نہیں عمر یونہی گنوانے کی خاطر
چلو ہم کریں کچھ زمانے کی خاطر
خزانے نہیں ہیں لٹانے کی خاطر
نہیں دل کے ارماں مٹانے کی خاطر
ہوا ایسی ظالم نہ گزرے چمن سے
جو چلتی ہے آندھی اُٹھانے کی خاطر
شہیدوں نے دیکھے تھے کیا کیا نہ سپنے
وطن کو ہی جنت بنانے کی خاطر
بکھرتے ہیں پل بھر میں وہ دل کے رشتے
لگی عمر جن کو بنانے کی خاطر
پنپتی ہیں یہ پیار کی چھاؤں میں ہی
بہوویں نہیں ہیں جلانے کی خاطر
نہ پوچھا پلٹ کر زمانے نے ان کو
مٹے جو وطن کو بچانے کی خاطر
ہمیں چار تنکے نہ مل پائے موناؔ
بھرے باغ میں آشیانے کی خاطر