مونسِ تنہائی
تحریر نجیب احمد
اس قصے سے ہم نے انہیں عبرت دلائی۔ بزرگوار نے دوسرے پینترے سے گھوڑی خریدنے کی مخالفت کی۔ وہ اس پر بہت برافروختہ ہوئے کہ بشارت کو ان کے کراماتی وظیفے پر یقین نہیں۔ وہ خاصے گلیر تھے۔ بیٹے کو کھل کر گالی تو نہیں دی۔ بس اتنا کہا کہ اگر تمہیں اپنی نسل چلانے کے لیے پیڈگری گھوڑی ہی رکھنی ہے تو شوق سے رکھو۔ مگر میں ایسے گھر میں منٹ نہیں رہ سکتا۔ انھوں نے یہ دھمکی بھی دی کہ جہاں بلبن گھوڑا جائے گا وہ بھی جائیں گے۔ قصہ دراصل یہ تھا کہ بزرگوار اور گھوڑا ایک دوسرے سے اس درجہ مانوس ہو چکے تھے کہ اگر گھر والے مانع نہ ہوتے تو وہ اسے ڈرائنگ روم میں اپنی چارپائی کے پائے سے بندھوا کر سوتے۔ وہ بھی ان کے قریب آ کر خود بخود سر نیچے کر لیتا تاکہ وہ اسے بیٹھے بیٹھے پیار کر سکیں۔ وہ گھنٹوں منہ سے منہ بھڑائے اس سے گھر والوں اور بہوں کی شکائتیں اور برائیاں کرتے رہتے۔ بچوں کے لیے وہ زندہ کھلونا تھا۔ بزرگوار کہتے تھے جب سے یہ آیا ہے میرے ہاتھ کا رعشہ کم ہو گیا ہے اور برے خواب آنے بند ہو گئے۔ وہ اب اسے بیٹا کہنے لگے تھے۔ سدا روگی سے اپنے پرائے سب اکتا جاتے ہیں۔ ایک دن وہ چار پانچ گھنٹے درد سے کراہتے رہے۔ کسی نے خبر نہ لی۔ شام کو اختلاج اور مایوسی زیادہ بڑھی تو خانساماں سے کہا کہ بلبن بیٹے کو بلا۔ بڑھاپے اور بیماری کے بھیانک سناٹے میں یہ دکھی گھوڑا ان کا واحد ساتھی تھا۔
اک لقمہ تر کی صورت
گھوڑے کو جوت نہیں سکتے۔ بیچ نہیں سکتے۔ ہلاک نہیں کرواسکتے۔ کھڑے کھلا نہیں سکتے۔ پھر کیں تو کیا کریں۔ جب بلیک موڈ آتا تو اندر ہی اندر کھولتے اور اکثر سوچتے کہ سیٹھ، سرمایہ دار، وڈیرے، جاگیردار اور بڑے افسران اور کرپشن کے لیے زمانے بھر میں بدنام ہیں۔ مگر”بے رحمی والے”دو ٹکے کے آدمی کس سے کم ہیں۔ انھیں اس سے پہلے ایسے رجعتی اور غیر انقلابی خیال کبھی نہیں آئے تھے۔ ان کی سوچ میں ایک مردم گزیدہ کی کلبیت اور جھنجھلاہٹ در آئی۔ یہ لگ تو غریب ہی
til Aijaz
سونار بنگلہ
1967ع میں ہمیں کار اور”فیری”سے مشرقی پاکستان کا دورہ کرنے کا اتفاق ہوا۔ چھ سات سو میل کے سفر میں کوئی فرلانگ ایسا نہ تھا جس میں اوسطا پانچ چھ آدمی سڑک پر پیدل چلتے نظر نہ آئے ہوں۔ اوسطا بیس میں سے صرف ایک کے پیر میں چپل ہوں گے۔ نہ ہمیں کسی کے پورے تن پر کپڑا نظر آیا، سوائے میت کے! راستے میں تین جنازے ایسے دیکھے جن کے کفن کی چادر دو مختلف رنگ کی لنگیاں جوڑ کر بنائی گئی تھی۔ ایک ضعیف شخص ایک جنازے پر پھٹی چھتری لگائے چل رہا تھا۔ یہ مرنے والے جوان کا باپ تھا۔ اس کی سفید داڑھی اور آنکھوں سے بارش کے ریلے بہہ رہے تھے۔ ہم باریسال سے گزر رہے تھے۔ بلا کی امس تھی۔ پیاس سے برا حال۔ پانی یا لیمنیڈ پینے کا سوال ہی نہ تھا، اس لیے کہ ان دنوں ہر جگہ ہیضہ پھیلا ہوا تھا۔ سڑکوں پر جنازے ہی جنازے نظر آ رہے تھے۔ ایک بے تکلف دوست نے ٹپ دیا تھا کہ راستے میں خودکشی کرنے کو جی چاہے تو بازار سے کوئی بھی چیز لے کر کھا لینا۔ ناریل کے بارے میں البتہ ایک بنگالی دوست نے کم و بیش وہی بات کہی جو غالب آم کے بارے میں کہہ گئے ہیں :
انگبیں کے بحکم رب الناس
بھر کر بھیجے ہیں سر بمہر گلاس
اس دوست نے کہا تھا کہ ناریل میں جراثیم کا گزر نہیں۔ پانی کے بجائے یہی توڑ توڑ کر پینا۔ السر کو بھی فائدہ کرتا ہے۔ ہم نے چھ چھ پیسے کے دو ناریل خریدے۔ ڈرائیور نے ناریل والے ہی سے مانگ کر پانی پیا اور اپنے حصے کا ناریل کار کے بوٹ میں سنگوا کر رکھ لیا۔ ہم نے ناریل وہیں توڑا۔ اندر کھوپرے کی بہت پتلی اور نرم تہ نکلی۔ ایسے ادھ کچرے ناریل کی ڈابھ بہت مفرح، ملین اور شیریں ہوتی ہے۔ ڈابھ پی کر ناریل ہم نے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ پان والے سے”تھری کاسل”سگریٹ کی ڈبیا خریدی۔ سگریٹ نکالا تو بے حد پرانا اور سوکھا کھڑنک۔ کیڑے نے اس میں مہین مہین سوراخ کر دیے تھے جن کی وجہ سے کش میں جگہ جگہ سے پنکچر ہو جاتے تھے۔ ایسے سگریٹوں سے ہمارے یہاں ان گھروں میں تواضع کی جاتی ہے جہاں صاحبِ خانہ خود سگریٹ نہیں پیتا۔ اور عیدالفطر پر خریدے ہوئے سگریٹ کے پیکٹ سے دوسرے عیدالفطر تک بالاصرار اپنے ملاقاتیوں کے حلق اور اخلاق کی آزمائش کرتا رہتا ہے۔ ہم ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ وہ کون سا ظالم کیڑا ہو گا جو تمباکو سے اپنا پیٹ بھر کر زندہ رہتا ہے۔ اس کا تو مااللحم اور کشتہ بنا کر کینسر کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ اتنے میں ایک بوڑھی عورت کوڑے کے ڈھیر کی طرف بڑھی۔ اس نے گھورے کی گہرائیوں میں سرنگیں لگاتی ہوئی بلیوں اور آنول سے جڑی آلائش کو بھنبھوڑتے ہوئے کتے کو ڈھیلے مار مار کر بھگا دیا۔ اس کے تن پر بغیر چولی کے لیر لیر ساری کے سوا کچھ نہ تھا۔ وہ قدم جما جما کر گھورے پر چڑھی۔ جیسے ہی اس نے پیر سے آنول پرے ہٹایا ایک چیل جھپٹا مار کر اسے لے گئی، مگر ابھی پوری طرح اٹھی بھی نہ تھی کہ پنجے سے چھوٹ گیا۔ بڑھیا رسان سے ناریل اٹھا لائی کہ اس کا کوئی اور دعوے دار نہ تھا۔ اس کے ساتھ ایک منی سی بچی اور دو ننگ دھڑنگ لڑکے تھے جن کی یہ غالبا نانی یا دادی ہو گی۔ وہ ناریل کا گودا کھرچ کھرچ کے بڑے ندیدے پن سے کھاتی رہی، یہاں تک کہ چھوٹے لڑکے نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے منہ میں رکھ لیا۔ اس نے دونوں لڑکوں کو تھوڑا سا کھوپرا دیا۔ بچی اتنی چھوٹی تھی کہ بڑھیا نے کھوپرے کو پہلے خود اپنے پوپلے منہ سے چبا چبا کر نرم کیا۔ پھر منہ سے منہ ملا کر اگال بچی کے منہ میں ڈالا۔ جب وہ ناریل اٹھانے کے لیے گھورے پر جھکی تو اس کی ننگی چھاتیاں بھلبھلائے بینگن کی مانند جھریائی ہوئی اور خالی اوجھڑی کی طرح جھول رہی تھیں۔ لگتا تھا کھمبیوں کی طرح یہ بھی اسی زمین سے اگی ہیں۔ نہ تو دیکھنے والوں کو، نہ خود اس مائی کو اپنے ننگے ہونے کا احساس تھا، لیکن اس دن میں نے اپنے آپ کو بالکل ننگا محسوس کیا۔
دوسرا منظر ذرا آگے چل کر بازار میں دیکھا۔ بینک کے دفتر کے سامنے کوئی چار فٹ اونچے تھڑے پر ایک شخص مچھلی یچ رہا تھا۔ اس کے بنیان میں بے شمار آنکھیں بنی تھیں۔ اس پر اور لنگی پر مچھلی کے خون اور آلائش کی تہ چڑھی ہوئی تھی۔ ہاتھ بہت گندے ہو جاتے تو وہ انھیں لنگی پر رگڑ کر تازہ گندگی کو پرانی گندگی سے پونچھ لیتا تھا۔ جب تھوڑے تھوڑے وقفے سے مچھلیوں پر پانی کے چھپکے دینے سے مکھیوں کے چھتے اڑ جاتے تو نظر آتا کہ مچھلی کتنی چھوٹی اور کس ذات کی ہے۔ غلیظ پانی اور مچھلیوں کا کیچڑ ایک ٹین کی نالی سے ہوتا ہوا نیچے رکھے ہوئے کنسٹر میں جمع ہو رہا تھا۔ وہ بغدے سے کسی بڑی مچھلی کے ٹکڑے کر کے بیچتا تو اس کے کھپرے اور آلائش بھی اسی کنسٹر میں جاتی تھی۔ وہ جب بھر جاتا تو اسے ہٹا کر دوسرا کنسٹر رکھ دیا جاتا۔ بلیاں بار بار پچھلی ٹانگوں پر کھڑی ہو ہو کر منہ مارتیں اور چھیچھڑوں کو کنسٹر میں گرنے سے پہلے ہی بڑی تیزی سے اچک لیتیں۔ دیکھنے والے کو ہول آتا تھا کہ تیز چلتے ہوے بغدے سے بلی کا سر کھچ سے اب اڑا کہ اب اڑا۔ کوئی جوان عورت مچھلی لینے آتی تو مچھلی والا ڈھال ڈھال کر بلی کو آرزو بھری گالیاں دینے لگتا۔ کوئی ایک گھنٹے میں اس نے دو بھرے ہوئے کنسٹر ایک ایک آنے میں بیچے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ غریب غربا اس پانی میں چاول پکاتے ہیں تاکہ چاولوں میں مچھراند (مچھلی کی باس) بس جائے۔ مچھلی کی بدبو کے اس ایسنس کے ایک کنسٹر سے تین گھروں میں ہنڈیا پکتی ہے۔ غریبوں میں جو لوگ نسبتا آسودہ حال ہیں، وہی یہ لگژری افورڈ کر پاتے ہیں !
…
[E-posten er avkuttet] Se hele e-posten
Najeeb Ahmed
01:11 (For 18 timer siden)
til Aijaz
خاندانِ مغلیہ کا زوال و نزول
بشارت نے جھگی کے باہر کھڑے ہو کر مولانا کو آواز دی، حالانکہ اس کے”اندر”اور”باہر”میں کچھ ایسا فرق نہیں تھا۔ بس چٹائی، ٹاٹ اور بانسوں سے اندر کے کیچڑ اور باہر کے کیچڑ کے درمیان حد بندی کر کے ایک خیالی privacy (تخلیہ) اور ملکیت کا حصار کھینچ لیا تھا۔
یہ میری لحد، وہ تیری ہے
خاندانِ مغلیہ کا زوال و نزول
بشارت نے جھگی کے باہر کھڑے ہو کر مولانا کو آواز دی، حالانکہ اس کے”اندر”اور”باہر”میں کچھ ایسا فرق نہیں تھا۔ بس چٹائی، ٹاٹ اور بانسوں سے اندر کے کیچڑ اور باہر کے کیچڑ کے درمیان حد بندی کر کے ایک خیالی privacy (تخلیہ) اور ملکیت کا حصار کھینچ لیا تھا۔
یہ میری لحد، وہ تیری ہے
کوئی جواب نہ ملا تو انھوں نے حیدرآبادی انداز سے تالی بجائی، جس کے جواب میں اندر سے چھ بچوں کا تلے اوپر پتیلیوں کا سا سیٹ نکل آیا، جن کی عمروں میں بظاہر نو نو مہینے سے بھی کم فرق نظر آ رہا تھا۔ سب سے بڑے لڑکے نے کہا، مغرب کی نماز پڑھنے گئے ہیں، تشریف رکھیے۔ بشارت کی سمجھ میں نہ آیا کہاں تشریف رکھیں۔
ان کے پیر تلے اینٹیں ڈگمگا رہیں تھیں۔ تعفن سے دماغ پھٹا جا رہا تھا۔
جہنم اگر روئے زمین پر کہیں ہو سکتا ہے تو
ہمیں است وہمین است وہمین است
وہ دل ہی دل میں مولانا کو ڈانٹنے کا ریہرسل کرتے ہوئے آئے تھے۔” یہ کیا اندھیر ہے مولانا؟”کچکچا کر مولانا کہنے کے لیے انھوں نے بڑے طنز و تلخی سے وہ لہجہ کمپوز کیا تھا جو بہت سڑی گالی دیتے وقت اختیار کیا جاتا ہے۔ لیکن جھگی اور کیچڑ دیکھ کر انھیں اچانک خیال آیا کہ میری شکایت پر اس شخص کو بالفرض جیل ہو جائے تو اس کے تو الٹے عیش آ جائیں گے۔ مولانا پر پھینکنے کے لیے طعن و تشنیع کے جتنے پتھر وہ جمع کر کے لائے تھے، ان سب پر داڑھیاں لگا کر جا نمازیں لپیٹ دی تھیں تاکہ چوٹ بھلے ہی نہ آئے، شرم تو آئے۔ وہ سب دھرے رہ گئے۔ ان کا ہاتھ شل ہو گیا تھا۔ اس شخص کو گالی دینے کا فائدہ؟ اس کی زندگی تو خود ایک گالی ہے۔ ان کے گرد بچوں نے شور مچانا شروع کیا تو سلسلہ ملامت ٹوٹا۔ انھوں نے ان کے نام پوچھنا شروع کیے۔ تیمور، بابر، ہمایوں، جہانگیر، شاہ جہاں، اورنگ زیب۔ یا اللہ پورا دودمانِ مغلیہ اس ٹپکتی جھگی میں تاریخی تسلسل سے ترتیب وار اترا ہے۔
ایسا لگتا تھا کہ مغل بادشاہوں کے ناموں کا اسٹاک ختم ہو گیا، مگر اولادوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ چنانچہ چھٹ بھیوں پر اتر آئے تھے۔ مثلا ایک لختِ جگر کا پیار کا نام (مرزا) کوکا تھا، جو اکبر کا دودھ شریک بھائی تھا، جس کو اس نے قلعے کی فصیل پر سے نیچے پھنکوا دیا تھا۔ اگر حقیقی بھائی ہوتا تو اس سے بھی سخت سزا دیتا۔ یعنی قزاقوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے لیے حج پر بھیج دیتا یا آنکھیں نکلوا دیتا۔ رحم کی اپیل کرتا تو از راہ ترحمِ خسروانہ و شفقتِ برادرانہ جلاد سے ایک ہی وار میں سر قلم کروا کے اس کی مشکل آسان کر دیتا۔ جو شیر خوار اور گھٹنیوں چلتے بچے اندر رہ گئے تھے ان کے ناموں سے بھی شکوہِ شاہانہ ٹپکتا اور تاج و تخت سے وابستگی کا نشان ملتا تھا، حالانکہ یہ یاد نہیں آ رہا تھا کہ ان میں سے کون تخت پر متمکن ہونے کے بعد قتل ہوا اور کون پہلے۔ بات یہ ہے کہ اورنگزیب کی وفات کے بعد انتزاع سلطنت اور طوائف الملوکی کا دور شروع ہوا۔ بارہ سال میں آٹھ بادشاہ اس طرح سریر آرائے سلطنت ہوئے کہ ایک بادشاہ ٹھیک سے تخت پر بیٹھ نہیں پاتا تھا کہ اس کا تختہ الٹ دیا جاتا۔ تاج اور سر ہوا میں بازیگر کی گیندوں کی طرح اچھلنے لگے۔ ہر چند کہ اورنگزیب کو موسیقی سے نفرت تھی، لیکن س کی آنکھیں بند ہوتے ہی تخت و تاج کے دعوے داروں نے شاہی تخت کے گرد میوزیکل چیئرز کھیلنا شروع کر دیا۔ اس ادنی تصرف کے ساتھ کہ میوزک کے بجائے شاعر لہک لہک کر قصیدے پڑھتے اور جب پڑھتے پڑھتے اچانک رک جاتے تو ایک نیا شہزادہ جھٹ سے تخت پر بیٹھ جاتا۔ نادر شاہ کو یہ مغلئی کھیل ایسا بھایا کہ تختِ طاس اٹھوا کے وطن لے گیا۔ اس کے باوجود کھیل جاری رہا۔ تخت اٹھوانے کے ضمن میں ہم نے نہ رہے بانس نہ بجے بانسری کا محاورہ جان بوجھ کر استعمال نہیں کیا۔ اس لیے کہ چین کی بانسری بجانے کے لیے بادشاہوں اور آمروں کو بانس کی محتاجی کبھی نہیں رہی۔ شاہوں کا نالہ پابندِ لے ہی نہیں، پابندِ نے بھی نہیں ہوتا۔
ہم عرض یہ کر رہے تھے کہ خانوادہ تیمور کے جو باقی ماندہ چشم و چراغ جھگی کے اندر تھے ان کے نام بھی تخت نشینی بلکہ تخت الٹنے کی ترتیب کے اعتبار سے درست ہی ہوں گے، اس لیے کہ مولانا کا حافظہ اور تاریخ کا مطالعہ بہت اچھا معلوم ہوتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ لائحہ حمل بناتے وقت انھوں نے خاندانی منصوبہ شکنی کو تاریخِ مغلیہ کے تقاضوں اور تخت نشینی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے تابع رکھا ہے۔ بشارت نے پوچھا”تم میں سے کسی کا نام اکبر نہیں ؟”بڑے لڑکے نے جواب دیا”نہیں جی۔۔ وہ تو دادا جان کا تخلص ہے۔”
گفتگو کا سلسلہ کچھ انہوں نے کچھ بچوں نے شروع کیا۔ انھوں نے دریافت کیا”تم کتنے بہن بھائی ہو؟”جوابا ایک بچے نے ان سے پوچھا”آپ کے کتنے چچا ہیں ؟”انھوں نے دریافت کیا”تم میں سے کوئی پڑھا ہوا بھی ہے ؟”بڑے لڑکے تیمور نے ہاتھ اٹھا کر کہا”جی ہاں ! میں ہوں”معلوم ہوا یہ لڑکا جس کی عمر تیرہ چودہ سال ہو گی مسجد میں بغدادی قاعدہ پڑھ کر کبھی کا فارغ التحصیل ہو چکا تھا۔ تین سال تک پنکھے بنانے کی ایک فیکٹری میں مفت کام سیکھا۔ ایک سال ہوا دائیں ہاتھ کا انگوٹھا مشین میں آ گیا۔ کاٹنا پڑا۔ اب ایک مولوی صاحب سے عربی پڑھ رہا ہے۔ ہمایوں اپنے ہم نام کی طرح ہنوز خواری و آوارہ گردی کی منزل سے گزر رہا تھا۔ جہانگیر تک پہنچتے پہنچتے پاجامہ بھی طوائف الملوکی کی نظر ہو گیا۔ البتہ شاہ جہاں کا ستر پھوڑوں پھنسیوں پر بندھی ہوئی پٹیوں سے اچھی طرح ڈھکا ہوا تھا۔ اورنگ زیب کے تن پر صرف اپنے والد کی ترکی ٹوپی تھی۔ بشارت کو اس کی آنکھیں اور اسے بشارت نظر نہ آئے۔ سات سال کا تھا مگر بے حد باتونی۔ کہنے لگا”ایسی بارش تو میں نے ساری زندگی نہیں دیکھی، ،۔ ہاتھ پیر ماچس کی تیلیاں لیکن اس کے غبارے کی طرح پھولے ہوئے پیٹ کو دیکھ کر ڈر لگتا تھا کہ کہیں پھٹ نہ جائے۔ کچھ دیر بعد ننھی نور جہاں آئی۔ اس کی بڑی بڑی ذہین آنکھوں میں کاجل اور کلائی پر نظر گزر کا ڈورا بندھا تھا۔ سارے منہ پر میل، کاجل، ناک اور گرد لپی ہوئی تھی، سوائے ان حصوں کے جو ابھی ابھی آنسوں سے دھلے تھے۔ انھوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ اس کے سنہری بالوں میں گیلی لکڑیوں کے کڑوے کڑوے دھویں کی بو بسی ہوئی تھی۔ ایک بھولی سی صورت کا لڑکا اپنا نام شاہ عالم بتا کر چل دیا۔ آدھے رستے سے واپس آ کر کہنے لگا کہ میں بھول گیا تھا۔ شاہ عالم تو بڑے بھائی کا نام ہے۔ یہ سب مغل شہزادے کیچڑ میں ایسے مزے سے پھچاک پھچاک چل رہے تھے جیسے ان کا سلسلہ نصب امیر تیمور صاحبقران کے بجائے کسی راج ہنس سے ملتا ہو۔
ہر کونے کھڈرے سے بچے ابلے پڑ رہے تھے۔ ایک کمانے والا اور یہ ٹبر! دماغ چکرانے لگا۔