غزل
(سید اقبال رضوی شارب )
حقیقت کم اداکاری بہت ہے
یہاں ہر لمحہ مکّاری بہت ہے
سنہرے خواب اسنے سب کو بیچے
وہ لیڈر کم ویا پاری بہت ہے
فصل نفرت کی پھر کاٹے گا شاید
فضاؤں میں ستمکاری بہت ہے
کوئی گوشہ نہیں خوش حال سچ ہے
کہ شرق و غرب سسکاری بہت ہے
ہوا مخدوش جھوٹوں کا نشیمن
کہ لوٹی پھر سے بیداری بہت ہے
یقیناً ایک ہو جایئں گے ہم پھر
بچی ہم میں رواداری بہت ہے
خرد سے کام لیں ہم گر تو شارب
یہ بادِ نو کی کلکاری بہت ہے