تحریر شازیہ عندلیب
جیلیں کرائے پر دستیاب ہیں۔وہ بھی دنیا کے ترقی یافتہ ملک سویڈن میں۔اس طرح ناروے کا تو ایک مسئلہ حل ہوا۔اب اسے اپنے مجرموں کی رہایش کے لیے برطانیہ کی جیلیں کرائے پر نہیں لینی پڑیں گی۔یہ مسئلہ پاس پڑوس میں ہی حل ہو گیا۔پاکستانی کمیونٹی کے ایک قابل کالم نگار ڈاکٹر عارف کسانہ نے اسٹاک ہوم سے یہ خبر دی کہ سویڈن میںجرائم کی کمی کی وجہ سے جیلوں کے رہائشی مجرم سزا پا کر جیلیں خالی کر گئے ہیں لہٰذا اب جیلوں کی خالی عمارتیں اپنے مکینوں کی منتظر ہیں۔اب چونکہ وہاں اس قدر خاشحالی اور تعلیم ہے کہ جیلوں کی خوبصورت عمارتین خالی ہو چکی ہیں۔مگر فکر کی کوئی بات نہیں دنیا کے ایک اور امیر ملک میں جرائم اتنے بڑھ گئے ہیں کہ یہاں مجرموں کی کمی نہیں۔چنانچہ اب سویڈش حکام کو فکرکی چنداں ضرورت نہیں۔اب یہ جیلیں نارویجن حکام کرائے پر حاصل کر کے مجرموں کو وہاں رکھیں گے۔
بہر حال سویڈش حکومت اس بات پر مبارکباد کی مستحق ہے کہ وہ اپنے ملک کے جرائم پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئی ہے ۔کاش میرے وطن کی جیلیں بھی خالی ہو جائیں میرے وطن کی تمام جیلیں ویران ہو جائیں اور تھانوں میں تھانیداروں کے بجائے الو بولا کریں
جانے وہ دن کب آئیں گے؟؟مگر ناروے جیسے امیر ملک میں جرائم کا بڑھنا اچنبھے والی بات ہے۔مجموعی طور پر ناروے ایک حقیقی فلاحی اور امیر مملکت ہے۔یہاں امیر غریب کا فرق ذیادہ نہیں۔تمام شہریوں کو بشمول تارکین وطن کے بنیادی حقوق حاصل ہیں۔بیروزگاری کی شرح دوسرے ممالک کی نسبت بہت کم ہے۔نسل پرستی بھی کم ہے۔ناروے کا ساٹھ فیصد بجٹ فلاحی کاموں پر خرث کیا جاتا ہے جس میں اس کی خوشحالی کا راز پوشیدہ ہے۔دنیا کا سرد ترین ملک ہونے کے باوجود یہاں ہر شخص کے گھر میں مناسب حرارت کا سسٹم ہے۔
اس کے باوجود یہاں جو جرائم کی شرح بڑہی ہے اس کی بڑی وجہ دوسرے یورپین اور ایشیائی ممالک کے لوگوں کی نقل مکانی ہے۔جو یہاں کے فلاحی نظام سے نا جائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کی اکثریت یہاں کا رہائشی ویزہ نہیں رکھتی یہاں بھیک مانگتی ہے دن کو گھوم پھر کر چیزیں بیچتے ہیں اور رات کو چوریاں کرتے ہیں۔یہ مسئلہ پچھلی حکومت میں قومی اسمبلی میں بھی اٹھایا گیا لیکن اس پر پوری طرح سے قابو نہ پایا جا سکا۔تا ہم اسکی بڑی وجہ بارڈر پر پابندی کا ختم ہونا بھی ہے جو کہ شینگن ویزے کی وجہ سے عمل میں آئی۔ اس کے علاوہ صومالیہ عراق اور پاکستان سے آنے والے افراد بھی جرائم میں ملوث ہیں۔پاکستانی جبری شادیوں مار پیٹ اور ہیرا پھیری کے متعدد جرائم سر فہرست ہیں تاہم نارویجن بھی جرائم میں ملوث ہیں لیکن انکی شرح بہت کم ہے۔اس لیے کہ نارویجن حکومت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ جرائم کا سدباب سخت سزائیں دینے سے نہیں بلکہ صحیح تربیت دینے سے ہوتا ہے۔مگر جب وہ یہ تربیت غیرملکیوں کو دینا چاہتے ہیں تو وہ کچھ نہیں سیکھتے ۔پچھلے دور حکومت میں کئی ملین کرائون بے روزگار رومیوں کی تربیت کے لیے خرچ کیے گئے مگر ان میں سے صرف دو افراد نے ملازمت حاصل کی
اس صورتحال کے پیش نظر موجودہ حکومت نے تارکین وطن کے لیے قوانین سخت کر دیے ہیں۔جنہیں سویڈش حکومت نے بیحد سراہا ہے اور اسے قابل تقلید بھی قرار دیا ہے۔تا ہم یہ قوانین جرائم کے سدباب کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔اس لیے سمجھنا غلط ہے کہ یہاں جرائم کی شرح مقامی افراد کی وجہ سے بڑہی ہے۔
السلام علیکم
امید ہے ایمان و صحتکی بہترین حالت میں ہوں گی۔
غیر ملکی جیلون کے متعلق سن کر مسرت ہوئی ۔ امید ہے کہ وطن عزیز میں بحی جلد حالات صحیح رخ پہ آجائیں گے اور ہماری جیلیں بحی سنسان ہو جائیں گی۔ وطن عزیز کے جیل سسٹم پر ایک آرٹیکل آپ کو ارسال کیا تحا براہ کرم اسے بھی شائع کر دیجئیے۔
شکریہ والسلام
راجہ محمد عتیق افسر