اجلاس کی۔
اس خبرمیں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ آف پاکستان سے توہین عدالت کے مقدمے میں سزا سنائے جانے کے بعد پرائم منسٹر ہاس میں ہونے والے کابینہ کے اجلاس کی روداد تھی۔سزا کے بعد خصوصی اجلاس میں اس بات پر غور وفکر کیا جا رہا تھا کہ وزیر اعظم گیلانی صاحب کو عدالت کی طرف سے سزا سنائے جانے کے بعد آئندہ کی کیسی حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے تاکہ روز روز کی سردردی سے نجات مل سکے۔ اس اجلاس میں تمام اہم رہنما سر جوڑ کر نہ صرف قابل عمل تجاویز پیش کر رہے تھے بلکہ ایک سے بڑھ کر ایک ثبوت وفاداری بھی پیش کر رہے تھے۔ یوں تو سب کی تجاویز بہت اہم تھیں لیکن کھوسہ صاحب کا مشورہ کافی دانش والاتھا ۔ کھوسہ صاحب نے ججوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کے خلاف ابھی کاروائی ہونی چاہئے کیونکہ کل کو دیر ہو جائے گی۔ اپنی بات کو واضح کرنے کے لئے کھوسہ صاحب نے سرائکی زبان کا ایک محاورہ بھی کابینہ ارکان کو سنایا کہ سور ٹانڈے بھن کے مویا تے کیا مویا
( اگر سور کھیت خراب کر کے مارا گیا تو اس کا کیا فائدہ، کیونکہ جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہو گیا)
کیونکہ کھوسہ صاحب اپنے نام کی طرح نہائت لطیف گفتگو کے عادی ہیں اس لئے مجھے کھوسہ صاحب کے منہ سے اس مثال پر چنداں حیرت نہیں ہوئی۔ بلکہ انہوں نے اس ایک مثال سے بروقت احتیاط کی طرف جس سادگی مگر پرکاری سے جو اشارہ کیا ہے وہ کھوسہ صاحب ہی کا خاصہ ہے۔ ہم کھوسہ صاحب کو نرا قانون دان ہی سمجھتے تھے۔ لیکن اب وہ ہمیں ایک دانشور بھی لگنے لگے ہیں، کیونکہ ان کے لہجے سے اب دانش ٹپکنے لگی ہے۔ویسے تو کھوسہ صاحب کے علاقے ڈیرہ غازی خان میں ہمارا بھی بہت وقت گزرا ہے۔ لیکن خاص طور سے ہمارے دوست سردار منصور سکندر کھوسہ اور ملک قاسم ایک زمانے میں شکار کے لئے ان علا قوں میں جایا کرتے تھے ۔اورہمارے یہ شکاری دوست واپسی پر جنگل اور جنگل میں موجود جانوروں اور خاص طور پر سوروں کے حوالے سے اپنے تجربات بیان کیا کرتے تھے۔ ان ساری کہانیوں میں ہمیں سور کے شکار سے زیادہ ان کی اس بات پر حیرت ہوتی تھی کہ مرے ہوئے سور کی بھی بڑی اہمیت ہوتی تھی۔ یعنی ہر سور کی دم کاٹ کر سرکاری خزانے یا علاقے کے ڈپٹی کمشنر کے حوالے کرنے پر انعام کی ایک رقم ملا کرتی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی شکاریات پر مبنی کہانی سن کر ہمارے ذہن میں آتا تھا کہ گویا ڈپٹی کمشنر صاحب اپنے دفتر میں بہت سی سور کی دمیں اکھٹی کر کے بیٹھے ہوں گے اور ہر شکاری سے سور کی دم وصول کرنے کے بعد اسے انعام سے نواز رہے ہوں گے۔
حقیقی زندگی میں ہم نے پہلی بار قریب سے ایک فوٹو میں انگریز ڈپٹی کمشنر کو دیکھا تو بے ساختہ ہماری نظر اس کی پشت کی طرف چلی گئی۔
ملک قاسم نے شکار سے توبہ کی تو ہم نے اس توبہ کی وجہ پوچھی۔ کہنے لگے کافی عرصے سے شکار کر رہا تھا۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے سے ایک تو سور مردود آسانی سے شکار نہیں ہوتا۔ اور اگر اس کا شکار کر بھی لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کی دم کٹی ہوء ہوتی ہے۔ ہنستے ہوئے کہنے لگے شائد انہیں بھی اپنی دم کی قدر و قیمت کا احساس ہو گیا ہے یا پھر ماہر شکاری پورا سور مارنے کی بجائے صرف اس کی دم کاٹ کے لے جاتے ہیں۔ وہ تو ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ حکومت نے فنڈز میں کمی کے باعث سور کی دم پر دیا جانے والا انعام دینا بند کر دیا تھا۔
کچھ عرصہ پہلے واشنگٹن پوسٹ اور پاکستانی اخبارات میں خبر تھی کہ اسلام آباد میں سوروں کی اتنی بہتات ہوگء ہے کہ عام شہریوں کا سڑکوں پر آنا بھی مشکل ہو گیا ہے ۔بلکہ حد تو یہ ہے کہ پاکستانی فوج کو بھی اس سلسلے میں اقدامات کرنے پڑے تھے۔
مغربی ممالک میں بھی سور بہت پائے جاتے ہیں لیکن یہاں کے سور زیادہ تر انگریزوں کی خوراک بن جاتے ہیں،اور حد تو یہ ہے کہ یہاں انہیں پالا بھی جاتا ہے۔ہمارے ہاں البتہ یہ خود ہی پل جاتے ہیں۔
جب سے گورنر کھوسہ کی بات سامنے آئی ہے مجھے یاد آرہا ہے کہ فردوس جمال نے ایک ڈرامے میں ولن کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کردار کے حوالے سے ایک دن بات ہوئی تو میں نے ان سے کہا کہ اس کردار میں آپ نے اپنی آواز سانپ کی پھنکار سے ملتی جلتی نکالی ہے اس کی کوئی خاص وجہ ؟
جواب میں فردوس جمال کا کہنا تھا کہ ڈرامے میں میرا کردار ایک زہریلے انسان کا ہے ۔اور اس کردار کی ادائگی کے لئے میں نے سانپ کی پھنکار اپنے کردار کا حصہ بنائی ہے۔
اور چین کی ایک کہاوت ہے کہ جانور کا شکار کرتے ہوئے اس کی فطرت اور خصوصیات اپنی ذات میں پیدا کرنی چاہئں ۔یہ اسی طرح سے ہے کہ شیر کا شکار کرنے کو نکلے ہو تو شیرکا دل گردہ رکھو اور شیر کی خوبی اپنی ذات میں پیدا کر۔شیر بن کر سامنے آ گے تو شیر کی کھال پہنے ہوئے گیدڑ بھی دم دبا کربھاگ جائں گے۔اسی طرح چیتے کے شکار کے لئے چیتے جیسی پھرتی، لومڑی کے لئے لومڑی جیسی چالاکی،ہرن کے لئے ہرن جیسی تیزی۔۔۔
میں نے فردوس سے پوچھاتھا کہ اگر سور کا شکار کرنا ہو تو آپ کیا کرئں گے؟؟؟
کچھ دیر سوچ میں ڈوبا پھرکہنے لگا، اول تو میں سور کا شکار نہیں کروں گا۔ البتہ تمہیں مشورہ دوں گا کہ اگر سچ مچ ارادہ کر لو تو اپنے اندر سور پن پیدا کرنا نہ بھولنا۔ دروغ بر گردن فردوس جمال
اب مجھے معلوم نہیں کہ وزیر اعظم ہاس میں ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں سردار لطیف کھوسہ جس کھیت کو بچانے کے لئے سور مارنے کا مشورہ دے رہے ہیں اس کے لئے یہ فطری خوبیوں کا مرحلہ کیسے طے ہوگا؟؟؟؟؟؟
فلم جاری ہے