علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال موبائل نمبر0300-6491308
مسلمانوں کے تمام مسالک اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا میں اب عباد ت وریاضت کی کثرت تو میسر آسکتی ہے مگر درجہ صحابیت ملنا محال و ناممکن ہے۔
قرآن مجید نے صحابہ کرام کی شان اعلیٰ و مرتبہ رفیعہ کو جن پیارے پیارے لفظوں اور حسین حسین جملوں میں بیان کیاہے ان سے روح میں تازگی ،ایمان میں شگفتگی ،دل میں نور، آنکھوں میں سرور آتا ہے قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا ابدی فیصلہ اور ازلی فرمان ہے ۔اس میں اگر اس پاک طینت گروہ اور روحانی جماعت کی صحیح تصویر نہ ہو تو پھر کس چیز میں ہو گی۔دوست و دشمن ،مسلم و کافر سب اس بات پر متفق ہیں کہ سیرت رسول میں سب سے صحیح اور غیر مشکوک اور یقینی کتاب قرآن مجید ہے اس کا نقطہ نقطہ کلمہ کلمہ تحریف و تبدیلی سے مبرا اور منزہ ہے ۔ قرآن پاک جس طرح فخر رسل سید کل بانی اسلام احمد مختار اول الانبیائ، ختم المرسلین آخرالنبیینۖ کے زمانہ فیض رساں میں تھا ۔ بالکل اسی طرح اب بھی موجود ہے اور قیامت تک باقی رہے گا۔کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون۔”یقینا ہم نے اس(یعنی قرآن کریم کو) ذکر کونازل فرمایا اور یقینا ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔”
اسی لئے اس صحیفۂ الہٰیہ میں اس گروہ کے خصائص و مناقب ، خوب واضح اور غیر مبہم الفاظ میں تحریر کئے گئے ہیں اور اس گروہ کے سردار حضرت سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ ان تمام اوصاف جلیلہ میں واسطة العقد ہیں۔قرآن مجید میں ”والذین معہ اشد آء علی الکفار رحماء بینھم۔فرمایا گیا ہے(اس میں معہ سے مراد حضرت سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں ) جن کو معیت رسولۖ ہر مقام پر حاصل ہوئی ۔ چنانچہ جب اسلام کی دعوت قریش کو دی گئی تو اس وقت کیا ہوا۔یہ خود لسان ماینطق عن الھویٰسے ملاحظہ کیجئے:قال رسول اللّٰہ ۖ ھل انتم تار ک لی صاحبی انی قلت ایھا الناس انی رسول اللّٰہ الیکم جمیعا فقلتم کذبت وقال ابو بکر صدقت فما اوذی بعدھا۔”حضور ۖ نے فرمایا:کیا تم میرے لئے میرے صاحب کو چھوڑ دو گے؟ جب میں نے کہا: اے لوگو! میں اللہ کا رسو ل ہوں تم سب کی طرف ۔تو تم نے تکذیب کی اور ابو بکر نے تصدیق کی ۔پھر ابو بکر کو اذیت نہیں دی گئی۔”(بخاری شریف)
اس مرحلہ پر بھی ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ وہ سب سے پہلے فرد تھے جنہوں نے نبی اکرم ۖ کے پیغام کو مانا اور پہلے ساتھی (معہ)کا مظہربنے ۔
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں پھر تصد یق بھی اس طرح سے نہیں جیسے اور لوگوں نے کی تصدیق رسول ۖ کی شان بھی نرالی تھی سنیئے رسول اللہ ۖ نے فرمایا۔”میں نے جس کو اسلام کی دعوت دی تووہ رک گیا اور اس نے تردیدکی مگرابوبکر نے ہچکچاہٹ نہ کی جب میں نے ذکر کیا کوئی نہ تردد کیا ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 28)
امام بیہقی فرماتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نبوت رسول ۖ کے دلائل دیکھتے تھے اور اس کے آثار پہلے سے سنتے تھے لہٰذا قبل دعوت ان کا مرحلہ نظر و فکر گذر چکا تھا ۔دعوت الی الاسلام کے بعد آپ فوراً اسلام لے آئے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ زمانہ قبل نبوت میں رسول اللہ ۖ کے دوست تھے اس دوستی کی یہی وجہ تھی کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بڑے تاجر اور بڑے عزت وحرمت والے تھے ۔جاہلیت میں ارتکاب فواحش اور شراب پینے سے دوررہتے تھے ۔یہ تمام اوصاف بدرجہ اتم رسول اللہ ۖ میں پائے جاتے تھے اس لئے دونوں حضرات ماقبل دعوت الی الا سلام بھی متحدو متفق اور ممدومعاون رہے اور مابعد دعوت توحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ دست راست اور وزیر اعظم تھے پھر یہ معیت رسولۖ کا فضل اس وقت بھی ساتھ رہا جب نبی کریم ۖ نے ہجرت فرمائی اجازت ملی تو ساتھ ہی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی اجازت سفر عطا ہوئی۔(بخاری شریف)
حدیث ہجرت میں ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مدینہ جانے کا تصور کیا تو رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ! جلدی نہ کرو ۔اسلئے کہ مجھے اجازت ملنے والی ہے ۔حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی ۔میرے ماں باپ آپۖ پر قربان ہوں کیا آپ ۖاس کی اُمید کرتے ہیں ۔فرمایاہاں! تو حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ رک گئے تاکہ رسول اللہ ۖ کے ہم رکاب سفر کر سکیں اور وہ عمدہ اونٹنیوں کو جوان کے پاس تھیں چار ماہ تک خوب چارہ کھلاتے رہے۔ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مکان میں دوپہر کے وقت بیٹھے تھے کہ کسی کہنے والے نے کہا یہ رسول اللہ ۖ منہ پر نقاب ڈالے ہوئے آرہے ہیں ۔اس وقت رسول اللہ ۖ نہیں آیا کرتے تھے ۔
حضرت سید ناابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرے ماں باپ آپ ۖپر فدا ہوں قسم خدا کی اس وقت آپۖ کوکوئی امر عظیم ہی لایا ہے ۔رسول اللہ ۖ نے دروازے پر طلب اذن د خول کیا تو حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اجازت دی ،مکان میں داخل ہو کر فرمایا کہ یہاں جوہیں ،ان کو نکال دو۔توحضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی یہ تو آپۖ کے اہل ہی ہیں تو فرمایا کہ مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ۔ابو بکر نے عرض کیا کہ میرے ساتھ جانے کی بھی؟ فرمایا:ہاں(بخاری شریف)
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ رسول مقبول ۖ کو ہجرت اور معیت حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کی اجازت ایک ہی دن عطا ہوئی ۔چنانچہ روافض کی تفسیر عسکری میں بھی یہ بات موجود ہے: ان اللّٰہ امرک ان تستصحب ابا بکر۔ ”اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ ابو بکر کو ساتھ لے جائیں۔”(تفسیر حسن عسکری)
دوسری معیت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی غارِ ثور میں ہوئی۔جب مکان سے رات کے وقت حضور ۖنکل گئے توحضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیا اور غار میں تشریف لے گئے ۔گویا غار ثور میں چھپنا اس وجہ سے تھا کہ کہیں کافروں کو اس کی اطلاع نہ ہوجائے اور وہ حضورۖ کا راستہ روکنے کی پوری سعی کر لیں اور اس معاملہ میں ان کو پوری ناکامی ہو،تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ رسول اللہ ۖ بغیر علم و اطلاع کے چلے گئے اگر ہم کو ان کا روانہ ہونا معلوم ہوتا تو راستہ روک لیتے اور مدینہ ہر گز نہ جانے دیتے اور یہ بھی وجہ تھی کہ کفارِ قریش وغیرہم کو یہ بھی نظارہ دکھانا تھا کہ آج گو بظاہر رسول ۖامی لقب تمہارے سامنے روپوش ہوگئے اور غار میں جاکر سکونت اختیار کی ہے اور تم اسے رسو لۖ کی کمزوری سمجھ رہے ہو اور اپنی فتح و کامرانی مگر ایسا نہیں ۔اس روپوشی میں بھی رسول اللہ ۖ کا ہی حصہ فتح و کامرانی ہے تمہارا نہیں ۔جو آج تم سے روپوش ہو رہا ہے اور تم اس کے درپے اور خون کے خواہاں اور قتل کے جویاں ہو یہی کل جب دس ہزار قدسیوں کے لشکر صاحب فتح و ظفر کو لے کر تمہارے پاس مکہ آئے گا تو اسی کی زبان وحی ترجمان رحمت نشان سے یہ الفاظ نکلیں گے:”جائو تم سب آزاد ہو۔”یہاں غار میں بھی رسول اللہ ۖ کے ہمراہ صرف حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ تھے کوئی اور نہ تھا ۔ ابو سعید اور ابن عباس رضی اللہ عنہم دونوں بزرگوں سے مروی ہے :کان ابو بکر مع النبی ۖ فی الغار۔”ابو بکر رسول اللہ ۖ کے ہمراہ غار میں تھے۔”(بخاری شریف)
قرآن مجید فرماتا ہے:ثانی اثنین اذھما فی الغار اذیقول لصاحبہ لا تحزن ان اللّٰہ معنا۔دوسرا دو کا جب کہ وہ غار میںتھے اپنے ساتھی سے کہتا ہے غم نہ کرو۔اللہ ہمارے ساتھ ہے۔”تمام مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی:اجمع المسلمون ان الصاحب المذکور ابو بکر۔(تاریخ الخلفاء صفحہ 37)
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:”میں نے نبی ۖ سے عرض کی اور ہم غار میں تھے اگر کوئی اپنے پیروں کے نیچے دیکھے تو ہم کو دیکھ لے گا۔تو فرمایا تمہارا ان دو کے بارے میں کیا گمان ہے جس کا اللہ ثالث ہے ۔”اسی طرح غار میں تین دن تک حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کو معیت رسالت اور ہمراہی نبوت حاصل رہی اور یار غار سے جو راز و نیاز ان دنوں میں ہوا۔وہ اللہ ہی جانتا ہے کہ کیا تھا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی اس کی تمنا تھی کہ وہ اس فضیلت کو پا سکتے جو معیت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوئی۔”پھر جب سفر شروع ہوا تو بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ معیت رسول ۖمیں رہے ۔ ہاں اس وقت آپ کے ہمراہ دو افراد اور بھی تھے ۔ایک عبد اللہ بن اریقط جو دلیلِ راہ اور رہنما تھے اور دوسرا عامر بن فہیرہ جوحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے غلام تھے۔رسول اللہ ۖاورحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک اونٹ پر تھے اور راستہ میں رسول اللہ ۖ قرآن مجید تلاوت کر رہے تھے اورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عامر ادھر اُدھر نگرانی کر رہے تھے ۔سراقہ ابن مالک نے گھوڑے پر سوار ہو کر تعاقب کیا جب گھوڑا اتنے قریب آگیا کہ سرکار دو عالم ۖ کی قرأ ت سراقہ سن رہا تھا تو ابو بکر نے گھبرا کر عرض کی کہ :ادرکنا یا رسول اللّٰہ ،ھذا الطلب قد لحقنا رسول اللّٰہ ،فقال لا تحزن ان اللّٰہ معنا۔”آپ جانتے ہیں اے اللہ کے رسولۖ ۔یہ طلب کرنے والا ہمارے قریب آگیا یا رسول اللہ ! فرمایا: غم نہ کرو! اللہ ہمارے ساتھ ہے۔””آخر حضور پر نور ۖنے زمین کو حکم دیا اس نے سراقہ کے گھوڑے کے پیر کو پکڑ لیا اور گھوڑا زمین میں دھنس گیا۔سراقہ نے امان طلب کی۔امان کی تحریر عامر بن فہیرہ نے لکھ کر دے دی۔سراقہ واپس چلا گیا اور راستہ میں جو ملتا اسے بھی واپس کر دیتا۔”(بخاری شریف)
اسی سفر میں راستہ میں حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ بھی مل گئے انہوں نے رسول اللہ ۖ اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سفید کپڑے پہنائے۔(بخاری شریف)
زبیر شام سے تجارت کر کے واپس آرہے تھے ۔اور مدینہ والے منتظر تھے روزانہ دو پہر تک راہ تک کر واپس چلے آتے تھے ۔دو شنبہ کے دن 12ربیع الاول کو بھی حسب معمول انتظار کر کے واپس جا چکے تھے تو ایک یہودی نے جو کھجور پر چڑھا ہوا تھا ۔رسول اللہ ۖ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دیکھا اور آوازدی:یا معشر العرب ھٰذا جدکم۔”اے عرب والو! نصیبہ چمک اُٹھا۔”(بخاری شریف)
اللہ اکبر! یہودی کو کیا معلوم تھا کہ واقعی جو بات اس کی زبان نے کہی ہے وہی ہے جو کتب سابقہ میں مکتوب تھی ۔واقعی عرب کی خوش نصیبی کا مرانی،فتح و نصرت ،علم و ادب، شعر و فلسفہ ،تہذیب و تمدن ،ہیأت و ریاضی، حساب و جغرافیہ ،جبر و مقابلہ ،ہر چیز کا دارو مدار صرف ذات رسول کریم ۖ اور ابو بکر صدیق تھی۔ھٰذا جدکم۔
قدرت کا حکم یہودی کی زبان سے جاری ہو رہا ہے ۔تاکہ آنے والی نسلیں اور پیچھے والے لوگ یہ جان لیں کہ حق کا کس طرح بول بالا ہوا کرتا ہے۔غرض کہ ہر مشہد اور ہر مقام پرحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی معیت کا پورا پورا ثبوت ملتا ہے ۔یوم بدر میں عریش کے اندر صرف سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ تھے اور کوئی نہ تھا۔یوم احد میں رسول اللہ ۖ کے خاص جانثاروں میں سے آپ بھی تھے ۔”غزوہ احزاب ،بیعة الرضوان، غزوہ حنین ،غزوۂ تبوک،وغیرہا مغازی میں رسول اللہ ۖ پر جان و مال فدا کرنے کے لئے سب سے مقدم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ۔زندگی بھر نبی اکرم ۖ کی رفاقت اور معیت سے لطف اندوز ہونے کے بعد جب انتقال کا وقت آتا ہے ،اس عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف رب العزت کے قرب خاص اور رفیق اعلیٰ میں ملنے کا وقت آتا ہے تو اس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر سانپ کے زہر کا اثر ظاہر ہوتا ہے ۔جس طرح نبی کریم ۖ کی وفات کے وقت بکری کے گوشت میں جو خیبر میں زہر دیا گیا تھا اس کا اثر ظاہر ہوا،اسی طرح اس معاملہ میں بھی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے معیت جناب رسول اللہۖ کا دامن نہیں چھوڑا ۔وفات کے وقت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو نزدیک بلاتے ہیں اور دریافت فرماتے ہیں :”کتنے کپڑوں میں رسول اللہۖ کو تم لوگوں نے کفنایا؟ کہا:تین سفید سحولی(یمنی علاقے کی طرف منسوب ہے)کپڑوں میں جن میں قمیص اور عمامہ نہیں تھا۔فرمایا:کس دن رسول اللہ ۖ نے وفات پائی کہا پیر کے دن۔ فرمایا آج کون سا دن ہے؟کہا پیر کا ۔فرمایا:اس وقت سے رات تک میںجانے کی امید رکھتا ہوں۔”(بخاری شریف)
چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا فرمان مبارک کہ میں رات تک انتقال کر جائوں گا۔صحیح نکلا اور اسی رات کو ان کا انتقال پر ملال اور رات ہی میں دفن ہوئے۔7جمادی الاخریٰ کو دن میں غسل کیا اور پندرہ دن بیمار رہے اور 22جمادی الاخریٰ کو شب میں آپ کی وفات مبارک پیر کا دن گزر کر ہوئی ہے ۔یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ دو شنبہ کو انتقال کرنے کی تمنا کی۔اسی متبرک اقتداء کو ملحوظ رکھتے ہوئے امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے ایک باب بخاری شریف میں ذکر کیا ہے ۔”باب الموت یوم الاثنین””پیر کے دن انتقال کرنے کا باب”اور یہ ظاہر ہے کہ مرنا انسان کے اختیار میں نہیں پھر اسباب باندھنے کا کیا مطلب؟ تو امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے یہ اشارہ کیا ہے کہ گو مرنا اختیاری نہیں مگر تمنا اور امید تو اختیاری ہے اور اس پر ثواب ملنے کی امید ہے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسی بنا پر اس دن کی تمنا ظاہر کی۔پھر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت جو حدیث میں آیا یہ ہے:یعنی”منگل کی رات میں انتقال فرمایا”(بخاری شریف)
یہاں ایک چیز قابل غور ہے کہ رسول اللہ ۖ کی وفات مبارک کا وقت دن میں صبح کو تھا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت رات میں تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر زمانہ کفر گزرا تھا اور رسول اللہ ۖ پر کفر و شرک سے ملوث محال ہے اس لئے اس وقت میں وفات بھی اللہ تعالیٰ نے پسند نہ فرمائی، جس کو عربی میں کفر سے تعبیر کرتے ہوں اس لئے کہ عرب رات کو کافر کہتے ہیں ۔پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کی شان رفیع میں ارشاد فرمایا ہے :والضحیٰ ۔”قسم ہے چاشت کی۔”گویا آیت کریمہ میں وفات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور جس رات میں مناقب ابو بکر رضی اللہ عنہ بیان کئے گئے ہیں ،فرمایا جاتا ہے :والیل اذا یغشیٰ۔”قسم ہے رات کی جب کہ ڈھانپ لے” تو یہاں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات مبارک رات کے وقت ہو گی اور اس طرح :والضحیٰ والیل اذا سجیٰ ۔اور واللیل اذا یغشیٰ والنھار اذا تجلیٰ۔کا مظہر رسول اللہ ۖ اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک ہی ساتھ رحلت فرماتے ہیں کہ ایک کے مبارک وقت ارتحال کے لئے دن اور دوسرے کے مبارک وقت وفات کے لئے رات منتخب ہوتی ہے ۔اب آخری مرحلہ حیات پیش آتا ہے جس کے بارے میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:”حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جب قبر پر کھڑے ہوئے روتے تھے یہاں تک کہ ریش مبارک اشکوں سے تر ہو جاتی۔تو ان سے کہا گیا کہ آپ جنت اور دوزخ کا تذکرہ کرتے تو اتنا نہیں روتے اور اس سے روتے ہیں تو جواب دیا کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا ہے کہ قبر آخرت کی پہلی منزل ہے تو اگر اس سے نجات پائی تو بعد والی منزل اس سے آسان ہے اور اگر اس سے نجات نہیں پائی تو بعد والی اس سے سخت ہے اور رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ میں نے جو ڈرائونا منظر دیکھا ہے قبر اس سے زیادہ خوفناک ہے۔”اس آخری منزل کے لئے جو جنت یا جہنم بن سکتی ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لئے وہ پاکیزہ جگہ اور وہ طیب و طاہر جو ارپسند فرمایا جہاں جنت ہی جنت ہے اور اس کے سوا کا امکان ہی نہیں ۔حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ یار غارر سول اللہۖ خاص پہلوئے دلدار میں آرام فرما ہیں اور آپ کا سر مبارک شانۂ جناب رسول اکرم ۖ کے محاذ و مقابل ہے ۔یہ قرب خاص رسول اللہ ۖ جو آپ کو حاصل ہوا ایسا قرب عظیم کسی دوسرے کو بعد وفات و قبل وفات نہ مل سکا اور اس طرح تا قیام قیامت ہر شخص کے سامنے والذین معہ۔کی تفسیر نمایا ںہو گی۔ کسی شخص نے حضرت زین العابدین ،سجاد بن حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا:ماکان منزل ابی بکر و عمر من رسول اللہ ۖ قال لمنزلتھما منہ الساعة۔”ابو بکر و عمر(رضی اللہ عنہما ) کی رسول اللہ ۖ کے پاس کیا قدرو منزلت تھی؟ فرمایا:جو منزلت ان کو آج حاصل ہے ،وہی تھی۔”
یونہی حضور پر نور ۖ نے 63سال کی عمر شریف میں وفات پائی اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی اتنی ہی عمر میں رحلت فرمائی۔اسی طرح حضر ت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ قیامت میں بھی نبی اکرم ۖ کے ہم رکاب و معیت میں ہونگے۔یہ رفاقت میدان محشر ،حوض کوثر ،میزان ،پل صراط، جنت الفردوس میں باقی رہے گی۔
سنن ابن ماجہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :خرج رسول اللّٰہ ۖ بین ابی بکر و عمر فقال ھٰکذا نبعث یوم القیامة۔یعنی رسول اللہ ۖ ابو بکر و عمر کے درمیان میں نکلے اور فرمایا کہ ایسے ہی قیامت میں اُٹھیں گے۔” یہ ہے وہ معیت رسول ۖ جو سوائے حضرت ابو بکر صدیق کے کسی کو میسر نہ آئی ۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اگر اسلام و بانیٔ اسلامۖکے لئے گرانقدر خدمات سر انجام دیں تو صلہ میں رسول کائنات ۖ نے اس نعمت عظمیٰ سے سرفراز فرمایا جس پر تا قیامت کائنات رشک کرتی رہے گی۔
مولیٰ تعالیٰ ہم کو ان کی برکتوں اور رحمتوں سے نوازے اور ان حضرات کی اقتداء اور پیروی کی نعمت سے سرفراز کرے۔