آپ کا وصال مبارک 3رمضان المبارک کو ہوا۔
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی ایم اے سجادہ نشین مرکز اویساں نارووال
نام و لقب اور سال پیدائش :آپ رضی اللہ عنہا کا نام ”فاطمہ ” اور لقب ” زہراء و بتول” ہے ۔سرکار دو عالم ۖ کی صاحبزادیوں میں سب سے چھوٹی لیکن سب سے زیادہ پیاری اور لاڈلی ہیں ۔آپ کی پیدائش کے سال میں اختلاف ہے ۔بعض لوگوں نے کہا کہ جب نبی کریم ۖ کی عمر شریف اکتالیس برس کی تھی ۔آپ پیدا ہوئیں اور کچھ لوگوں نے لکھا ہے کہ اعلان نبوت سے ایک سال قبل ان کی ولادت ہوئی اور علامہ ابن جوزی نے تحریر فرمایا کہ اعلان نبوت سے پانچ سال پہلے جبکہ خانۂ کعبہ کی تعمیر ہو رہی تھی آپ پیدا ہوئیں۔
آپ رضی اللّٰہ عنہا کا نکاح: مشہور روایت کے مطابق 18سال اور بعض روایتوں کے مطابق ساڑھے پندرہ سال کی عمر 2ھ میں ان کا نکاح شیر خدا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوا ۔
امام نسائی کی روایت ہے کہ پہلے حضرت ابو بکر صدیق اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت فاطمة الزہراء رضی اللہ عنہا سے نکاح کرنے کے بارے میں پیغام بھیجا مگر حضور ۖ نے منظور نہیں فرمایا ۔پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے پیام بھیجا تو حضور ۖ نے ان کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کر دیا ۔(مشکوٰة شریف 565)
مہر کہ جس پر عقداقدس ہوا چار سو مثقال چاندی تھی یعنی پورے ایک سو ساٹھ روپے ۔(فتاویٰ رضویہ جلد 5صفحہ325)
آپ رضی اللّٰہ عنہا کا جہیز:شہنشاہ کونین ۖ نے اپنی پیاری اور لاڈلی بیٹی کو جو جہیز دیاوہ بان کی ایک چار پائی تھی اور چمڑے کا ایک گدا جس میں روئی کی جگہ پر کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے اور ایک چھاگل ،ایک مشک دو چکیاں اور مٹی کے دو گھڑے ۔ (سیرة الصحابیات100)
ابتک حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور اکرم ۖ کے پاس رہتے تھے شادی کے بعد الگ گھر کی ضرورت ہوئی تو حضرت حارثہ بن نعمان انصاری رضی اللہ عنہ نے اپنا ایک مکان ان کو دیدیا۔
جب حضرت فاطمة الزہراء رضی اللہ عنہا اس نئے گھر میں گئیں تو حضور ۖ ان کے یہاں تشریف لے گئے ۔دروازہ پر کھڑے ہو کر اجازت طلب کی پھر اندر گئے ۔ایک برتن میں پانی منگوا کر دونوں ہاتھ اس میں ڈالے اور وہ پانی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سینہ اور بازو پر چھڑکا ۔پھر حضرت فاطمة الزہراء کو بلا کر ان پر بھی چھڑکا اور فرمایا کہ میرے خاندان میں جو شخص سب سے بہتر ہے میں نے اس کے ساتھ تمہارا نکاح کیا ہے ۔(زرقانی وغیرہ)
آپ کی گھر یلوزندگی:شہنشاہ دو عالم ۖ کی صاحبزادی ہونے کے باوجود حضرت فاطمة الزہراء رضی اللہ عنہا اپنے گھر کا کارو بار خود کرتی تھیں جھاڑ و اپنے ہاتھ سے دیتی تھیں ،خود کھانا پکاتی تھیں ۔بلکہ چکی بھی اپنے ہاتھ سے پیستی تھیں اور مشک میں پانی بھر کرلایا کرتی تھیں جس سے ہاتھ پر چھالے اور بدن پر گھٹے پڑگئے تھے ۔ایک بار مال غنیمت میں کچھ باندی و غلام آئے ہوئے تھے ۔ آپ نے ڈرتے ڈرتے حضور ۖ سے گھر یلو کاروبار کے لئے ایک لونڈی مانگی اور ہاتھ کے چھالے دکھائے تو حضور ۖنے فرمایا جان پدر! بدر کے یتیم بچے پہلے اس کے مستحق ہیں ۔(سیرت الصحابیات)
ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ نے غلام طلب کیا تو حضورۖنے فرمایا بخدا ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں تمہیں غلام عطا کردوں اور اہل صفہ بھوک کے سبب پیٹ پرپتھر باندھ رہے ہوں ۔(برکات آل رسول)
آپ کے فضائل :حضرت سیدہ فاطمة الزہراء رضی اللہ عنہا کے فضائل میں بے شمار حدیثیں وارد ہیں جن سے چند روایات ملاحظہ ہوں ۔
بخاری اور مسلم کی روایت ہے کہ سرکار اقدس ۖ نے فرمایا :فَاطِمَةُ بِضْعَةُ مِنِّیْ فَمَنْ اَغْضَبَھَا اَغْضَبَنِیْ وَفِیْ رِوَایَةِ یُرِیْبُنِیْ مَا اَرَابَھَا وَ یُوْذِیْنِیْ مَا اَذَاھَا ۔یعنی فاطمة الزہراء رضی اللہ عنہا میرے گوشت کا ایک ٹکڑا ہے ۔تو جس شخص نے اسے غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا اور ایک روایت میں ہے کہ ناراض کرتی ہے مجھ کو وہ چیز جو فاطمہ کو ناراض کرتی ہے اور اذیت دیتی ہے مجھ کو وہ چیز جو فاطمہ کو اذیت دیتی ہے ۔” (مشکوٰة شریف صفحہ568)
لہٰذا جس نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دیا اور جن لوگوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو کربلا کے ریگستان میں شہید کیا ۔ا ن لوگوں نے بیشک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اور حضورۖ کو اذیت دی اور حضورۖ کو اذیت دینا اللہ کو اذیت دینا ہے اور اللہ و رسول کو اذیت دینے والے پر دنیا و آخرت میں اللہ کی لعنت ہے ۔
ارشاد خداوندی ہے ۔اِنَّ الَّذِیْنَ یُوْذُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَاَعَدَّلَھُمْ عَذَابًا مُھِیْنًا ۔ ”بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں دنیا و آخرت میں ان لوگوں پر اللہ کی لعنت ہے اور ان کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔”(پارہ 22رکوع4)
نبی اکرم ۖ ارشاد فرماتے ہیں ۔فَاطِمَةُ سَیِّدَةُ نِسَائِ اَہْلِ الْجَنَّةِ۔”حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا جنتی عورتوں کی سردار ہیں ۔” (بخاری شریف 532)
اور ابن عبد البر روایت کرتے ہیںکہ رسول کریمۖنے حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ ”اے بیٹی! کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم سارے جہان کی عورتوں کی سردار ہو؟ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ابا جان! پھر حضرت مریم سلام اللہ علیہاکا کیا مقام ہے۔حضور ۖ نے فرمایا وہ اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں ۔”
علامہ نبہانی رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ بہت سے محققین جن میں علامہ تقی الدین سبکی ،علامہ جلال الدین سیوطی ،علامہ بدر الدین اور علامہ تقی الدین مقریزی شامل ہیں ۔تصریح فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جہان کی تمام عورتوں سے یہانتک کہ حضرت مریم سلام اللہ علیہاسے بھی افضل ہیں ۔
اور علامہ ابن ابو دائود سے جب اس کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ حضور ۖ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکو اپنے جسم کا ٹکڑا فرمایا ہے تو میں کسی کو حضور ۖکے پارۂ جسم کے برابر نہیں قرار دے سکتا ۔(برکات آل رسول صفحہ122)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے عرض کیا یا رسول اللہ ۖ !اَیْنَا اَحَبُّ اِلَیْکَ اَنَا اَمْ فَاطِمَةُ؟”ہم میں سے آپ کو زیادہ محبوب ہے ۔میں یا فاطمہ؟ حضور اکرم ۖ نے فرمایا :فَاطِمَةُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْکَ وَاَنْتَ اَعَزُّ عَلَیَّ مِنْھَا ۔فاطمہ مجھے تم سے زیادہ محبوب ہے اور تم میرے نزدیک ان سے زیادہ عزت والے ہو ۔”(الشرف المؤبد53)
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قیامت کے دن ایک ندا کرنے والا باطن عرش سے ندا کرے گا ۔یَا اَھْلَ الْجَمْعِ نَکِسُّوْا رَؤُسَکُمْ وَغُضُّوْا اَبْصَارَکُمْ حَتّٰی تَمُرَّ فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ عَلَی الصِّرَاطِ۔”یعنی اے محشر والو !اپنے سروں کو جھکالو ۔اور اپنی آنکھوں کو بند کر لو تاکہ فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا ستر ہزار حوروں کے جھرمٹ میں بجلی کو ندنے کی طرح پل صراط سے گذر جائیں گی ۔(صواعق محرقہ 116)
امام نسائی فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا : ” فاطمہ انسانی حور ہے جسے کبھی حیض نہیں آیا”(الشرف المؤبد صفحہ54)
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خصوصیت یہ ہے کہ انہیں کبھی حیض نہیں آتا تھا ۔جب انکے یہاں بچہ پیدا ہوتا تو ایک گھڑی کے بعد نفاس سے پاک ہوجاتیں یہانتک کہ ان کی نماز قضا نہ ہوتی۔اسی لئے ان کا نام زہراء رکھا گیا اور جب انہیں بھوک محسوس ہوئی تو نبی اکرم ۖ نے انکے سینے پر دست مبارک رکھا تو اس کے بعدانہیں بھوک کبھی محسوس نہیں ہوئی ۔جب ان کے وصال کا وقت قریب آیا تو انہوں نے خود غسل کیا اور وصیت کی کہ کوئی انہیں منکشف نہ کرے۔چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں اسی غسل کے ساتھ دفن کر دیا ۔(برکات آل رسول 123)
آپ کی وفات: سرکار اقدس ۖ کے وصال فرمانے کا آپکو ایسا سخت صدمہ ہوا کہ اس واقعہ کے بعد کبھی آ پ ہنستی ہوئی نہیں دیکھی گئیں یہانتک کہ چھ ماہ بعد 3رمضان المبارک 11ھ منگل کی رات میں آپ نے وفات پائی اس طرح اللہ کے محبوب دانائے خفایا وغیوب ۖ کی پیشین گوئی پوری ہوئی کہ میرے خاندان میں سب سے پہلے تم ہی آکر مجھ سے ملو گی ۔
حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تجہیز و تکفین میں ایک خاص قسم کی جدت کی گئی اس لئے کہ اس زمانہ میں رواج یہ تھا کہ مردوں کی طرح عورتوں کا جنازہ بھی بے پردہ نکالا جاتا تھا مگر حضرت سیدہ کے مزاج اقدس میں چونکہ انتہائی شرم و حیا تھی اس لئے انہوں نے قبل وفات حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیوی حضرت اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ کھلے ہوئے جنازہ میں عورتوں کی بے پردگی ہوتی ہے جسے میں ناپسند کرتی ہوں تو انہوں نے حضرت سیدہ کے لئے لکڑیوں کا ایک گہوارہ بنایا جسے دیکھ کر آپ بہت خوش ہوگئیں ۔عورتوں کے جنازہ پر آجکل جو پردہ لگانے کا دستور ہے اس کی ابتدا آپ ہی سے ہوئی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ یا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور صحیح و مختار قول یہی ہے کہ آپ جنت البقیع میں مدفون ہوئیں ۔(مدارج النبوة وغیرہ)
شائع فرما کر شکریہ کا موقع دیں
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی (ایم اے)
سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال پنجاب پاکستان
E mail ….peerowaisi@gmail.com……..peerowaisi@yahoo.com
Cell No…0300-6491308……….0333-6491308