سید محسن نقوی
۱۷۲۲ء میں اودھ میں نوابین کی حکومت قائم ہوئی۔ یہ حکومت مغلیہ سلطنت کے زیر سایہ قائم ہوئی تھی اور اسکت پہلے فرمانروا دربار دہلی کےایک ایرانی امیر سعادت خاں( 1722ء تا 1739ء) تھےجن کو مغل حکمران کی طرف سے بر ہان الملک کا خطاب ملا تھا۔ ۱۸۴۷ میں اسکے تاجدار نواب واجد علی شاہ ہوئے۔ یوں تو واجد علی شاہ ایک بہت ہی متدیّن انسان تھے، پانچ وقت کی نماز، رمضان کےروزے، زکوٰۃ اور خمس وغیرہ کے پابند تھے۔ لیکن انکو فنونِ لطیفہ سے بھی خاص شغف تھا۔ وہ ایک اچھے شاعر اور موسیقار تھے۔ انہوں نے اپنے دور میں میر انیؔس اور مرزا دؔبیر جیسے شعرأ کی سرپرستی کی۔ اُس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اردو زبان و ادب میں مرثیہ نگاری کی ایک ایسی لازوال روائت قائم ہو گئی جو آج تک ہندوستان اور پاکستان کیا بلکہ انگلستان اور امریکا تک میں رائج ہے۔ یقینا ً اُس وقت کے شاعر کو حکومت اودھ کی طرف سے وظیفے ملا کرتے تھے لیکن آج کا مرثیہ نگار صرف اپنے ذاتی شوق اور اپنے جذبۂِ ایمانی کے تحت اُس روائت کو قائم و دائم رکھے ہوئے ہے۔ دوسری طرف ہندوستان کے روائیتی رقص پر واجد علی شاہ کا کام بہت اہم ہے۔ انکی ایک کتاب ہے جو انہوں نے اپنی معزولی کے بعد کلکتہ کے قیام کے دوران لکھی تھی۔ اس کتاب کاعنوان ہے ’مسمّیٰ بہ بنی‘۔ اسکے علاوہ انکے شعری مجموعے ’حُسنِ اختر‘ اور ’دیوانِ اختر‘ بھی ہیں۔ واجد علی شاہ اپنا تخلّص اختر کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے دور میں ٹُھمری کی ایجاد کی اور کتھک ناچ میں نئے نئے انداز نکالے۔ انہوں نے جو ٹھمریاں تخلیق کی ہیں اس میں اکثر اپنے لئے ’اختر پیا ‘ کا تخلص اختیار کیا ہے۔ اسی سلسلہ میں انہوں نے ایک پری خانہ قائم کیا۔ جس میں ایک اندازے کے مطابق دو۔تین سو لڑکیاں رکھی گئی تھیں۔ ان لڑکیوں کو باقاعدہ ناچ گانے کی تعلیم دی جاتی تھی۔ یہ وہ لڑکیاں تھیں جو کسی وجہ سے غلط راستوں پر نکل گئی تھیں یا غلط خاندانوں میں پیدا ہوئی تھیں۔ سوسائٹی میں جو منافقت تھی وہ یہ کہ طبقۂِ اُمرأ اور اشرافیہ کے مرد ان لڑکیوں کو اپنی تفریح کے لئے استعمال کرتے تھے لیکن اُن سے شادی بیاہ کرکے انکو عزت دینے کو تیار نہیں تھے۔ پری خانہ کا مقصد یہ تھا کہ وہ لڑکیاں اپنے فن کی بدولت اپنے پانو پر کھڑی ہوجائیں اور ذلت و رُسوائی سے بچیں۔ ہر لڑکی کو کچھ اس قسم کے نام دئے گئے تھے جیسے سُلطان پری، ماہ رُخ پری وغیرہ۔ انہی پریوں میں سے ایک خاتون سے واجد علی شاہ نے نکاح کیا۔ وہ خاتون بیگم حضرت محل کے نام سے موسوم ہوئیں۔ انکا اصلی نام محمدی خانم تھا۔
شاعری میں واجد علی شاہ نے یہ محسوس کیا کہ بحروں کا نظام جو مفاعیل کی اکائیوں پر بنایا گیا ہے وہ بہت ہی اکّھڑ قسم کی عربی ہے جس میں رومانٹی سِزم نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ لہٰذا انہوں نے یہ اکائیاں تجویز کی ہیں۔
پری خانم مفاعِیلُن۔ پری چہرہ مفاعِلُن۔ پری رُخ فعولُن، وغیرہ وغیرہ
واجد علی شاہ ۱۸۲۲ میں پیدا ہوئے تھے، ۔ انکی تاج پوشی ۱۸۴۷ میں ہوئی تھی جبکہ وہ ۲۵ برس کے تھے۔
بیگم حضرت محل بے انتہا حسین و جمیل خاتون تھیں اور بہت ہی بارعب شخصیت کی مالک تھیں۔ وہ عمر میں واجد علی شاہ سے دو برس بڑی تھیں۔ ۱۸۵۶ میں انگریزوں نے واجد علی شاہ کو معزول کردیا اور گرفتار کر کے کلکتہ کے فورٹ ولیم میں نظر بند رکھا۔کچھ دنوں بعد وہ رہا کر دئے گئے لیکن پھر کلکتہ ہی میں رہے۔مٹیا بُرج جو کہ کلکتہ کے نواح میں ہے، وہاں مقیم ہوئے۔ بادشاہ کے سیکڑوں مصاحبین اور ملازمین ھجرت کرکے مٹیا بُرج چلے گئے اور یوں کلکتہ کے نواح میں اردو شعر وا دب اور زبان کا ایک نیا مکتب قائم ہو گیا بلکہ وہاں بھی ایک چھوٹا سا لکھنؤ بن گیا۔ اسکے برسوں بعد تک یہ عالم رہا کہ دور دور کے علاقوں سے لوگ مٹیا بُرج میں آکر رہ جاتے تھے، اور جب وہاں سے نکلتے تھے تو بہترین اردو بولتے اور لکھتے ہوئے نکلتے تھے۔ اُسی ماحول سے ھضرت نظم طباطبائی نکلے تھے جنہوں نے دیوانِ غالب کی پہلی شرح لکھی ہے۔ اور وہیں سے چراغ حسن حسرت بھی نکلے تھے ۔ انکے کالم بعنوان ’حرف وحکایت ‘ جو کہ روزنامہ امروز لاہور میں چھپا کرتے تھے، انکی بہترین اردو کے گواہ ہیں۔ انگریزوں نے واجد علی شاہ کو بہت بدنام کیا ہے بلکہ انکی کردار کُشی کی ہے۔ لیکن دراصل بادشاہ ایک انتہائی بُردبار، سخی اور اپنی رعایا پر مہربان انسان تھے۔ واجد علی شاہ کی معزولی کے بعد بیگم حضرت محل نے اپنے بیٹے برجیس قدر کو بادشاہ بنانے کا اعلان کر دیا۔ برجیس قدر کے پوتے کوکب قدر سجاد علی میرزا، جو ۱۹۳۱ میں پیدا ہوئے تھے، انہوں نے ۱۹۷۰ میں علیگڈھ مسلم یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی تھی۔ ان کی پی ایچ ڈی کے مقالہ کا عنوان ہے:
The Literary and Cultural Contribution of Wajid Ali Shah
جب انگریزوں نے واجد علی شاہ کو معزول کرکے مٹیا برج بھیج دیا تو حضرت محل نے اپنی بچی کھچی ہندوستانی فوج کو جمع کیا اور اپنے بیٹے بِرجیس قدر کو بادشاہ بنانے کا اعلان کردیا اور انگریز فوج کے خلاف محاذ قائم کر دیا۔ بڑی جنگ ہوئی۔ اور ہندوستانی سپاہیوں نے بڑی شجاعت سے جنگ کی جس کے نتیجہ میں انگریزوں کی ریزیڈینسی تقریباً تباہ ہو گئی۔ لیکن وہ انگریز فوج کی بڑی توپوں کے سامنے نہ جیت سکے۔ یہ جنگ ۱۸۵۷ میں ہوئی تھی۔ہمارے اسکول کے زمانہ تک(یعنی ۱۹۵۰ کی دہائی) انگریز ریزیڈینسی کے کھنڈرات موجود تھے اور انکی دیواروں میں توپوں کے گولوں سے جو نشان پڑے تھے اور اسکی محرابوں میں گولیوں سے درارایں پڑ گئی تھیں وہ سب ویسے کی ویسی ہی محفوظ کر دی گئی تھیں۔ اسکول کے بچوں کو باقاعدہ وہاں زیارت کے لئے لے جایا جاتا تھا ااور اگر کوئی قابل استاد ہوتا تھا تو وہیں کھڑے کھڑے جنگ آزادی کی تاریخ کا سبق پڑھا دیتا تھا۔ اس کھنڈر کا نام بیلے گارڈ تھا۔ شائد اب بھی ویسے ہی ہو۔
قدیمی زمانہ سے ہندوستان میں ڈرامہ کی دو اصناف ابھری ہیں، ایک نو ٹنکی اور دوسرا رَہَس۔ نوٹنکی کا رواج ہندوستان میں اب بھی ہے جو گاؤں دیہاتوں میں مقامی ایکٹروں کی مدد سے بالکل کم بجٹ میں بنائی جاتی ہیں۔ نوٹنکی میں ہم نے عورتوں کو کام کرتے ہوئے نہیں دیکھا اور اس میں ہنسنے ہنسانے کا مقصد زیادہ ہوتا اور وہ بھی نچلے درجہ کے غیر تعلیم یافتہ افراد کے لئے، اسلئے نوٹنکی میں بھانڈ پن زیادہ ہوتا ہے۔ رَہَس میں ادبی عنصر زیادہ رہا۔لکھنؤ کا وہ علاقہ جو قیصر باغ کے نام سے جانا جاتا ہے وہاں ایک بڑی عمارت ہے جسے بارہ دری کہا جاتا ہے اور اسکو رَہَس محل بھی کہتے ہیں۔