شہزاد بسراء (26.3.2010)
”میم ۔ کیا آپ ڈایا بیٹک ہیں ؟”
نوجوان ڈاکٹر آج بہت خوش تھا۔ ایم بی بی ایس مکمل کرنے کے بعد آج اُس کا ہاؤس جاب میں پہلا دن تھا۔وہ ساتھی ڈاکٹروں کے ہمراہ وارڈ کا راونڈکر رہا تھا۔ وہ بڑے اشتیاق سے مریضوں کو دیکھ رہاتھا۔ اِسی سلسلے میں اُسے ایک دیہاتی بزرگ مریض خاتون کی ہسٹری لینی پڑی ۔ لگتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کا تعلق کسی خوشحال اردو سپینگ گھرانے سے ہے اور وہ خاصی حد تک پنجابی سے نابلد ہیں ۔ جبکہ اماں جی خالصتاً دیہاتی لگ رہی تھیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے مریضہ کا چارٹ مکمل کرنے کے لیے اُن سے ذیابطیس کے متعلق جاننا چاہتے تھے۔ سو بھولے ڈاکٹر نے خالِصتاََ شہری لہجہ میں اماں جی سے پوچھا
”میم ۔ کیا آپ ڈایا بیٹک ہیں ؟”
”آہو پُتر ۔ میں تے کھڑی کھلوتی پٹک ڈِگ پینی آں ( جی بیٹا ۔ میں تو کھڑے کھڑے پٹک گر جاتی ہوں )” ۔اماں جی نے سادگی سے جواب دیا۔
ساتھی ڈاکٹروں نے قہقہ لگایا تو ڈاکٹر صاحب کو احساس ہوا کہ تھوڑی آسان زبان میں پوچھنا چاہیے تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے کھیسانے ہوکر اپنی طرف سے کافی آسان زبان میں پوچھا
”بڑی بی ۔ میرا مطلب ہے کہ کیاآپ کو شوگر ہے؟”
”شوکر۔آہو پُتر ۔ کناں وچ بڑیاں شوکراں پیندیاں نیں ( جی بیٹا ۔ میرے کانوں میں شاں شاں ہوتا ہے)۔اماں جی بیچاری کو شوگر کا کیا پتا وہ شوگرکو شوکر یعنی شاں شاں سمجھیں۔
ساتھی ڈاکٹروں کے قہقے اور بڑھ گئے۔
ڈاکٹر صاحب نے خجالت اور بے بسی سے ساتھیوں کو دیکھا اور مدد چاہی ۔ ایک شرارتی ڈاکٹر نے کان میں کچھ تجویز دی تو ڈاکٹر صاحب جھینپ گے مگر ساتھی کی تائید سے ہمت بڑھا کے بادلِ نخواستہ قدرے عامیانہ اور اُجڈ انداز میں پوچھنے پر مجبور ہوگئے۔ڈاکٹر صاحب کے ماتھے پر پسینہ نمودار ہو چکا تھا۔ ڈر تے ڈرتے پوچھا ۔
”اماں جی کیا آپ کو پیشاب میں میٹھا آتا ہے؟ ”
”پتر کدی چکھ کے نیئں ویکھیا ( بیٹا کبھی چکھ کر نہیں دیکھا )”
ڈاکٹر صاحب مارے شرم کے لال ہوگئے اور بھاگ لیئے۔ ساتھیوں کے بلند قہقہے اُن کا پیچھا کررہے تھے۔
دیہی بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر صاحبان تو سادہ لوح مریضوں کے اندازِ بیاں کو خوب سمجھتے ہیں مگر شہری ماحول میں پلے بڑھے ڈاکٹر صاحبان کیلئے سادہ ان پڑھ مریضوں سے بات چیت کافی مشکل مرحلہ ہوتی ہے۔ سادہ پنجابی تو زیادہ تر لوگ سمجھ ہی لیتے ہیں مگر ٹھیٹھ زبان سمجھنا شہری ڈاکٹروں کے بس کی بات نہیں۔ خصوصاً بزرگ لوگ تو اس انداز سے بیماری کے متعلق بتائیں گے کہ ڈاکٹر سر پکڑ کے بیٹھ جاتاہے۔ میں جب کسی ہاسپٹل یا ڈاکٹر کے کلینک جاتاہوں تو منتظر رہتا ہوں کہ کب کسی ڈاکٹر کا پالا کسی دیہاتی بزرگ سے پڑ ے اور مزے کی باتیں سنیں ۔ مثلاً
”ڈاکٹر صاحب مجھے ٹانگوں میں کڑل پڑتے ہیں” ۔ اب ڈاکٹر بیچارے کو کیا پتا کہ کڑل کیا ہوتے ہیں ۔کِسی پروفیسر نے یہ کبھی پڑھایا ہی نہیں۔
”میرا کلیجہ رات سے گُم گُم ہے”۔اب ڈاکٹر بیچارہ کیا سمجھے کہ مریض کا جگر کہیں گُم گیا ہے۔
”ڈاکٹر صاحب مجھے صبح سے بڑی ”اَچ وی” ہو رہی ہے”۔اب ڈاکٹر ‘اَچ وی’ کے مطلب کے لیے کونسی لُغت دیکھے؟
”ڈاکٹر صاحب میرے پیٹ میں گیس کا گولا بنتا ہے اور گھومتا گھومتا میرے سرکو چڑھتا ہے”۔ اب ڈاکٹر لاکھ کہے کہ بھائی معدے سے سر تک ایسا کنکشن نہیں جس میں گیس کا گولا سر تک پہنچ سکے۔ مگر اماں جی کو تو ایسے ہی محسوس ہوتاہے۔ اگر ڈاکٹر نہ سمجھے تو ڈاکٹر ہی نا سمجھ ہے۔
معدہ کے امراض کے مریضوں کو سنبھالنا ڈاکٹر کیلئے غالباً سب سے زیادہ مسئلہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر جلدی میں ہوتا ہے کہ مریض کوفارغ کرکے اگلے کو بھگتائے جبکہ مریض کا موڈ ہوتا ہے کہ کم از کم پچھلے دودن میں جو کچھ کھایا ہے وہ سب بتائے مثلاَ
”َ ڈاکڈار صاحب میں گوجرانوالہ اپنے مسیر سے ملنے گیا ہوا تھا۔ ٤ دن میں ٹھیک ٹھاک رہا۔ پرسوں جب واپس آنے لگا تو میری بھابھی نے ٹینڈے آلو پکائے۔ دو روٹیاں کھا کے لسی پی اور واپسی کے لیے بس میں بیٹھ گیا۔اللہ نہ بھلائے تو جب شیخوپورہ آیا تو نان چنے کھائے جبکہ شاہکوٹ سے جلیبیاں کھائیں۔ کھر ڑیانوالہ شربت پیا۔ گھر آکے ساگ روٹی کھائی۔رات چنگا بھلا سویا۔صبع ککڑ کی پہلی ہی بانگ پہ اُٹھنا پڑا کیونکہ پیٹ میں شدید درد تھی۔کافی دوا دارو کیا۔ اجوائن کالے نمک میں ملا کے کھائی، پودینے اور الائیچی کا پکا پانی پیا، انار اور جامن کے پتے پیس کے کھائے ، 7up بھی نمک ڈال کے پی مگر کوئی فرق نہیں پڑا۔ درد بڑتا ہی گیا۔رات ایک سیانے کو بھی دکھایا مگر اُس کے دارو سے بھی افاقہ نہیں ہوا”۔
ایسے دیسی دیہاتی مریض قابو بھی حکیم عامر جیسے معالجوں سے آتے ہیں ۔ پچھلے دنوں حکیم محمد عامر نباض ماہر امراض ظاہرہ و پوشیدہ، طبیب و جراح فاضل لاثانی یونانی میڈیکل کالج کے مطب میں ملنے چلا گیا ۔تھوڑی دیر بعدایک مریض آ گیا۔ دیہاتی مریض نے اپنا سائیکل جو بغیر اسٹینڈ کے تھا مطب کی دیوار کے سہارے یوں کھڑا کیا کہ آدھا دروازہ رُک گیا تاکہ اندر سے سائیکل پر نظر رہے۔ دیہاتی مریضوں کی عادت ہے کہ ڈاکٹر کو تو بیماری کی مکمل تفصیل سے آگاہ کرتے ہیں جبکہ حکیم کو صرف نبض پکڑا دیتے ہیں کہ وہ خود ہی تشخیص کرے ۔ چنانچہ مریض نے حکیم عامر صاحب کو نبض دیکھے کیلئے بازو آگے بڑھا دیا اور خاموشی سے حکیم صاحب کی تشخیص کا انتظار کرنے لگا ۔حکیم صاحب نے معدے کی گرمی اور گیس تشخیص کی۔ مریض کا چہرہ کھل اُٹھا کہ حکیم صاحب بہت سیانے ہیں ۔ حکیم صاحب کی مزید مدد یوںکہ
”حکیم صاحب کھائے جاتا ہوں مگر نتیجہ کچھ نہیں”
”کیا مطلب؟ قبض ہے کیا؟”
”جی حکیم صاحب مجھے 4یوم سے باتھ روم جانے کی حاجت نہیں ہوئی۔ سخت قبض ہے۔ کوئی جلد اثر دوا دیں”
حکیم صاحب نے فرمایا ۔” تم بھی کیا یا د کرو گے۔ ایک اعلی جلاب بنایا ہے جو انتہائی سریع الاثر ہے اور منٹوں میں اپنا اثر دکھاتا ہے۔
یہ لو دو گولیاں۔ ابھی مت کھانا۔ گھر جا کے کھا لینا ۔ 20روپے اس کی فیس ہے”
مریض نے اپنی دھوتی کی ڈب سے 100روپے کا ایک مڑا تڑا نوٹ حکیم صاحب کے حوالے کیا ۔ اب حکیم صاحب کے پاس 100کا کھلا نہیں تھا۔ صبح سے کسی گاہک میرا مطلب ہے کسی مریض کا منہ نہیں دیکھا تھا۔ مجبوراً حکیم صاحب 100کا نوٹ پکڑے اس کا کھلا لینے ساتھ والی مارکیٹ چلے گئے ۔
کچھ دیر انتظار کے بعد مریض نے مطب کے کونے میں رکھے پانی کے کولر سے گلاس بھر ا اور گولیاں والی پُڑی کھولنے لگا۔میں نے حالات کی سنگینی پھاپنتے ہوئے مریض کو یاد دلایا کہ حکیم صاحب نے ہدایت کی تھی کہ دوا ذرا جلد اثر دکھاتی ہے لہذا اسے گھر جاکے استعمال کی جائے۔
مگرہمارے انتباہ کے باوجود مریض نے دونوں گولیاںپھانک لی ۔ ہمارے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہونے شروع ہوگئے ۔ حکیم صاحب کے آنے کے ابھی کچھ آثار نہ تھے ۔ ہم باہر بھی جھانک آئے۔
جوں جوں وقت گزر رہا تھا مریض بھی بے چین ہونا شروع ہو گیا۔وہ بار بار پہلو بدل رہا تھا اور ہونٹوں پہ زبان پھیر رہا تھا ۔ آخر خدا خدا کرکے حکیم صاحب نمودار ہوئے اور گویا ہوا
”کھلا ڈھونڈنا بھی ایک مسئلہ ہے۔ پوری مارکیٹ گھوما، کوئی دے ہی نہیں رہا تھا۔آخر 10روپے کی قلفی کھانا پڑی تب جاکے کھلا ملا ۔ یہ لو 80روپے اورآئیندہ کھلا لے کر آیا کرو”۔
مریض کی بے چینی دیکھ کر حکیم عامر پریشان ہوگئے ۔ ہم نے بتایا کہ ہماری وارننگ کے باوجود مریض نے گولیاں کھالی ہیں ۔
حکیم صاحب غرائے
”اوے میں نے تمہیں سختی سے کہا تھا کہ دوا گھر جاکے استعمال کرنا ۔ اب فوراً گھر پہنچو۔یہاں قریب کوئی بیت الخلا ء نہیں ہے”۔
مریض نے جلدی سے پیسے دھوتی میں اُڑیسے اور تیز تیز قدموں سے باہر نکل گیا ۔ صاحبو آپ تو جانتے ہی ہو کہ بائیسکل پر سوار ہونے کیلئے ایک پاؤں پیڈل پر رکھ کر دوسری لات کوسَرِعام مکمل گھما کر بیٹھنا پڑتا ہے ۔اوپر سے سونے پہ سوہاگہ مریض نے دھوتی باندھ رکھی تھی ۔ مریض کی لات ابھی فضا ء ہی میں تھی کہ دوا نے اپنا کام دکھایا دیا۔ 4روز کی رکاوٹ سریع الاثر دوا نے چند منٹ میں دور کردی ۔ چونکہ مریض مطب کے دروازے کے پاس ہی تھا دوا کا نتیجہ بھی مطب کے دروازے کی چوکھٹ پر ہی گرا۔
ہم بچتے بچاتے جب وہاں سے راہِ فرار اختیار کرکے سٹرک کے اُس پار گاڑی میں بیٹھے تو حکیم صاحب کے کوسنے کی آوازیں یہاں تک آرہی تھیں اور وہ کولر کے پانی سے مریض اور چوکھٹ کی صفائی میں مصروف تھے۔