پچھلے برس موسم سرما میںایک خاتون پی آئی ا ے کی بوئنگ فلائٹ میں جہاز کی سیٹ پر چوکڑی مار کر اور گھونگٹ نکال کر بیٹھی تھی۔یہ فلائٹ لاہور سے ناروے آ رہی تھی۔کچھ مسافروں کی منزل ڈنمارک بھی تھی۔ گھونگٹ پوش خا تون کے بارے میں تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ جہاز چونکہ چار گھنٹے لیٹ ہے اسلیے ان کے خیال میں جہاز پر کسی نے کالا جادو کر دیا ہے۔یہ شک یقیناً خاتون کے گذشتہ ذاتی تجربہ اور مشاہدہ کی بنیاد پر ہو گا۔ انکے خیال میں جہاز کی اڑان میں رکاوٹ تکنیکی یا فنی نہیں بلکہ جادوئی تھی۔ہو سکتا ہے کہ خاتون جدید ٹیکنالوجی سے بالکل نابلد ہوں۔ وہ شائید جہاز میں پہلی مرتبہ سفر کر رہی تھیں ۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ وہ خاتون جہاز اڑنے کے عمل کو بھی سائنسی عمل کے بجائے کوی جادوئی عمل سمجھتی ہوں۔انکے خیال میں جہاز ایندھن کی طاقت سے نہیں بلکہ جادو کی طاقت سے اڑتا ہو گا۔لہٰذا ان تمام شکوک و شہبات کے پیش نظر خاتون ان نادیدہ اثرات کو زائل کرنے کے لیے جادو توڑ عملیات کر رہی تھیں۔یہ بھی عین ممکن ہے کہ وہ کوئی ماہر جادوئی عملیات ہوں۔ انہیں اپنے اس فیلڈ یعنی جادو جوڑنے اورتوڑنے کا وسیع تجربہ ہو ۔ اب وہ اپنے اس تجربہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جہاز کے عملے اور مسافروں کو بالکل مفت فائدہ پہنچانا چاہتی ہوں گی۔تاکہ ہوائی جہاذ جادو اور نظر بد کے نحس اثرات سے محفوظ ہو کر منزل مقصود تک پہنچے۔جب عامل خاتون نے اپنا نادیدہ عمل ختم کر کے گھونگٹ اٹھایا تو جہاز کو وہیں کھڑے پایا۔اپنی اس ناکامی پر و ہ خاصی جز بز ہوئیں۔ انہوں نے جہاز کے عملے سے درخواست کی کہ انہوں نے ناروے جانے کا ارادہ ترک کر دیا ہے۔ اس لیے اب وہ انہیں ناروے کے
بجائے نارو وال یا سرگودھے کے ہوائی اڈے پر اتارتے جائیں۔وہاں وہ اپنی پھپھی یا خالہ کے پاس چلی جائیں گی۔ ان خاتون نے یہ فرمائش یوں کی جیسے وہ قومی ایر لائن کی فلائٹ پر نہیں بلکہ مقامی فلائینگ کوچ سے سفر کر رہی ہیں۔ویسے حرکتیں تو جہاز کے عملے کی ایسی ہی تھیں۔کچھ دیر بعد جہاز میں اعلان ہوا کہ جہاز کی ٹینکی لیک ہونے کی وجہ سے جہاز کی روانگی میں مزید تاخیر ہو گی۔اسی فلائٹ میں ایک پٹرولیم کے سائنسدان بھی سفر کر رہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی خدمات پیش کر دیں۔کچھ ہی دیر بعد ایک مسافر کو دل کا دورہ پڑ گیا اعلان ہوا کہ اگر کوئی ڈاکٹر سفر کر رہا ہے تو وہ مریض کو طبی امداد پہنچائے۔چنانچہ عملے کی درخواست پر میڈیکل کالج کی ایک طالبہ نے اپنی خدمات پیش کر کے مریض کو طبی امداد پہنچائی۔غرض یہ کہ اس فلائٹ میں موجود اکثر ماہرین کو خدمات دینے کا پورا موقع دیا گیا۔ مگر پی آئی اے اپنی خدمات دیر تک دینے سے قاصر رہا۔قومی ایر لائن جو مسافروںکی خدمت میں پیش پیش رہنے کا دعوہٰ کرتی ہے، اس وقت معذرت میں پیش پیش تھی۔ میڈیکل کالج کی طالبہ کی ہائوس جاب کی کافی پریکٹس اس فلائٹ میں ہی ہو گئی۔ کیونکہ دل کے مریض سے فراغت حاصل کر کے اسے ایک نفسیاتی مریضہ کا علا ج بھی کرنے کی درخواست کی گئی۔ان کے بارے میں قیاس ہے کہ جہاز کی تاخیر کی وجہ سے انکا پارہ چڑھا ہو گا جو کہ ایک نفسیاتی مرض کی شکل اختیار کر گیا۔وہ ہوائی مسافر ایک ایئر ہوسٹس کا پیچھا کر رہی تھیں۔وہ اور ایر ہوسٹس سیٹوں کے درمیان سے یوں بھاگ رہی تھیں جیسے بچے چور سپاہی کے کھیل میں کھیلتے ہوئے بھاگتے ہیں۔بڑی مشکل سے جہاز کے عملے نے ایر ہوسٹس کو مشتعل خا تون کے چنگل سے بچایا۔خاتون نے ایر ہو سٹس پہ الزام لگایا کہ اس نے انہیں ٹائلٹ میں بند کر دیا تھا۔ لہٰذا اب وہ انہیں نہیں چھوڑیں گی۔ لیکن ایر ہوسٹس کے بیان کے مطابق انہوں نے انہیں صرف اندر سے ٹائلٹ بند کرنے کا طریقہ بتایا تھا جو کہ ان سے اندر سے نہیں کھل رہی تھی۔ چنانچہ اس مشتعل خا تون کو میڈیکل کالج کی طالبہ نے سکون آور انجکشن لگا کر قابوکیا۔یہ جہاز چار گھنٹے کی تاخیر سے عازم سفر ہوا۔
دوسری طرف جہاز کے انجن کی مرمت کی گئی۔زمین پر پھیلا ہوا ایندھن صاف کیا گیا۔یہ ایک خطرناک نقص تھا۔ٹینکی لیک ہونے کی صورت میں جہاز میں آگ بھی لگ سکتی تھی۔چنانچہ تمام مسافر باری باری جا کر ٹینکی کو چیک کر رہے تھے ۔ ہر مسافر اپنی ماہرانہ رائے دے رہا تھا۔یہ مسافر عملے کو مشاورتی کمیٹی کے ممبران کی طرح مفت مشورے فراہم کر رہے تھے۔مسافروں کے بے لاگ تبصروں سے تنگ آکر پائلٹ انٹر کام پر آیا اور انائونسمنٹ کی کہ جہازکی پروازمیں کچھ ہی دیر باقی ہے اس لیے سب اپنی سیٹوں پر تشریف رکھیں ۔ جو مسافر ٹینکی کی مرمت سے مطمئن نہیں وہ تشریف لے جائیں۔یہ سن کر جہاز میں سناٹا چھا گیا۔ مسافروں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر منزل مقصود پر جانے کا فیصلہ کر لیا۔
ایک عرصہ سے ملکی حا لا ت کی وجہ سے دوسرے ممالک کی ایر لائنز نے پاکستان کا رخ ہی نہیں کیالہٰذ ا اس طرح پی آئی اے بلا شرکت غیرے پاکستانی مسافروں سے پیسے بٹور سکتا ہے۔ یہ پی آئی کے لیے پیسہ بنانے کا سنہری موقعہ ہے۔اس لیے کہ وطن عزیز کے حا لات چاہے جیسے بھی ہوں وطن اور ہم وطنوں کی محبتوں کے ترسے ہوئے لوگ تو ضرور وہاں جائیں گے۔ وطن کی محبت کی خاطر تو پی آئی کے ناروا سلوک کو سہنا پڑے گا۔ وہ بیشتر مسافروں کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ سب سے پہلے تو سیٹوں کی بکنگ میں ہی گھپلا شروع ہو جاتا ہے۔چھٹیوں سے دو ماہ پہلے ہی تمام سیٹیں بک ہونے کا پیغام سنا دیا جاتا ہے۔ جبکہ چھٹیوں سے دو ہفتے پہلے سیٹیں زیا دہ پیسے لے کر بک کر دی جاتی ہیں۔ اس کے بعد واپسی کی سیٹیں ری کنفرم کروانے کا مسلئہ الگ ہوتا ہے۔ سیٹیں بک کرواتے وقت پی آئی اے کا عملہ کہتا ہے کہ سیٹیں نہیں ہیں جبکہ مسافروں کے بیان کے مطابق جہاز کی آدھی سیٹیں خالی ہوتی ہیں۔ جن مسافروں کو ایئر لائن کا عملہ سیٹیں کم ہونے کا پیغام دیتے ہیں ، وہی مسافر خالی سیٹوں پر سو کر سفر گزارتے ہیں۔ کیا ہماری قومی ائیر لائن کا کوئی ذمہ دار آفیسر اس راز پر سے پردہ اٹھا سکتا ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ مزید یہ کہ بیچارے پاکستانی مسافر اس مسلہء سے کیسے نبٹ سکتے ہیں۔ آخر ہماری ہی ائیر لائن ہمی سے پرائیوں جیسا سلوک کب تک کرتی رہے گی؟؟؟ اے ارباب اختیار ان بے اختیار مسافروں کے مسائل کا آپکے پاس کوئی حل ہے ؟؟؟کیا یہ مسلئہ ابامہ یا اسامہ حل کرنے آئے گا؟؟؟
گو کہ پاکستان اندرونی بیرونی خطرات اور قدرتی آفات کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، لیکن وطن کی کشش چھٹیوں میںمحبت کے ماروں کو اپنے پیاروں کی جانب بلا تی رہی ہے۔مسافروں کے پاس پی آئی اے کے سوا کوئی دوسری ایر لائن کی چوائس نہیں۔ چنانچہ پی آئی اے کی چیرہ دستیوں سے بچنے کا کوئی امکان بھی نہیں۔قومی ایر لائن کا شمار ان ایر لائنز میں ہوتا ہے جن کے پاس سب سے پرانے اور پھٹیچر جہاز اور اکھڑ مزاج عملہ ہے۔ جبکہ مہنگی ترین ائیر لائن اسکی اضافی خوبی ہے۔ اسکے باوجود ہمیشہ خسارے میں رہتی ہے۔ امید ہے اس مرتبہ پاکستان کے ہوائی میدان میں کوئی حریف نہ ہونے کی وجہ سے بہت منافع ہو گا۔کیا قومی ایئر لائن میں عملہ کو اخلاقی ضابطوں کا پابند نہیں کیا جاتا۔اسلامی ملک کے باشندے ہونے کی وجہ سے پی آیء کے عملے کو بھی مذہبی اور اخلاقی اقدار کی پابندی کرنی اور کروانی چاہیے۔ قومی ایر لائن کی خصوصیات مسافروں کی نظر میں یوں بیان کی جا سکتی ہیں۔
مہنگی ترین قومی ایئر لائنقدیم ترین جہازوں اونک چڑھے عملے کے ساتھ آپکو لوٹنے کے لیے پیش پیش۔
اب تو بیشتر یورپین ایئر لائنز بھی ہوائی سفر میں شراب کے استعمال کے بارے میں پابندی کے بارے میں غور کر رہی ہیں۔پی آئی اے ایک اسلامی ملک کی ایئر لائن ہے اس پر شراب کی پابندی ہونی چاہیے۔ لیکن اس سلسلے میں پی آئی اے کا موقف یہ ہے کہ غیر ملکی مسافروں کی تواضع کے لیے فلائٹ پر ام الخبائث رکھی جاتی ہے۔ چنانچہ غیر ملکی مسافروں کے ساتھ ساتھ ملکی مسافر بھی اس سہولت سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں ۔اس لیے کہ ملکی امراء کے خیال میں تیل مفت بٹ رہا ہو تو جوتی میں بھی ڈلوا لینا چاہیے ۔ یہ تو پھرشراب ہے۔اس سلسلے میں کئی ایمان شکن مظاہرے دیکھنے اور سننے کو ملے ہیں۔ایک پی آئی اے کی مسافر کے مظابق پاکستان سے واپسی پر چند مسافر مسلسل شرا ب و کباب سے شغل کر کے شور و غوغا کرتے رہے۔ پی آئی کا عملہ انہیں گرما گرم کباب اور ٹھنڈی یخ مہ پیش کر کے خدمت بجا لاتا رہا۔ اس طرح پی آئی اے کے جہاز میں انہوں نے پی پی کے خوب غل مچایا۔ پڑوسی مسافروں نے انکی شکائیت بھی کے لیکن عملہ انکی خد مت پر مامور رہا۔جہاز اڑتا رہا اور شغل مہ نوشی چلتا رہا۔بقول نارویجن نثراد پاکستانی شاعر مسعود منور بھٹی کے
فرات شام میں بہتا ہے آب ممنوعہ
بڑی ڈھٹائی سے اہل کتاب پیتے ہیں
ہمارے پاس تو خیام کی صراحی ہے
چھلک پڑے جو بے حساب پیتے ہیں
وطن ہے جالب خستہ کا میکدہ مسعود
بروز جبر وشب احتساب پیتے ہیں