علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سابقون الاولون میں سے ہیں۔آپ رضی اللہ عنہ ان ہستیوں سے ہیں جنہیں حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اسلام کی دعوت دی۔ ابتدائی پانچویں یا چھٹے اہل حق میں ان کا شمار ہوتا ہے۔تیسرے خلیفہ راشد ہیں ذوالہجرتین ہیں۔
عشرہ مبشرہ:نور مجسم شفیع روز محشر حضور اکرم ﷺکی طرف سے جتنی بشارتیں جنت کی انہیں ملیں بہت کم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے حصہ میں آئیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے۔
شرم و حیات کے پیکر:آپ رضی اللہ عنہ شرم و حیا کے پیکر تھے جس کی وجہ سے انسان اور فرشتے دونوں آپ رضی اللہ عنہ سے حیا کرتے تھے۔
امام بخاری و مسلم رحمۃ اللہ علیہما حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آتے تو حضور اکرم ﷺ اپنے تمام کپڑے سمیٹ لیتے اور فرماتے میں اس شخص سے کیوں حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔
مشابھت:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام سے بہت مشابہ پاتے ہیں۔
ذوالنورین:سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ وہ خوش نصیب انسان ہیں جن کے نکاح میں اللہ تعالیٰ کے کسی نبی و پیغمبر کی دو بیٹیاں یکے بعد دیگر ے آئی ہوں۔حضور اکرم ﷺ نے اپنی بیٹی حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے کر دیا جب وہ وفات پاگئیں تو آپ ﷺ نے اپنی دوسری بیٹی حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح بھی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کر دیا۔اس موقع پر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:”کہ یہ جبریل علیہ السلام ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔میں اپنی دوسری بیٹی کا نکاح بھی عثمان غنی سے کردوں۔حضور اکرم ﷺ کی دوبیٹیوں کے ساتھ نکاح کی وجہ سے آپ کو ”ذوالنورین“ دو نوروں والا کہا جاتا ہے۔
ذوالہجرتین:معززقارئین! بنت رسول ﷺ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا رشتہ کیا ہوا قریش اور خاندان والے دشمنی میں اور سخت ہو گئے آخر مجبور ہو کر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے قبول اسلام کے پانچویں برس حبشہ کی جانب ہجرت کی۔یہ مختصر سا قافلہ گیارہ (۱۱)افراد پر مشتمل تھا۔جس میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور ان کی زوجہ محترمہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بھی شامل تھیں۔ اس موقعہ پر اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہواتھا۔ حضرت لوط علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد یہ پہلا جوڑا ہے جس نے راہ خدا میں ہجرت کی۔”ذوالنورین“ کی راہ حق میں ہجرت کو اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ نے دو پیغمبروں سے نسبت دی یہ دو کا عدد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی زندگی میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی طرف فرمائی۔
جامع القرآن:حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قرآن کی تدوین کی اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ایک قرأت پر مسلمانوں کو جمع کیا سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ حافظ قرآن،جامع القرآن اور ناشر القرآن بھی ہیں۔
جنت کے ساتھی:ایک موقع پر حضور رحمت عالم ﷺ نے فرمایا جنت میں ہر نبی کا ایک ساتھی و رفیق ہوتا ہے۔میرا ساتھی جنت میں عثمان غنی ہو گا۔
حضور اکرم ﷺ کی آنے والے فتنوں سے آگاہی فرمانا اور حضرت عثمان غنیرضی اللہ عنہ کا خلعت خلافت کی حفاظت کرنا:حضرت مرہ بن کعب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے فجر کی نماز کے بعدصحابہ کرام سے خطاب فرمایا اس خطاب مبارکہ میں زیادہ تر آنے والے زمانے کے فتنوں کا ذکر تھا۔ اتنے میں ایک شخص مسجد نبوی میں داخل ہوا یہ سرتا پا چادر میں لپٹا ہوا تھا چادر کی وجہ سے اس کا چہرہ صاف نظر نہیں آ رہا تھا حضور اکرم ﷺ کی اس پر نظر کرم پڑی۔تو ارشاد ہوا۔اس دور فتنہ میں یہ شخص حق پر ہو گا حضرت مرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے بڑھ کر اس آدمی کے چہرہ سے چادر اُٹھائی اور ان کا رخ حضور اکرم ﷺ کی طرف کرتے ہوئے عرض کیا۔یا رسول اللہ ﷺ!یہ عثمان ابن عفان ہیں۔مخبر صادق ﷺ نے فرمایا۔”میں جانتا ہوں۔“ اس طرح کی روایات حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے آزاد کر دہ غلام حضرت ابو سہلہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن حضور اکرم ﷺ ان سے آہستہ آہستہ باتیں فرما رہے تھے ایک رنگ آپ ﷺ کے چہرہ اقدس پر آتا اور ایک رنگ جاتا تھا۔
خیال ہے کہ حضور اکرم ﷺ انہیں فتنوں سے مطلع فرما رہے تھے ایک موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ اللہ تعالیٰ ایک خلعت پہنائے گا۔ لوگ اسے اتارنے کی کوشش کریں گے اسے کبھی نہ اتار نا تا آنکہ میرے پاس جنت میں پہنچ جاؤ۔ اس ارشاد نبوی ﷺ کا مطلب اس وقت سمجھ میں آیا جب بلوائیوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو خلافت سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے جان دیدی لیکن خلافت نہیں چھوڑی۔یہ در اصل اس وعدہ کا پاس تھا جو اللہ کے رسول ﷺ سے کیا تھا و ہ خلعت یہی خلعت خلافت تھی۔
حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ کی سخاوت اور خدمت اسلام:حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اعلیٰ سیرت و کردار کے ساتھ ساتھ اپنی ثروت و سخاوت میں مشہور اور بے مثال تھے۔اسلام کی سر بلندی اور مسلمانوں کی راحت و آسائش کے لئے آپ رضی اللہ عنہ نے بے دریغ اپنی دولت خرچ کی اور رسول اللہ ﷺ سے بہت بشارتیں،دعائیں اور آخرت کی نجات و فلاح کی ضمانتیں حاصل کیں۔
سب سے پہلے وقف حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں عمل میں آیا وہاں میٹھے پانی کا ایک ہی کنواں تھا جو مسجد نبوی ﷺ سے دو میل کے فاصلے پر تھا (کنواں) بیئر رومہ کے نام سے مشہور تھا۔اس کا مالک ایک یہودی تھا جو پانی بیچا کرتا تھا۔مفلس مہاجرین کے لئے بڑی مشکل تھی یہ دیکھا تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے منہ مانگے داموں پر وہ کنواں خرید لیا اور عام مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا اور ایک اور کنویں ”چاہ اریس“ سے آپ رضی اللہ عنہ کو نسبت خاص ہے اس کنویں پر بیٹھ کر مخبر صادق ﷺ نے حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو جنت کی بشارت دی تھی۔یہ دو فیض جاریہ کے کنویں نور کی دھاریں ہیں جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے نسبت رکھتے ہیں۔
عہد نبوی ﷺ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے دو عظیم المرتبت مسجدوں کی تعمیر میں حصہ لیا۔پہلے وہ مسجد جس کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ پہلے ہی دن اس کی اساس تقویٰ پر رکھی گئی یہ مسجد قبا تھی۔حضور اکرم ﷺ کے بعد حد بندی کے پتھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے رکھے۔دوسری وہ مسجد ہے جہاں ایک نماز کا ثواب پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اس مسجد نبوی کی وسعت میں بھی ”ذوالنورین“ نے دو بارہ حصہ لیا۔
ایک بار اس وقت جب زبان نبوی ﷺ سے ارشاد ہوا تھا کہ کون ہے جو اس مسجد سے ملحقہ زمین خرید کر ہماری مسجد کے لئے وقف کر دے تاکہ اللہ تعالیٰ اسے بخش دے۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مالک زمین سے منہ مانگے داموں زمین خریدی اور وقف کر دی۔
جنگ تبوک (جیش عسرت) کے لئے امداد کی فراوانی:جنگ تبوک کے موقع پر حضور اکرمﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس جنگ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب فرمائی اس موقع پر صدق و وفا کے پیکر خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گھر کا تمام سامان اور مال و اسباب اور خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نصف مال لا کر حضور اقدس و اکرم ﷺکے قدموں میں نچھاور کر دیا۔
ایک روایت کے مطابق اس موقع پر سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار اونٹ،ستر گھوڑے اور ایک ہزار اشرفیاں جنگ تبوک کے لئے اللہ تعالیٰ کے راستے میں دیں حضور اکرم ﷺ منبر مبارک سے نیچے تشریف لائے اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سخاوت سے اس قدر خوش ہوئے کہ حضور اکرم ﷺ اپنے دست مبارک سے اشرفیوں کو الٹ پلٹ کرتے اور فرماتے کہ:ما ضر عثمان ما عمل بعد ھٰذ الیوم۔یعنی آج کے بعد عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا کوئی کام اس کو نقصان نہیں پہنچا ئے گا۔ 30ہزار کا لشکر تبوک روانہ ہو گیا اس کے بعد رسد کا انتظام بڑا مشکل کام تھا راستے میں خور دونوش کی کمی ہو گئی۔ادھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے غلہ کے آنیوالے کا روانوں کو حکم بھیجا کہ اس کو لے کر تبوک کی طرف چل پڑو۔ عین بھوک و پیاس کی شدت میں اس قافلے کی آمد ہوئی۔رسول اللہ ﷺ نے دیکھا تو فرمایا مسلمانو! سرخ اونٹ تمہارے لیے سامان رسد لا رہے ہیں جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ملکیت کے یہ اونٹ خورد و نوش کا سامان لے کر قریب پہنچے تو اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ نے بے اختیار دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیے اور دو تین مرتبہ فرمایا ”اے اللہ! میں عثمان سے خوش ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا۔“ پھر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ تم بھی عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں دعا کرو۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو35ہجری ذی القعدہ کے پہلے عشرہ میں باغیوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کیا حافظ عماد الدین نے ”بدایہ والنہایہ“ میں لکھا ہے کہ باغیوں کی شورش میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے صبر و استقامت کا دامن نہیں چھوڑا۔محاصرہ کے دوران چالیس روز تک آپ رضی اللہ عنہ کا کھانا اور پانی باغیوں نے بند کر دیا اور 18ذوالحجہ کو چالیس روز سے بھوکے پیاسے 82سالہ خلیفہئ سوم ذوالنورین سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو جمعۃ المبارک کے دن قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے روزہ کی حالت میں انتہائی بے دردی کیساتھ شہید کر دیا گیا۔
آپ رضی اللہ عنہ نے12دن کم 12سال حکومت کی۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سیرت و کردار کے مختلف پہلوؤں پر عمل کر کے آج کے حکمران عبادت گزار،خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والے حضرات، سخاوت کرنے والے عشق رسول ﷺ اور محبت رسول سے راہنما ئی حاصل کر کے اپنی زندگی کو کامیاب و کامران بنا سکتے ہیں۔
زاہد مسجد احمدی پر درود دولت جیش عسرت پہ لاکھوں سلام
یعنی عثمان صاحب قمیص ہدیٰ حلہ پوش شہادت پہ لاکھوں سلام