Posted by waseem hyder
آج اردو کے نامور شاعر “جوش ملیح آبادی” کا یومِ وفات ہے۔
جوش ملیح آبادی 5 دسمبر 1898ءکوملیح آباد میں پیدا ہوئے۔ جوش کے والد نواب بشیر احمد خان، دادا نواب محمد احمد خاں اور پر دادا نواب فقیر محمد خاں گویا سبھی صاحب دیوان شاعر تھے۔
جوش نے نو برس کی عمر میں پہلا شعر کہا۔ ابتدا میں عزیز لکھنوی سے اصلاح سخن لی۔ پھر یہ سلسلہ منقطع ہوگیا اور خود اپنی طبیعت کو رہنما بنایا۔ عربی کی تعلیم مرزا ہادی رسوا سے اور فارسی اور اردو کی تعلیم مولانا قدرت بیگ ملیح آبادی سے حاصل کی۔
جوش نے حیدرآباد (دکن)، دہلی، کراچی اور اسلام آباد کئی شہروں میں زندگی گزاری۔ دو رسالوں کلیم اور آج کل کے مدیر رہے، کئی فلموں کے گانے اور مکالمے لکھے اور پاکستان آنے کے بعد اردو لغت کے مدیر رہے۔
جوش ملیح آبادی نے متعدد شعری مجموعے یادگار چھوڑے۔ اپنی خودنوشت یادوں کی برات کے نام سے تحریر کی۔ جنگل کی شہزادی، ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے خطاب، مناظر سحر، تلاشی اور فتنہ خانقاہ آپ کی مشہور نظمیں ہیں۔ حسین اور انقلاب وہ مرثیہ ہے، جس نے مرثیہ گوئی کے ایک نئے دبستان کی بنیاد رکھی۔
ستر کی دہائی میں جوش کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوگئے۔ 1978ءمیں انہیں ان کے ایک متنازع انٹرویو کی وجہ سے ذرائع ابلاغ میں بلیک لسٹ کردیا گیا مگر کچھ ہی دنوں بعد ان کی مراعات بحال کردی گئیں۔
جوش نے 22 فروری 1982ء کو اسلام آباد میں وفات پائی اور وہیں آسود ہ خاک ہوئے ۔