جو دے گا وہی مرے گا!”


زبیر حسن شیخ

قلم : 7-2-20

آج شیفتہ اور بقراط ایک اجنبی کے ساتھ گھر آ دھمکے اور ان کے تعارف میں فرمایا، جناب یہ بی- آر صغیری صاحب ہیں. ہم نے پوچھا حضور یہ وہی “بر صغیری” تو نہیں جن کے نام کا ڈنکا دو عالم میں بج رہا ہے. انہوں نے “تبسم جارحانہ” کے ساتھ اس خاکسار پر ایک نظر ڈالی اور ہم نے ان پر تجاہل عارفانہ سے . سوٹ بوٹ میں ملبوس، فلسفی نما پہاڑی چہرہ، ہند و پاک سرحد کی طرح کشادہ پیشانی پر تیل سے چمکتی مانگ. لہو رنگ قمیص پر سینہ چاک کرنے میں ناکام رنگ برنگی ٹائی جیسے مختلف وارداتیں اور قرارداتیں گلے پڑگئی ہوں. دل کے آس پاس کسی تمغہ کی طرح چمکتے بے حد قیمتی دو قلم جیسے قانو ن اور انصاف. تعجب کا اظہار کرنے پر انہوں نے تصفیہ کیا کہ یہ برطانوی قلم ہدیتا دئے گئے ہیں. سیاہ عینک کے عقب سے جھانکتی دو بے نور آنکھیں جیسے بر صغیر کی غربت. پریشان حال نو دولتیوں کی طرح کلائی میں مختلف توہم پرستی کی علامتیں . اونی پتلون ایسے “شکم گرفتہ” جیسے سرمایہ داری، پائینچے جوتوں پر آکر کچھ ایسے استادہ مانو ایک طرف سیاست اور دوسری طرف ٹی وی میڈیا. اگر یہ دونوں پائینچے “شکم کی گرفت” سے آزاد ہو جائیں تو بر صغیری صاحب جامہ سے باہر آجائیں…….. پتلون کے پایئنچوں کو چومتے تنو مند جوتے جیسے “بیورو کریٹس”. پایئنچوں کے عقب سے آنکھ مچولی کھیلتی بوسیدہ جرابیں جیسے “خارجہ پالیسی”. بغل سے جھانکتی چند فرسودہ مغربی تصانیف، جن کے سر ورق افہام و تفہیم اور ادب برائے ادب کی ختم شدہ داستان سنا رہے تھے. اقتصادی ابتری کا مظاہرہ کرتے ہاتھ میں دو موبائیل، ایک ساخت میں بڑا اور بظاہر قیمتی اور دوسرا ساخت میں چھوٹا اور بظاہر خستہ، پوچھنے پر معلوم ہوا اب دونوں میں “ریچارج ” بھی ختم ہوچکا ہے. ادھار کی شان و شوکت اور اغیار پر کیا گیا انحصار بصورت “چارج” اب ادا کرنا ہے. ویسے بھی آجکل موبائیل ایک انسانی علامت سمجھا جاتا ہے، شاید نطق و شعور جیسی نعمتیں انسان کو جانور سے ممیز کرنے میں ناکام ہو گئی ہیں.
شیفتہ نے پوچھا، جناب آپ ‘بر’ سے بری کب ہوئے تھے اور ولایت تشریف کب لے گئے؟ کہا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب والد ہجرت کر پاکستان میں سکونت پزیر ہو چکے تھے. در اصل چچا جان اور والد محترم دونوں نے سن سینتالیس میں لکھنو سے ایکساتھ ہجرت کی تھی. والد عازم “یثرب” یعنی شہر حیراں کراچی ہوئے اور چچا عازم “طائف” یعنی شہر پریشاں بمبئی، اور یوں دونوں ہند و پاک کی علامت بن بیٹھے. دونوں کا مقصد اللہ کا فضل تلاش کرنا ہی تھا، بس نوعیت مختلف تھی. والد کو وہاں بہت کم “اہل انصار” ملے اور چچا کو یہاں جو بھی ملا وہ “اہل طائف” ہی ملا. والد عمر بھر “یثرب” کو مدینہ بنتے خواب میں دیکھا کئے، جبکہ انکے چند ساتھیوں نے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں عمریں کھپا دی. چچا نے یہاں زندگی کو طویل مکی دور سمجھ لیا اور پچھلی نصف صدی میں کلمہ حق سے آگے نہ بڑھ سکے، جبکہ انکے چند ساتھی راہ حق میں پر امن طریقہ سے آگے نکل گئے. دونوں سفر میں تو لٹے ہی تھے لیکن منزل پر پہنچ کر بھی لٹتے ہی رہے . یہاں چچا زود فراموش ہوئے اور والد وہاں زودرنج. بس یوں سمجھیے دونوں بھائی انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوکر بھی غلام ہی رہے.
شیفتہ نے فرمایا، در اصل انگریزوں کی غلامی سے بڑی تو نفس کی غلامی تھی جو اٹھارویں صدی کے آتے آتے قوم کی نس نس میں سما گئی تھی. شاہ رنگیلے جیسے سینکڑوں ناہنجاروں کے رنگ میں عوام کی اکثریت رنگ گئی تھی اور حکومت کے کام کاج اغیار کے ہاتھوں میں منتقل ہو چکے تھے . یہی وہ غلامی تھی جسکا فائدہ انگریزوں نے اٹھایا اور آخر کار یہ انھیں سے منسوب ہو گئی.
کہا، کم از کم ان دونوں کی آل اولاد تو آج آزاد ہیں. فرمایا، جی ہاں جسمانی طور پر، لیکن وہ سب اب ذہنی غلام ہیں. در اصل پچھلی صدی میں اکثر ممالک کا یہی حال رہا، بظاہر تو ہر کوئی جسمانی طور پر انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوتا گیا لیکن ذہنی طور پر وہ غلام ہی رہے. آپ خود بھی ولایت جاکر اس غلامی سے چھٹکارا کہاں پاسکے، بس ایک رعایت ہمیشہ حاصل رہی کہ آقاں کو اپنے محل کے غلام بہت عزیز ہوتے ہیں بہ نسبت ان غلاموں کے جو دور جاگیروں پر رہتے ہیں جنھیں وہ اپنی قوم کی “دولت مشترکہ” کہتے ہیں.
شیفتہ نے پوچھا، اب آپکی نظر میں برصغیر کے حالات کیسے ہیں، کہا اگر جمال قریشی صاحب کے اشعار کی زبانی کہیں تو ….. “وہ شاعر ہے مگر مقتل کو اب مقتل نہیں لکھتا……کبھی پنجاب لکھتا ہے، کبھی ہریانہ لکھتا ہے. سنا ہے آجکل ذہنی توازن کھو دیا اس نے……جہاں پر کربلا لکھنا تھا وہ ملیانہ لکھتا ہے”. بس آپ پنجاب ، ہریانہ اور ملیانہ کے بجائے مناسب علاقے منتخب کرلیں اور برصغیر کے حالات کی عکاسی خود بخود ہو جائے گی. انکا ایک اور مشہور شعر ہے جو آج بھی تر و تازہ ہے کہ. “لگا کر آگ دل میں نفرتوں کی…….گھروں میں گھس کے بیٹھی ہے سیاست”.
بر صغیری صاحب پھر گویا ہوئے، بہر حال زندگی سے اب کوئی شکوہ نہیں رہا. والد اور چچا دونوں نہ رہے مگر انکی نسلیں باقی ہیں، اکثر ایکدوسرے سے ناآشنا. اور جو آشنا ہیں ان میں اکثر ایکدوسرے سے نالاں. اب ایک دوسرے کو یہ کیا دے سکتیہیں، ویسے بھی لینا دینا اب تجارت کا حصہ بن گیا ہے وضع داری کا نہیں. جو وضع داری نباہتے رہے وہ تو سب داعی اجل کو لبیک کہہ چکے..
شیفتہ نے فرمایا، دراصل ہمیں جس چیز کو لینا اور دینا تھا وہ ہم نے لیا اور دیا ہی نہیں. اس ضمن میں ایک قصہ یاد آتا ہے. ہم نے پہلو بدلا اور سنبھل کر بیٹھنا ہی چاہتے تھے کہ فرمایا…. “وفا کے نام پر تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے…….. “. بقراط نے کہا، حضور معاف کیجیے گا، اپنی مٹی سے محبت بڑی ظالم شے ہوتی ہے، پھر چاہے وہ وطن یا شہر کی محبت ہو یا محلہ کی، اکثر یہ عصبیت کا رنگ اختیار کرنے میں دیر نہیں کرتی اور پھر حق و انصاف کی بات سے صرف نظر کرنا ہی درست نظر آتا ہے . فرمایا، “کمر یار کے مضمون کو باندھ آتش” بجز اللہ و رسول کے ساری محبتیں ظالم ہی ہوتی ہیں، بس اب یہ قصہ آپ اپنے گوش گزاریے..
فرمایا ، تقریبا چالیس برس پہلے کی بات ہے. مرکزی بمبئی کی ایک گنجان مسلم آبادی میں ایک نابینا فقیر کبھی کبھار نظر آتا اور پکارتا پھرتا تھا “جو دیگا وہی مرے گا…نہیں دے گا نہیں مرے گا”. کبھی اسے یہ بھی کہتے سنا گیا کہ “جب دے گا جبھی مرے گا”…. اس فقیر کے تعلق سے مختلف کہانیاں مشہور تھیں. کراچی سے آمد و رفت کرنے والے رشتہ داروں نے ان کہانیوں میں یہ کہہ کر کچھ حقیقت کے رنگ بھر دئے تھے کہ اس فقیر کے ایک بھائی کراچی میں ہیں اور وہ بھی نابینا ہیں، اور کچھ اسی طرح پکارتے پھرتے ہیں . اس فقیر کی پکار سن کر کبھی کسی کو کچھ دیتے نہیں دیکھا گیا. علاقہ میں صاحب حیثیت اور صاحب دل حضرات کی کمی نہیں تھی لیکن شاید لوگ کچھ دے کر مرنے سے ڈرتے ہونگے…

ایک روز ہم نے اپنے دوستوں کے ساتھ ملکر ہمت کی اور ان سے پوچھا. جناب آپ کیا چاہتے ہیں؟. فرمایا کیا دے سکتے ہو یہ بتاو. ہم نے کہا ہماری کیا بساط، بس کوئی واجبی سی ضرورت ہو تو بتائیے. فرمایا، میں ضرورتمند نہیں ہوں. سودا کرتا ہوں اور اپنی جیب میں خزانہ لیے پھرتا ہوں. یہ سنکر دوستوں نے پہلے تو اطراف میں نگاہ ڈالی اور پھر فقیر کے کرتے پر، جیب سے ایک لال بٹوا جھانکتے ہوئے دکھائی دیا. ایک دوست کی نیت خراب ہو گئی، سو چا نابینا فقیر ہے ہاتھ مار کر چل دیتے ہیں. قریب سے دیکھکر یہ اشارہ بھی کردیا کہ بٹوا قیمتی ہیروں سے بھرا ہوا ہے. اسکی نیت جان کر ہم سب نے نفی میں گردن ہلائی. اچانک نابینا فقیر کی چھٹی حس یا شائد ساتویں ہوگی، جاگ اٹھی اور انہوں نے پھر پکارا . جو دے گا وہی مریگا…………… ساتھیوں پر خوف طاری ہوگیا.

ایک اور دوست نے ہمت کر پھر فقیر سے پوچھا، جناب خزانہ کے عوض کیا دیا جائے آپ کو؟ فرمایا زبان دیجیئے. ایک دوست اسے بھینٹ چڑھانا سمجھ بیٹھے اور فقیر کو کوئی مکار بابا یا بہروپیا عامل. ہم نے سوچا “اندھا کیا چا ہے دو آنکھ” کا محاو رہ تو سنا تھا لیکن انھیں پتہ نہیں کیوں ایک زبان درکار ہے. جبکہ ایک تو پہلے ہی انکے پاس موجود ہے، اور وہ بھی کافی سلیس اور فصیح. اس دوست نے پوچھا، زبان دینا محاورتا کہہ رہے ہیں آپ یا حقیقتا؟… فرمایا زبان دینا محاورتا ہی کہا جاتا ہے ورنہ زبان مانگی نہیں بلکہ کھینچی جاتی ہے. ایک دوست جو خاموشی سے دل ہی دل میں ٹھان چکے تھے کہ جو دینا ہے دیکر وہ خزانہ لے اڑیں گے اور اپنے دیرینہ خواب پورے کرلیں گے، فورا بول پڑے، ہاں میں زبان دینے تیار ہوں، کہیے کیا عہد لینا چاہتے ہیں. باقی دوستوں نے اسے اشارہ سے یاد دلایا کہ خزانہ میں ہم سب برابر کے حصہ دار ہیں. فقیر نے فرمایا، ٹھیک ہے اب آپ تمام دوست عہد کریں کہ خزانہ کا صحیح استعمال کروگے اور اپنے پرائے سب میں اسے بلا ججھک تقسیم کردوگے، اسے چھپا کر یا بچا بچا کر رکھنے کی کوشش نہیں کرو گے. ہم سب نے ایکدوسرے کی طرف دیکھکر اطمینان دلایا اور فورا ہاں کر دی کہ مبادا فقیر صاحب ارادہ نہ بدل دیں. فقیر نے اپنا ہاتھ کرتے کی جیب میں ڈالا اور ہم سب کی سانسیں رک گئیں،کچھ دوست اطراف پر نظر رکھے ہوئے تھے اور کچھ بٹوے پر. اچانک فقیر نے اپنی جیب ٹٹولتے ہوئے پھر پکارا “جب دیگا جبھی …………… ایک دوست نے آہستگی سے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا کہ اب اسکی کیا ضرورت ہے، اور دوسروں کو کیوں جمع کر خوامخواہ حصہ دار بنا رہے ہیں. جب انہوں نے وہ بٹوا باہر نکالا تو جو دوست اول اول خاموش مگر بے چین تھے بول پڑے، جناب میں گرہ کھول دیتا ہوں. پھر انہوں نے آنا فانا میں بٹوا انکے ہاتھوں سے لے کر گرہ کھول دی، اور “پاکٹ سائز ” قران مجید کا نسخہ باہر نکال کر سب کی آنکھوں کے سامنے لہرا دیا. چند لمحہ خاموشی طاری رہی. فقیر نے فرمایا، خزانہ پا کر پہلی بار کسی کو یوں خاموش پایا، آپ لوگوں نے خوشی کا اظہار نہیں کیا، کیا بات ہے؟ اغیار نے تو جب جب اس خزانہ کو پایا خوشی سے دیوانے ہوگئے.
وہ دوست جس نے گرہ کھولی تھی اس نے کہا، جناب جو دینا تھا دے دیا اور خوب دیا، اور جو لینا تھا لے لیا اور خوب لیا، لیکن “وہی مرے گا” والی منطق ہماری سمجھ میں نہیں آئی، ہم سب تو اب تک زندہ ہیں. فرمایا جو عہد آپ لوگوں نے دیا ہے اور جو خزانہ لیا ہے اس سے تو “نفس” کا مرنا طے ہے. خیال رہے کہ’ نفس’ کا زندہ رہنا اپنے عہد سے مکرنے کے مترادف ہے.

یہ قصہ بیان کر شیفتہ نے ایک طویل سانس بھری اور آنکھوں کے کناروں سے بہتے موتیوں کو انگلیوں سے پونچھ کر ہوا میں چھڑک دیا اور فرمایا…

اپنا تبصرہ لکھیں