حضور غو ث اعظم رحمة اللہ علیہ کے علمی و تبلیغی کارنامے
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی (ایم اے) سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال چوتھی پانچویں صدی ہجری کا زمانہ اسلامی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔یہ وہ زمانہ ہے ۔جسے مسلمانوں کے انتہائی عروج ،خوشحالی اور سیاسی اقتدار و غلبے کا زمانہ کہنا چاہیے۔اس وقت جہانگیر ی جہانبانی ،فارغ البالی اور منفرد تہذیب وتمد ن کے اعتبار سے کرئہ ارض کی کوئی قوم مسلمانوں کی ہمسر نہ تھی ۔اقصائے عالم میں ان کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا۔بغداد ،عالم اسلام کا مرکز اعصاب اور علوم فنون کے اعتبار سے دنیا کے لئے پر کشش حیثیت اختیار کر چکا تھا۔جہاں مسلمان قوم ان بلندیوں کوچھو رہی تھی وہاں بیرونی نظریات وخیالات کی یلغار اس کے یقین واعتمادکی دیواریں بھی تیزی کے ساتھ کھوکھلی کر رہی تھی ۔یونانی علوم کی آمد فلسفیانہ موشگافیوں کی بھر مار اور اخوان الصفا کے پیدا کردہ شکوک وشبہات نے ثبات واستقلال کی دنیا میں ہلچل ڈال دی تھی ۔ضرروت تھی کہ قدرت اپنی فیاضی سے کوئی ایسی شخصیت پیدا کرے ۔جو اپنے قدوقامت میں صدیوں پر بھاری ہو اور جو اپنے ایمانی جذبے اور غیر معمولی صلاحیت سے اس دھارے کا رخ بد ل ڈالے ۔چنانچہ شیخ الاسلام والمسلمین ،حجةاللہ علی العالمین ،قطب الاقطاب ،رائس الاغیاث سیدنا محی الدین ابو محمد عبدالقادرالحسنی الحسینی الجیلانی ،470ھ میں طبرستان کے قصبے جیلان میں پیدا ہوئے۔ پدری سلسلہء نسب اس طرح ہے۔ سےّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی بن سےّد ابی صالح موسیٰ جنگی دوست بن سےّد ابی عبداللہ بن سےّد یحییٰ الزاہد بن سےّدمحمد بن سےّد دائود بن سےّد موسیٰ سےّد عبداللہ بن سےّد موسیٰ الجون بن سید عبداللہ المحض بن سےّد حسن المثنیٰ بن امیر المئومنین ابو محمد حسن بن امیر المئومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ ، رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔مادری سلسلہ نسب :۔حضرت غوث الثقلین عبد القادر جیلانی بن ام الخیر الجبار فاطمہ بنت سےّد عبداللہ الصومعی الزاہد بن سےّد ابو جمال بن سےّد محمد بن سےّد محمودبن سےّد طاہر بن ابی العطابن سید عبداللہ بن کمال الدین بن سےّدعیسیٰ بن سےّدسیدانی علائوالدین بن سےّد محمد بن سےّد علی لعریضی بن سید جعفر صادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن امام حسین بن اسداللہ الغالب علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ ۔رضی اللہ علیھم اجمعین۔ بچپن ہی میں سایہ پدری سر سے اٹھ گیا۔ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی ۔مزید تعلیم کے لئے 488ھ میں بغداد پہنچے جو اس وقت علم وفضل کاگہوارہ،علماء مشائخ کامسکن اور علمی وسیاسی اعتبارسے مسلمانوں کا دارالسلطنت تھا۔ یہاں آپ نے اپنے زمانہ کے معروف اساتذہ اور آئمہ فن سے اکتساب فیض کیا۔ آپ کے اساتذہ میں ابوالوفا علی بن عقیل حنبلی ،ابوز کریا یحییٰ بن عبدا لکریم نہایت نامور اور معروف بزرگ ہیں۔کہا جاتا ہے کہ بغداد کی مشہور یونیورسٹی نظامیہ میں بھی زیر تعلیم رہے۔روحانی علوم اور تزکیہ نفس کی خاطر آپ نے شروع میں حضر ت ابو الخیر حماد بن مسلم الدبلس سے اپنا رابطہ قائم کیا۔ جو اپنے زمانے کے مشہور شیخ طریقت اور روحانی بزرگ تھے ۔لیکن روحانی مقامات اور منازل کی تکمیل آپ نے حضرت شیخ ابو سعید مبارک ا لمخرمی کے ہاتھوں سے کی ۔آپ نے حضرت شیخ مخرمی سے بیعت کر کے خرقہ خلافت حاصل کیا ۔ شیخ ابو سعید فرماتے ہیں:۔شیخ عبدالقادر جیلانی نے مجھ سے خرقہ خلافت حاصل کیا اور میں نے ان سے اور یہ ہم سے خیروبرکت کی خاطر کیا۔آپ کا شجرہ طریقت اس طرح ہے:۔حضرت سےّد عبدالقادر جیلانی نے شیخ ابو سعید مبارک المخرمی سے، انہوں نے شیخ ابو الحسن علی بن محمد قریشی سے، انہوں نے شیخ ابو الفرح طرطوسی سے، انہوں نے شیخ ابو الفضل عبدلواحد جنیدبغدادی سے ، انہوں نے شیخ سری سقطی سے ،انہوں نے معروف کرخی سے ،انہوں نے امام سید علی سے ،انہوں نے سید موسیٰ کاظم سے، انہوں نے امام سید علی رضا سے، انہوں نے سید امام محمد باقر سے انہوں نے امام سید زین العابدین سے، انہوں نے امام سید نا حسین سے، انہوں نے سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ ورضوان اللہ علیہم اجمعین سے خرقہ، خلافت حاصل کیا۔ تعلیم اور تربیت کے دوران آپ ملت اسلامیہ کے سیاسی ،اخلاقی اور دینی حالات کا بغورجائزہ لیتے رہے۔اس دوران آپ نے یہ طے کیا کہ کسی بڑے اہم اور دوررس انقلابی اقدام کے بغیر اصلاح ناممکن ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنے مشن کی کامیابی کے لئے مرکز یعنی بغداد میں رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ظاہر ہے کہ اس وقت نہ صرف دنیائے اسلام بلکہ پوری دنیا پر بغداد کے سیاسی ،اخلاقی اور تہذیبی اثرات براہ راست پڑ رہے تھے۔ اس اعتبار سے منبع اور مرکز میں خوشگوار تبدیلی کے جو اثرات پوری دنیا بالخصوص دنیائے اسلام میں رونما ہو سکتے تھے وہ محتاج بیاں نہیں۔اس لحاظ سے آپ کا یہ فیصلہ انتہائی اہم اور تاریخی تھا۔چنانچہ آپ نے نباض ملت اور حکیم امت کی حیثیت سے باقاعدہ اپنے پروگرام کا آغاز کر دیا ۔ آپ نے اپنے شیخ حضرت ابو سعید مبارک المخرمی کے مدرسہ لطیفیہ واقع باب الازج کو اپنا مرکز بنایا۔ تعلیم وتدریس ،وعظ ونصیحت ،خصوصی مجالس ومحافل ،فتویٰ نویسی ،تصنیف وتالیف اور تزکیہ نفس کے لئے باقاعدہ خانقاہ کا قیام۔ یہ سارے کام بیک وقت شروع ہو گئے۔آپ تیرہ مختلف علوم میں درس پڑھایا کرتے تھے۔دن کے ایک حصے میں تفسیر القرآن، حدیث عقائد ،اختلاف آئمہ اُصول اور نحو وغیرہ کی تعلیم دیتے تھے اور ظہر کے بعد تجوید کی تعلیم ہوتی ، اسی دوران فتویٰ نویسی بھی جاری رہتی ۔آپ شافعی اور حنبلی مسلک پر فتویٰ دیتے تھے۔ آپ کے فرزندِگرامی شیخ سیف الدین عبدلوہاب رحمةاللہ علیہ کا بیان ہے کہ میرے والد گرامی نے چالیس سال منبر پر وعظ ونصیحت اور حقائق ومعارف کا درس دیاہے۔یہ زمانہ521ھ سے 561ھ تک کا ہے اور 33سال آپ نے درس وتدریس اور فتویٰ نویسی میں صرف کئے ۔یہ زمانہ 528ھ سے561ھ تک کا ہے۔پہلے آپ نے 16شوال 521ھ میں منبر پر بیٹھ کر وعظ کہا ۔آپ کا بیان ہے کہ16شوال 521ھ میں ظہر سے تھوڑی دیر پہلے میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی۔ آپ نے فرمایا۔ وعظ کیا کرو۔ میں نے عرض کی! حضور میں ایک عجمی آدمی ہوں ،بغداد کے فصحاء کے سامنے کس طرح زبان کھولوں ؟ آپ نے فرمایا اپنا منہ کھولو!میں نے اپنا منہ کھولا ، تو آنحضرت ۖ نے سات بار اپنا لعاب دہن ڈالا اور فرمایاجائو لوگوں سے خطاب کرو۔میں نے بیدار ہو کر ظہر کی نماز پڑھی اور بیٹھ گیا۔ اتنے میں میرے ارد گرد کافی لوگ جمع ہو گئے۔ مگر میں بولنے پر اب بھی قادر نہ تھا۔ اس اثناء میں میں نے دیکھا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ میرے سامنے مجلس میں کھڑے ہیں اور فرماتے ہیں۔ بیٹے تو خطاب کیوں نہیں کرتا ؟میں نے عرض کی۔حضور میری زبان نہیں کھلتی ۔فرمایا منہ کھولوجس وقت میں نے منہ کھولاآپ نے چھ بار اپنا لعاب دہن اس میں ڈالا ۔میں نے عرض کی کہ آپ نے سات دفعہ لعاب دہن کیوںنہیں ڈالا ؟ ارشاد فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب کا تقاضا یہی تھا۔ تصنیف وتالیف ، خصوصی مجلس ومحافل اور وعظ وتقاریر سے سو سائٹی کے مخصوص طبقے اصلاح پذیر ہوتے رہے ہیںاور یہ تعداد مصلح اور داعی کی شخصیت کے مطابق ہر دور میں گھٹتی بڑھتی رہی ہے۔ بلکہ یہی کیفیت انبیاء کرام کی تاریخ میں بھی نظر آتی ہے۔ ایسے نفوس قدسیہ بہت تھوڑے ہیں جنہوں نے اپنی غیر معمولی صلاحیت ، عبقری دماغ اور اللہ کے خصوصی فضل و احسان سے معاشرے اور سوسائٹی کے ہر طبقے وخیال میں اصلاح کی ہے۔یہی وہ حضرات ہیں جنہوں نے وقت اور حالات کی رفتار اور اس کے رخ بدلے ہیں۔ اگر قدرت اپنی فیاضی سے وقتاً فوقتاً ایسے لوگ نہ بیجتی تو انسانیت کی بغیر بریکوں والی یہ طاقتور گاڑی کسی ہمالیہ سے ٹکرا کر کب کی پاش پاش ہو چکی ہوتی ۔ تاریخی ادوار میں جب کبھی ایسی شخصیتوں کے ظہور میں تاخیر ہوئی تو بڑی بڑی قوموں اور تہذیبوں نے خود اپنے ہاتھ سے خود کشی کر لی۔ اگر اس تمثیل میں سو ادبی کا پہلونہ نکلتا ہو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ صلاح وفلاح امم کی دعوت میں انبیاء کرام کی مقدس جماعت میں جو مقبولیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہو ئی ہے،اصلاح اخلاق واعمال کے ضمن میں آپ کے صدقے اور برکت سے پانچ سو سال بعد اولیائے کرام میں یہی شرف آپ کی نسل میں سے ایک شخصیت کو حاصل ہوا ہے۔چھٹی صدی ہجری کے آغاز میں ارشاد وتلقین اور اصلاح احوال کا جو ہنگامہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے بر پا کیا بعد میں ہمیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ امام غزالی نے تصوف کو ایک فن کا درجہ دیا تو حضرت غوث الثقلین شیخ عبد القادرجیلانی نے عملی طور پر اس میں جان ڈال دی۔آپ کے وعظ انتہائی پر تاثیر ہوتے تھے۔ آپ نے جس وقت وعظ کی یہ محفلیں شروع کیں تو لوگ ان پر ٹوٹ پڑے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ لوگ اس زندگی بخش اوریقین وایمان بخشنے والی آواز کو سننے کیلئے بیتاب تھے،تھوڑے ہی دنوں میںمدرسہ کی جگہ نا کافی معلوم ہونے لگی تو صاحب ثروت لوگوں نے آس پاس کی عمارتیں خرید کر مدرسہ اور خانقاہ کی تعمیر کیلئے وقف کیں اور غریب لوگوں نے تعمیر کیلئے مزدورومعمار کا کام سرانجام دیا۔بغداد اور گردونواح توتھے ہی مگر دور درازسے لوگ گھوڑوں خچروں اور گدھوں پر سوار ہو کر ان مجالس میں شامل ہوتے اور حلقہ بنا کر بیٹھتے۔ (قلائد الجواہر :صفحہ 5,4)مجالس وعظ:حضرت سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھلے عام وعظ نصیحت کا طریقہ اخیتار کر کے لوگوں کے اعتقاد عمل میں جو انقلاب برپا کیا ،صوفیاء کے تمام سلاسل میں پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔آپ کے وعظ کے بنیادی مضامین تو حید ،انسانی تخلیق کی غرض وغایت ، خوف خدا عبادت وعمل پر ابھارنے کا جذبہ ، شفقت ، محبت اپنے تمام احوال وافعال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور اتباع ،تعلق خد ا وندی اور حقائق ومعارف کے بیان پر مبنی ہوتے۔ شیخ عبد الحق محدثِ دہلوی فرماتے ہیں:۔حاضرین کی تعداد بعض اوقات ستر ستر ہزار تک پہنچ جاتی تھی۔اتنے بڑے اجتماع میں سکون اور وقار کا جو نقشہ آپ کے سوانح نگار کھینچتے ہیں اسے پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ سارے لوگ ہمہ تن متوجہ اور دم بخود ہوتے ۔ اکثر روتے روتے بے ہوش ہو جاتے ۔آپ کی محفل بزرگانہ جاہ و جلال اور تمکنت کا مرقع ہوتی۔نہ کوئی آدمی کسی سے سر گوشی کرتا،نہ کوئی تھوکنے کیلئے اٹھتا ،نہ کوئی کھانستا ،ایسا لگتا جیسے حاضرین کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ جن کے اڑنے کے خوف سے وہ یوں چپ سادہ کر بیٹھے ہیں۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں۔ جس وقت حضرت شیخ ،کرسی پر رونق افروز ہوتے اور مختلف علوم میں بیان شروع کرتے تو لوگ ہیبت وعظمت کی وجہ سے خاموش اور دم بسکوت ہوتے۔اچانک درمیان میں فرماتے” قال گذر گیا،اب ہم حال کی طرف آتے ہیں ۔بس یہ کہنے کی دیر ہوتی کہ لوگوں میں تڑپ وجداورہائوہوشروع ہو جاتی ۔کوئی روروکر فریاد کر رہا ہے تو کوئی کپڑے پھاڑ کر جنگل کی راہ لیتا ہے کوئی بیہوش ہو کر جان جان آفریں کے سپرد کر رہاہے۔ اکثر اوقات آپ کی مجلس وعظ سے جنازے اٹھتے تھے۔”آپ کا علمی مرتبہ” شیخ موفق الدین قدامہ فرماتے ہیں۔ہم بغداد میں 561ھ میں پہنچے اور حضرت شیخ عبدالقادر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپکو علم حال اور فتویٰ نویسی کی اقلیم کی حکمرانی حاصل تھی۔ آپکی ذات میں جو بے شمار علوم ودیعت کئے گئے تھے اور علم حاصل کرنے والوں پر آپ جو شفقت فرماتے تھے۔اسکی بناء پر کسی طالب علم کا آپکو چھوڑ کر دوسری طرف جانے کا سوال ہی پیدانہ ہو تا تھا۔ آپ تیرہ مختلف علوم میں درس پڑھایا کرتے تھے۔ ہر علم کی تعلیم کے لئے الگ الگ اوقات مقرر تھے۔آپ کے پاس عراق کے گوشے گوشے سے نہایت کثرت سے علمی استفتاء آتے جنہیں آپ پڑھ کر فوراً جواب لکھوانا شروع فرما دیتے۔علمی تجربہ اور خود اعتمادی کا یہ عالم تھا کہ مشکل سے مشکل مسئلے کے لئے بھی کتابوں کی طرف رجوع کرنے کی بہت کم ضرورت پیش آتی تھی۔علماء عراق عجلت میں اس قد رمد لل جوابات دیکھ کر دنگ رہ جاتے ۔ ایک دفعہ ایک سوال پیش ہوا۔ایک شخص نے قسم کھائی کہ اگر میں تنہاایسی عبادت نہ کروں جو روئے زمین پر اس وقت کوئی دوسرا شخص نہ کر رہا ہوتو میری بیوی کو تین طلاقیں ۔علماء کے پاس یہ فتویٰ آیا تو وہ حیران رہ گئے کہ ایسی کونسی عبادت ہو سکتی ہے ۔جس میں پوری روئے زمین میں اس کا کوئی شریک نہ ہو اور وہ تنہا عبادت میں مصروف ہو۔ بالآخریہ استفتاء حضرت شیخ کے پا س آیا ۔آپ نے فوراً اس پر لکھاکہ اس شخص کیلئے مطاف خالی کر دیا جائے اور وہ اکیلاسات مرتبہ طواف کرے۔علماء کرام نے یہ جواب سن کر تحسین وآفرین کی۔ اسی طرح آپ کے زمانے میںایک شخص نے دعویٰ کیا کہ میں نے ظاہری آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی زیارت کی ہے۔اسے آپ کے سامنے لایا گیا تو آپ نے اسے ڈانٹااورتوبہ کا حکم دیا۔چنانچہ اس نے توبہ کر لی۔اس کی بصیرت پر تجلی ربانی ہوئی اور بصیرت کا انعکاس بصرپر ہوا۔اس نے سمجھ لیا کہ شاید یہ روایت بصری ہے۔ حالانکہ بصیرت اور بصر میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی۔مَرَجَاالْبَحْرَےْنِ ےَلْتَقِےٰن بَےْنَھُماَ بَرْزَخُ الاَّ ےَبْغِےٰنْ۔ اس وقت کئی بزرگ اور علماء مجلس میں موجود تھے۔وہ اس جواب سے بہت مسرور ہوئے۔علمی اعتبار سے چونکہ آپکی کسی بات کو ”صوفی بے علم کی بات”کہہ کر رد نہیں کیا جاسکتاتھا۔اس وقت نئے نئے انحرافی اور اعتزالی فرقے سر اٹھا رہے تھے۔دوسری طرف دین میں قسم قسم کی بد عات رواج پا گئی تھیں۔آپکے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اہل سنت کی حمایت ونصرت کا عظیم الشان کا م لیا۔آپکے ذریعے مسلک حقہ کو نئی زندگی اور تروتازگی نصیب ہوئی۔آپ نے اپنا سارا اصلاحی پروگرام کتاب وسنت کی علمی بنیادوں پر اٹھایا۔یہاں ہر بات کو علم کی روشنی میں پر کھا اور تولا جا تا تھا۔ تصوف کو عجمی پودا قرار دینے والے سہل انگار محققین سے ہماری گذارش ہے کہ وہ حضرت سید نا شیخ عبد القادر جیلانی کے طریق اور آپکی زندگی کا مطالعہ کر کے ہمیں وہ معمولی سے معمولی چیز بتائیں جسے عجمی سازش کا اثر قرار دیا جا سکتا ہو۔”فتوح الغیب ،غنےة الطالبین اور الفتح الربانی” کا ایک ایک لفظ قرآن وسنت کے کڑے میعار پر پرکھیں۔غنےةالطالبین کا مطالعہ کرتے وقت ایک ایسے جید عالم دین ،نامور فقیہہ اور مئورّخ سے واسطہ پڑتا ہے ۔جو علم وفکر میں اجتہادی شان کا حامل ہے فتوح الغیب اور الفتح الربانی کی ایک ایک سطر خداشناسی ،خشیت الٰہی،حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی اور انسان کو انفرادی و اجتماعی طور پر زیادہ سے زیادہ مفید اور کار آمد بنانے کا وہ درس دیتی ہیں جس سے انسان سینکڑوں کتابوں،وعظوں،مجلسوںاور صحبتوں سے بے نیاز ہو سکتا ہے۔آپ علم وعرفان کی اُس بلندی پر فائز تھے جسے علم ومعرفت کی معراج کہنا چاہیے مگریہاں بھی آپ علم سے چراغ راہ کا کام لیتے رہے۔ اخلاق واوصاف:۔اس قدررفعت اور جلالت شان کے باوجود آپ حد درجہ متواضع اور منکسر المزاج تھے۔آپ کے معاصرین آپ کے ذاتی محاسن ، اخلاقی فضائل اور گوناگوں محامدومکارم کے بارے میں رطب اللسان ہیں۔شیخ ابو المظفر معمر جرادہ کا بیان ہے:۔ ”آپ سے زیادہ بلند اخلاق، فراخ حوصلہ ،کریم النفس ،نرم دل اور عہد دوستی نبھانے والا شخص میر ی نظر سے نہیں گزرا۔اس قدر جلالت شان، عظمت اور وسعت علم کے باوجود بچوں کے ساتھ ٹھہرجاتے۔بڑوں کی عزت کرتے، کمزوروں کے پاس اٹھتے اور غریبوں کے ساتھ تواضع اور انکساری سے پیش آتے۔آپ کبھی کسی وزیر یا بادشاہ کے دروازے پر نہیں گئے۔ (قلائد الجواہر: صفحہ9) آپ کی محفل میں بیٹھنے والا ہر شخص یہی سمجھتا تھاکہ زیادہ تعلق خاطر مجھ سے ہے دوستوں میں سے جو لوگ موجود نہ ہوتے ،ان کی خیرت دریافت فرماتے۔آداب تعلق کا خاص خیال فرماتے۔رفقاء اور متعلقین کی غلطیوں سے درگزر فرماتے۔اگر کوئی شخص کسی بات پر قسم کھا بیٹھتا تو اسے سچا سمجھ لیتے اور اس سلسلے میں اپنے ذاتی علم کا اظہار نہ فرماتے۔امام الحافظ ابو عبد اللہ محمد بن یوسف البری آپکی پروقار شخصیت کا مرقع ان الفاظ میں کھینچتے ہیں:آپ علماء فقراء اور عوام کا مرجع تھے اور اکابرین اسلام کے ایک رکن ،عوام وخواص سب نے آپ سے فیض حاصل کیا۔مستجاب الدعوات تھے۔ اگر کوئی خوف یا رفت کی بات کی جاتی تو فوراً آنکھوں میں آنسو آ جاتے ،ہمیشہ ذکرو فکر میں مشغول رہتے۔رقیق القلب خنداں رو، کریم النفس ،فراخ دست ،وسیع العلم ،پاکیزہ اخلاق اور عالی نسب تھے۔عبادات اور مجاہد ے میں آپ کا مقام بہت بلند تھا۔الغرض آپ کی زندگی مبارکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا کامل نمونہ تھی۔ زندگی کے ہر طبقہ خیال سے تعلق رکھنے والے لوگ دربار میں اپنے لئے کشش ،جاذبیت ،دلکشی اور رعنائی کانیا جہان پاتے۔اسلامی دنیا پر آپکے تبلیغی اثرات:یوں تو تمام مشائخ صوفیاء کتاب وسنت کی پیروی اور اتباع کا درس دے رہے تھے ۔ مگر حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمة اللہ علیہ نے بالکل منفرد انداز سے کتاب وسنت کی حاکمیت ،شریعت کی بالادستی اور تما م معاملات میں رضائے الہیٰ کے حصول کا نعرہ بلندکیا تھا۔ آپ نے فلسفیانہ مباحث ،منطقی طرز استدلال اور عقلی موشگافیوں کے برعکس قرآن کا سادہ ،فطری اور دلنشین طریقہ اختیار کیا۔یونانی علوم کی بھر مار کلامی بحثوں میں الجھے ہوئے معاشرے کیلئے یہ آواز پیغام ورحمت ثابت ہوئی۔یوں لگتا تھا جیسے لوگ اس دلکش اور زند گی بخش دعوت کیلئے بیقرار تھے۔ صوفیاء کی تزکیہ نفس او ر صفائے باطن کی تحریک بلا شبہ یہاں تک پہنچتے پہنچتے اس کے طورطریق اور انداز میں خاصی تبدیلیاں رونما ہو گئی تھیں۔بالخصوص ہندوستان ،عراق اور ایران میں ضرور تاً ،مصلحتاً یا پھر غیر شعوری طور پر یہ تحریک وہاں کے مخصوص سیاسی ،سماجی اور تہذیبی اثرات سے متاثر ہوئی تھی۔اندیشہ تھاکہ اگر یہ تحریک اسی طرح چلتی رہتی تو شاید بالکل ہی پٹڑی سے اتر جاتی ۔حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے حالات، گردوپیش ،مصالح اور ضرورت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انتہائی شدت اور سختی کے ساتھ دوبارہ قرار دینے کا بلند آہنگ نعرہ لگایا ۔یہی وہ بر زخ اور قدر مشترک ہے جس پر ملت اسلامیہ کے تمام طبقوں کو آسانی سے لایا جا سکتا تھا۔ چنانچہ عملاً یہی ہوا کہ ظاہر بین علماء ،متشددفقہاء اور صوفیاء ومشائخ میں جو خلیج اور دیوار بڑھ چلی تھی۔حضرت جیلانی اسے ختم کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اس طرح ملت اسلامیہ پھر سے ایک پلیٹ فارم اور نقطہ ء اتحاد پر جمع ہو گئی۔ آپکی آواز کوہر جماعت اور ہر طبقے نے اپنے دل کی آواز سمجھا۔اگر عجمی ممالک میں دوسرے سلاسل کے بعض بزرگوں نے بڑے فائدے کی خاطر چھوٹے نقصان کو گوارا کرنے کے اصول پر عمل کرتے ہوئے بعض غیر اولیٰ طریقوں کی اجازت دے دی تھی ۔ جو تبلیغ اسلام ایسے مہتمم بالشان مقصد کے مقابلے میں بہت معمولی اور حقیر بات تھی اور اس میں وہ حضرات پوری طرح مخلص اور حق بجانب تھے تو دوسری طرف حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلفاء ان ممالک کے چپے چپے میں پھیل گئے اور انہوں نے جگہ جگہ سلسلہ قادریہ کی خانقاہیں قائم کرکے کتاب وسنت ،اتباع شریعت ،ذکر وفکر اور باطن کے ساتھ ساتھ ظاہر کی پوری آراستگی کا وہ غلبہ بر پا کردیا جس نے دنیا کی توجہ اپنی طرف پھیر لی۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تصوف کی تحریک اتنی جامع ہے کہ ہر دور میں اس نے اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کی تلافی بھی خود ہی کی ہے اور یہ عمل ساتھ ساتھ جاری رہا ہے۔جناب پروفیسر خلیق احمد نظامی کا بیان ہے:۔ارشاد وتلقین کا جو ہنگامہ انہوں حضرت جیلانینے برپا کیا وہ اسلامی تصوف کی تاریخ میں اپنی مثال نہیں رکھتا۔ شیخ جیلانی کی تعلیم سے افغانستان اور اسکے قرب و جوار میں ایک زبردست دینی انقلاب آیا اور ہزاروں آدمیوں نے ان کے دستِ حق پر ست پر بیعت کی ۔ (تاریخ مشائخ چشت:صفحہ 108) آج بڑے تجدیدی انداز میںبعض حضرات یہ انکشاف کرتے ہیں کہ ہمارے نزدیک معیار صرف کتاب و سنت ہے۔اور تصوف کی قسمیں بیان کرنے لگتے ہیںکہ ایک تصوف وہ ہے جو قرآن کا منشاء ہے۔ایک وہ ہے جو خانقاہوں میں رائج ہے۔یہ غلط بحث اور لوگوں کو دھوکا دینے والی بات ہے۔یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے ہم کہیںکہ اسلام کی قسم ہے۔ایک اسلام قرآن وحدیث میں ہے دوسر ا مسلمانوں کے عمل میں ۔ سو بندہ پرور ،نہ اسلام دو ہیں نہ تصوف اسلام سے الگ کوئی تحریک تصوف اسلام ہی کے عملی پہلو کا نام ہے۔جس طرح بے عمل مسلمانوں کی وجہ سے اسلام کو مطعون کرنا حماقت ہے۔اسی طرح تصوف کی بگڑی ہوئی اور غلط شکل کو حقیقی اسلامی تصوف جس کا مقصد توحید عبادات میں حسن اور دل کشی پید ا کرتا ہے کو بدنام کرنے کا ذریعہ آخر کیونکر بنایا جاسکتا ہے اگر صوفیاء کی جدوجہد مساعی اور حسن عمل کو ہم اسلام سے نکال دیں تو اسلام کے پا س بچتا کیا ہے؟ یہ درمیان میں جملہ معترضہ آ گیا ہم گذارش کر رہے تھے کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے تبلیغی اثرات پوری دنیا ئے اسلام پر پڑے۔آپ کے تجدیدی کارنامے اور اسلام کو اس کی اصل شکل میں پیش کرنے کی دعوت کو اللہ تعالیٰ نے ایسی قبولیت بخشی کہ دنیائے اسلام میں آپ شیخ الشیوخ اور پیر پیراں کے معزز القاب سے یادکئے گئے۔اپنے فرزند گرامی کو وصیت کرتے ہوئے آپ نے جو کچھ بیان فرما یا ہے۔آپ کے مسلک کو سمجھنے کیلئے ہمارے پاس اس سے بڑی شہادت اور کیا ہو سکتی ہے۔آپ نے فرمایا :” او صیک بتقوی اللہ وطاعتہ ولزوم ظاہر الشرع وسلامة الصدر وسخاء النفس وبشا شة الوجہ و بذل الندی وکف الاذی ،وحمل الاذی والفقر وحفظ حرمات المشائخ و حسن العشرة مع الا خران والنصیحة للاصاغر وترک الخصومة مع الافارق وملازمة الا یثار و مجانبة الا دخان۔” (فتوح الغیب ،مقالہ : صفحہ 75) میں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرو اور اس کی فرمانبرداری اختیار کرو ۔ظاہر شریعت کی پابندی کرو ۔سینہ کو پاک، نفس کو کشادہ اور چہرہ تروتازہ رکھو۔جو چیز عطا کرنے کے قابل ہو اسے عطا کرتے رہو۔ایذادہی سے باز رہو۔تکالیف پر صبر کرو، بزرگوں کی عزت واحترام کا خیال رکھو۔ برابر والوں کے ساتھ حسن سلوک اور کم عمر والوں کے ساتھ خیر خواہی کے جذبے سے پیش آئو۔احباب سے جھگڑا نہ کرو ۔قربانی وایثار کا جذبہ اپنائو۔مال و دولت کی ذخیرہ اندوزی سے بچو۔ فقر کی حقیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:” حقیقت الفقران لاتفطقر الی من ھو مثلک ” فقر کی حقیقت یہ ہے کہ اپنی ہی جیسی ہستی (یعنی مخلوق میں سے کسی )کا محتاج نہ رہ! فتوح الغیب اور الفتح الربانی کا ایک ایک لفظ کتاب وسنت پر عمل کی دعوت ہے۔ان کتابوں میں تعلق باللہ،رضائے الٰہی اور دنیا کی بے ثباتی کے مضامین کو اس خوبصورتی سے لایا گیا ہے جس سے انسان کے دل میں خود بخو د عمل کا جذبہ ابھرتا ہے۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تحریک کے اثرات کا جائزہ لینے کیلئے عملی و گمراہی کا پوری طرح جائزہ لینا پڑے گا اور اس تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔آپکی سیرت پر بے شمار کتابیں تحریر ہوئیں اور بڑے بڑے علماء و مشائخ نے آپکو خراج تحسین عقیدت پیش کیا۔ 11ربیع الثانی کو ہر سال عالمِ اسلام میں آپ کا عظیم الشان عرس مبارک بڑی گیارھویں شریف کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔
شائع فرما کر شکریہ کا موقع دیں ای میل سے بھی وصول فرما لیں
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی(ایم اے) سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال پنجاب پاکستان E.Mail peerowaisi@yahoo.com 0300-6491308/0333-6491308