راجہ عامر محمود بھٹی
ازبکستان کی سر زمین یوں تو ہر پہلو سے تاریخی ہے لیکن یہاں کی خاص چیز جسے عالم اسلام کیلئے تحفہ قرار دیا جاسکتا ہے وہ حضرت امام بخاری کی ذات ِ با برکت ہے۔ ازبکستان کی سرزمین گزشتہ ایک ہزار سال سے زائد عرصے سے ایمان کے نور سے فیض یاب ہو رہی ہے۔ حضرت امام بخاری کا مزار مقدسہ تاریخی شہر ثمر قندکے مرکز سے تقریباً چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔ پیغمبر آخر حضرت محمد ۖ کے بعد مسلمانوں کے لئے دینی لحاظ سے حضرت امام بخاری کا نام مقدس ترین ہستیوں میں سے ایک ہے۔اہل سنت کے لئے قرآن پاک کے بعد سب سے مقدس مذہبی کتاب مجموعہ احادیث ہے جبکہ احادیث کے حوالے سے دنیا میں معتبر ترین نام حضرت امام بخاری کا ہے ۔ آپ کے مرتب کردہ مجموعہ احادیث کا نام صحیح بخاری ہے آپ کی کتب میں سب سے زیادہ احادیث مبارکہ ہیں ۔
حضرت امام بخاری کمپلیکس دس ہیکٹر پر مشتمل ہے اس کمپلیکس میں ایک عظیم الشان مسجد بھی ہے جس میں قریباً دس ہزار نمازیوں کیلئے نماز پڑھنے کی سہولت ہے۔ یہاں ایک تاریخی میوزیم بھی ہے جس میں اسلامی کتب اور قرآ ن پاک رکھے ہوئے ہیںجبکہ سابق وزیر اعظم پاکستان محترمہ بے نظیر کا تحفے میں دیا گیا قرآن پاک بھی یہاں رکھا گیا ہے ۔ کمپلیکس کی تعمیرازبکستان کے موجودہ صدر اسلام کریموف کی ذاتی دلچسپی ، جذبہ ایمانی اور حب الوطنی کی بناء پر شروع ہوئی ۔ 1997ء میںکمپلیکس کی تعمیر شروع ہوئی اور آٹھ ماہ کی قلیل مدت میں یہ شاندارکمپلیکس تیار ہو گیا ۔ کمپلیکس کی تعمیر میں ازبکستان کے تمام اضلاع کے لوگوں نے حصہ لیا۔ صدر اسلام کریموف حضرت امام بخاری سے اس قدر عشق رکھتے ہیں کہ آپ نے نہ صرف اس کمپلیکس کو شروع کروایا اور نگرانی کی بلکہ اس کے افتتاح پربھی بذات ِ خود حاضر ہوئے ۔
آپ کا پورا نام ابو عبداللہ محمد ابن ِ اسمٰعیل ال بخاری تھا لیکن آپ تاریخ میں امام بخاری کے نام سے مشہور ہوئے ہیں ۔آپ 20جولائی 810ء عیسوی کو بخارا میں پیدا ہوئے ۔ اسلامی کیلنڈر کے مطابق یہ 13شوال 194ہجری بنتا ہے۔ آپ کے والد محترم حضرت اسماعیل ابن ابراہیم احادیث کے مشہور عالم تھے ۔ آپ کی وفات کے وقت امام بخاری بہت چھوٹے تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت امام بخاری کو بَلا کا حافظہ عطا کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کی عمر جب فقط دس سال تھی تو آپ کو اس وقت قریباً 70 ہزار احادیث مبارکہ زبانی یاد تھیں ۔ یہ احادیث ان تک سینہ بہ سینہ پہنچی تھیں ۔ حضرت محمد ۖسے لے کر درجہ بہ درجہ صحابہ کرام اور دیگر اساتذہ کی معرفت حضرت امام بخاری کے احادیث کو قلم بند کرنے تک یہ سلسلہ چلتا رہا تھا ۔ آپ نے اپنی والدہ کی نگرانی میں بخارا میں گیارہ سال کی عمر میں اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کر لی اور احادیث کی مزید تعلیم حاصل کرنی شروع کردی ۔
بچپن میں آپ نے اپنے ایک استادکی غلطیوںکی نشاندہی کی استاد محترم اپنے کمسن شاگرد کی بات سن کر ہنس پڑے لیکن آپ اپنی بات پر ڈٹے رہے اور کتابوں کے حوالے سے اپنی بات کو درست ثابت کیا ۔ سولہ سال کی عمر میں آپ نے بخارا کے تمام اساتذہ سے علم حاصل کر لیا اور اس وقت دستیاب تمام کتب سے استفادہ حاصل کیا۔سولہ سال کی عمر میں آپ نے بھائی اور والدہ کے ہمراہ مکہ مکرمہ کی زیارت کیلئے سفر کیا ۔ آپ نے حصول علم کی خاطر اس وقت تمام اہم اسلامی مراکز کا دورہ کیا۔ آپ نے بصرہ میں تقریباً چار تا پانچ سال قیام کیا چھ سال حجاز میں رہے اور مصر کا دوبار دورہ کیا ۔ آپ نے کوفہ اور بغداد کا بھی کئی بار دورہ کیا۔بصرہ اور بغداد میں احادیث کے سکالرز نے حدیثوں کے متن بدل کر اور دیگر ذرائع سے بھی آپ کی قابلیت کا امتحان لیاجبکہ آپ نے ہر جگہ درست اور غیر متنازعہ احادیث سنا کر علماء سے داد حاصل کی چنانچہ آپ کی غیر معمولی صلاحیت کو ہر جگہ تسلیم کیا گیا۔
آپ 6سال کے تھے جب آپ کی بینائی نہیں تھی لیکن آپ کی والدہ محترمہ نے خواب میں دیکھا کہ آپ کی بینائی واپس لوٹ آئے گی ۔ صبح اٹھ کر دیکھا تو حضرت امام بخاری کی بینائی لوٹ آئی تھی ۔ اٹھارہ سال کی عمر میں آپ نے خود کو احادیث اکٹھی کرنے اور ان کی صحت کی جانچ پڑتال کے لئے پوری طرح وقف کردیا۔ احادیث جمع کرنے کیلئے آپ نے پوری اسلامی دنیا خاص کر مصر، شام ، عراق اور عرب کا دورہ کیا۔ تقریباً سولہ سال کی غیر حاضری کے بعد واپس بخارا لوٹ آئے ۔ آپ نے تقریباً ایک ہزار اشخاص سے احادیث سنیں ۔ ان میں درست اور غیر مصدقہ دونوں شامل تھیں اور ان کی تعداد تقریباً ساٹھ ہزار سے زیادہ تھی ۔ آپ نے درست ترین اور تصدیق شدہ 7,275احادیث کو ابواب کی شکل دی جو بعد میں اسلامک قانون کے ماخذ کے طور پر بڑی کارآمد ثابت ہوئیں ۔ اہل سنت کیلئے آپ کی شخصیت بے حد قابل احترام ہے۔ مسلمانوں کیلئے ان کے مجموعہ احادیث ”صحیح بخاری” کو قرآن پاک کے بعد سب سے قابل احترام مذہبی کتاب تسلیم کیا جاتا ہے۔
آپ نے چالیس سال مکہ مکرمہ میں گذارے تھے ۔ آپ کی تصانیف کی تعداد 24ہے جو احادیث سے متعلقہ ہیں ۔ آپ نے ”ال ادب ال مفرد ” نامی کتاب میں احادیث بیان کرنے والوں کے حالات زندگی بھی بیان کیے ہیں۔ حضرت امام بخاری سے عقیدت کے اظہار کیلئے مسلم دنیا میں صدیوں سے تعلیمی اداروں ، مدرسوں ، حکومتی اداروں ، گلیوں اور دیگر اہم مقامات کے نام حضرت امام بخاری کے نام پر رکھے جا رہے ہیں ۔ آپ 864ء میں وسط ایشیاء کے عظیم شہر نیشا پور آئے ۔ اس وقت آپ کی عمر 54برس تھی آپ کا شاندار استقبال ہوا ۔ یہاں آپ کی ملاقات مسلم ابن الجاج سے ہوئی حضرت مسلم کا شمار آپ کے شاگردوں میں کیا جاسکتا ہے حضرت مسلم ابن الجاج نے بعد میں احادیث کی مشہور کتاب ”صحیح مسلم ” تصنیف کی۔ بخارا کے خالد ابن احمد کو تعلیم دینے سے انکار پر آپ کو بخارا چھوڑنا پڑا ۔ بخارا سے سمر قند جاتے ہوئے آپ بخارا خارتنک نامی گائوں میں قیام پذیر ہوئے اور آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں مجھے اپنے پاس بلا لے پھر یہیں پر آپ کی رحلت 62سال کی عمر میں 870ء عیسوی کو ہوئی ۔
آپ کی ذات دنیاوی لالچ اور عہدوںسے بے نیاز تھی ۔ایک بار امیر بخارا نے آپ کو دعوت دی کہ میرے گھرآکر بچوںکو تعلیم دیا کریں ۔ آپ نے جواب دیاکہ میں گھروں میں جا کر علم نہیں بانٹتا جس نے علم حاصل کرنا ہے وہ خود چل کر میرے پاس آئے۔ آپ اپنی تمام مال و دولت علم کے حصول اور سفر میں خرچ کر تے تھے ایک بار کشتی میں سفر کرتے ہوئے ایک لالچی شخص نے آپ کے پاس سونے کی پانچ سو اشرفیاں دیکھ کر شو ر مچادیا کہ میرے سونے کے پانچ سو سکے کسی نے چرا لیے ہیں ۔ یہ سن کر آپ نے تمام پانچ سو سونے کے سکے سمندر میں پھینک دیے تلاشی لینے پر کسی سے کچھ نہ نکلا ۔ منزل پر پہنچ کر اس شخص نے کہا کہ یہ آپ نے کیا کیا ؟ آپ نے جواب دیا میں احادیث پر ایک کتاب لکھ رہا ہوں میں نہ تو اپنی توہین چاہتا ہوں اور نہ ہی کسی کو اپنا رتبہ گرانے کی اجازت دوں گاسویہی بہتر تھا جو میں نے کیا ۔
نظریاتی لحاظ سے حضرت امام بخاری اسلام کے بنیادی اصولوں پر سختی سے کاربند رہنے پر یقین رکھتے تھے ۔ آپ کو حضرت احمد ابن حمبل سے دوستی کا شرف حاصل تھا ۔ آپ عقیدے کے لحاظ سے حضرت امام حمبل کے پیروکار تھے ۔اپنے وقت کے تمام عظیم علماء اور صاحب علم و بصارت نے آپ کو حدیث کا عظیم ترین عالم تسلیم کیا ہے۔ان اعلیٰ ہستیوں میں حضرت احمد ابن ِ حمبل ، علی ابن المدنی ، ابو بکر ابن ابی شیبا اور اسحاق ابن رحاویہ شامل ہیں ۔ اپنی تمام زندگی حضرت امام بخاری ایک سچے اور ایماندا ر مسلمان کی طرح رہے۔ آپ کا ذریعہ معاش تجارت تھا جبکہ تجارت میں آپ بہت ایمانداری سے کام لیتے تھے ۔ آپ کی آمدن کا بڑا حصہ طلباء اور ناداروں کی امداد پر خرچ ہو جاتا تھا۔ آپ کبھی غصے میں نہیں آتے تھے نہ ہی آپ کسی کے بدخواہ تھے حتی کہ ان لوگوں کے بھی نہیں جنہوں نے آپ کو نیشاپور سے نکلوایا تھا۔
حضرت امام بخاری دنیا کے عظیم ترین لوگوں میں سے ایک تھے ۔ آپ کا نام ساری دنیا میںبہت عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ آپ نہ صرف ازبک قوم کے لئے فخرکا باعث ہیں بلکہ ان کا کام پوری انسانیت کی بھلائی کیلئے ہے۔ آپ ازبکستان کی قابل فخر مذہبی ہستی اور ان کے عظیم آ بائو اجداد میں سے تھے ۔ ازبک قوم اور ازبکستان کو ان پر بلا شک و شبہ فخرہے ۔ ان کی مقدس تعلیمات تمام دنیا کے مسلمانوں کے لئے ہمیشہ سر چشمہ ہدایت رہیں گی۔ گیارہ صدیوں سے حضرت امام بخاری کا نام دنیا کے ان عظیم لوگوں میں شمار ہورہا ہے جنہوں نے دنیا اور انسانیت کو علم و ہم آہنگی اور فکر کی دولت سے مالا مال کیا۔
٭٭٭٭٭
Good Information
Thanks Nasir
Editor