ڈاکٹر شہلا گوندل
خزاں کے اولین دن تھے اور باورچی خانے کی کھڑکی سے سبز پتوں میں زرد اور نارنجی رنگ کی آمیزش صاف نظر آ رہی تھی۔باورچی خانے میں ابھی دھونے والے برتنوں کا ڈھیر ویسے ہی پڑا تھا۔
کھانے کی میز پر اور دالان میں بکھری بچوں کی چیزیں کسی مسیحا کی منتظر تھیں جو انہیں اٹھا کر اپنی جگہ پر رکھ دے۔بستر کی سلوٹ زدہ چادریں بھی ابھی درست نہیں کی گئی تھیں۔تہہ خانے میں دھونے والے کپڑوں کا ڈھیر بھی کسی جادو کی چھڑی کا انتظار کر رہا تھا۔خزاں کی چھٹیوں کی وجہ سے بچوں کا ناشتہ اور شوہر نامدار کا لنچ آپس میں گڈ مڈ ہو گئے تھے۔ایک ابھی ختم ہوتا تو دوسرا شروع۔۔۔۔۔۔۔گھریلو کاموں کا ایک لا متناہی سلسلہ۔۔۔۔کبھی نہ ختم ہونے والا۔ ایک گھریلو عورت کی زندگی کتنی مصروف کتنی ذمہ دارانہ اور مشکل ہوتی ہے۔اس بات کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میں نے خود کو مکمل طور پر گھر کے اندر محدود کر کے مصروف کر لیا۔اس سے پہلے میں نے ہمیشہ پیشہ ورانہ زندگی گزاری تھی۔لیکن پچھلے دو سال سے گھر میں ہی تھی۔ایک اچھی بیوی اور ایک مثالی ماں بننے کی کوشش میں۔میں خود فراموشی کے اس دور سے گزر رہی تھی جہاں میں نے اپنی ہر پسند نا پسند کو پس پشت ڈال دیا تھا۔دالان کے کافی ٹیبل کو صاف کرتے ہوئے میں اپنے فون کی گھنٹی سن کر چونک گئی۔اور اپنے خیالات کی دنیا سے باہر نکلی۔لائن پر میری پیاری سہیلی رضوانہ تھی۔وہ مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ آپ خواتین کے ایک سہ روزہ ٹرپ پہ چلیں گی؟تین دن؟۔۔۔۔بچوں اور شوہر کے بغیر۔۔۔؟
میں کبھی گئی تو نہیں۔۔۔لیکن چلو میں آپ کو دس منٹ میں فون کر کے بتاتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔
یہ کہ کر میں نے اپنے، بچوں، شوہر اور مصروفیات کے بارے میں سوچا۔اپنی یکسانیت سے دوچار زندگی پر نظر ڈالی اور اپنے شوہر نامدار سے جانے کی اجازت طلب کر لی۔
اجازت مل بھی گئی اور میں نے رضوانہ کو فون کر کے ہاں کہ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد بچوں اور شوہر کی طرف سے نہ جاؤ نہ ہمیں چھوڑ کےِ کی گردان شروع ہو گئی۔ لیکن میں چونکہ ہاں کر چکی تھی، اب اسکو نہ میں بدلنا اتنا آسان نہیں تھا۔
یہ سوموار چار اکتوبر کا دن تھا جب رضوانہ نے مجھے فون کیا تھا۔گروپ ٹور کی روانگی ۸ اکتوبر بروز جمعہ تھی۔درمیان میں ابھی تین روز باقی تھے۔ان تین دنوں میں شوہر نامدار کی طرف سے ہر طرح کے لالچ اور ڈراوے دیے گئے۔تم اس ٹور کو چھوڑو ہم کروز ٹرپ پہ چلتے ہیں اگر چاہو تو بچوں کو بڑی بیٹی کے حوالے کر کے صرف میں اور تم۔۔۔۔۔۔ تمہارا ادھر میرے بغیر دل نہیں لگے گا تم ہمارے بغیر کبھی گئی نہیں ہو۔تم بوریت کا شکار ہو جاؤ گی۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔شوہر کی باتوں کو جھٹکا تو بچوں کی باری آئی آ کر کہنا شروع ہو گئے۔
اماں ہمیں چھوڑ کر کہاں جا رہی ہیں؟؟
ہمیں کھانا کون دے گا؟؟
آپ کے بغیر دل کیسے لگے گا۔؟؟ہمیں بھی ساتھ لے چلیں۔۔
جاری ہے۔۔۔۔
سفر نگار شہلا ٹور پر گئی یا نہیں یا پھر شوہر اور بچوں کے بہلاوے میں آکر گھر پہ ہی رک گئیں یا پھر انکے ساتھ سیر پہ نکل گئیں۔۔ یہ سب جاننے کے لیے اور
اگلا حصہ ملاحظہ کرنے کے لیے وزٹ کرتے رہیں اردو فلک ڈاٹ نیٹ کے
صٖفحات پر سیر و سیاحت کا حصہ۔۔۔۔۔