خوابوں کو لکھنا آسان کہاں ہوتا ہے…

Tabassum Fatima1(”عبید الرحمن صدیقی کی کتاب غازیپور بنام گادھی پوری: ایک جائزہ” کا مختصر جائزہ)
—تبسم فاطمہ
خوابوں کو لکھنا آسان نہیں ہوتا۔ شاید اسی لیے پنجابی شاعر اوتار سنگھ پاش کو کہنا پڑا تھا۔
”سب سے خطرناک ہوتا ہے
ہمارے خوابوں کا مرجانا”
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مسلسل کانٹوں پر چلتے ہوئے زخموں کی پرواہ نہیں کرتے اور برے موسم میں بھی حق کا دامن نہیں چھوڑتے— اس پر آشوب موسم اور زہریلی فضا میں ایسے لوگوں کو سلام کرنے کو دل چاہتا ہے۔ عبیدالرحمن صدیقی ایسے ہی لوگوں میں شامل ہیں جو بے خوف وخطر آتش نمرود میں کودنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ دراصل اس دیوانگی کے پیچھے عشق کے جنون کا ہاتھ ہوتا ہے۔ عبیدالرحمن صدیقی کے لیے یہ جنون ہے ان کا شہر غازیپور— عبیدالرحمن صدیقی کی پیدائش غازیپور میں آزادی کے ١٧ برس بعد ہوئی لیکن آزادی کے ١٧ برس بعد بھی غلام ہندوستان کا زخم تازہ تھا۔ غلامی اور تقسیم سے پیدا شدہ آگ نے غازیپور کو بھی جھلسایا تھا۔ اور صرف جھلسایا ہی نہیں تھا بلکہ ایک مہذب شہر کو فرقہ پرست بھیڑیوں نے تشدد کی آگ میں جھونکنے کا بھی کام کیا تھا۔ آزادی کے بعد ہندوستان میں اعظم گڑھ سے لے کر غازیپور تک اس لیے بھی فرقہ پرستوں کے نشانے پر رہے کہ یہاں کی ملی تہذیب اور یہاں کی سیکولر فضا دشمنوں اور فرقہ پرستوں کو راس نہیں آرہی تھی۔ اور اس لیے بقول عبیدالرحمن … ”تقریبا ٥٠ سالوں سے مسلسل غازیپور کے انتہا پسند ہندوئوں کا ایک طبقہ غازیپور کا نام بدل کر گادھی پوری ،گادھی پورم وغیرہ کرنے کی کوششوں میں مصروف رہا اور باقاعدہ عوام الناس میں اسے رائج کرنے کے لیے چوراہوں، میلوں، جلوسوں، سیمناروں میں منظم طور پر پروپیگنڈہ کرتا رہا۔اپنے عقیدہ کو تاریخ کی شکل دینے کی کوششوں کے تحت جم کر تاریخ کی کتابوں سے کھلواڑ کرنے کا کام ہوتا رہا۔اور یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا کہ سلطان ابراہیم لودی کے زمانہ میں غازیپور کے عامل نصیر خاں لوہانی کا بنوایا ہوا پرانہ قلعہ اسی جگہ پر ہے، جہاں کئی ہزار سال پہلے راجہ گادھی کی نگری کا قلعہ تھا۔ ان لوگوں کا یہ الزام ہے کہ غازیپور کے بانی امیر مسعود نے تلوار کے زور پر گادھی پوری سے شہر کا نام غازیپور کیا، جبکہ حقیقت اور ہی ہے۔ لہذا اس حقیقت کو منظر عام پر لانے کے لیے مسلسل چھ سال تلاش وجستجو اور تحقیق کے بعد یہ مقالہ منظر عام پر آسکا۔ ”
معاملہ صرف مقالہ یا کتاب لکھنے کی حد تک ہوتا تو کوئی بات بھی تھی۔ یہاں تو معاملہ اس فرقہ واریت اور تشدد کا تھا، جسے آسان ہتھیار کے طورپر دشمن استعمال کرتے رہتے ہیں۔ اور عبید الرحمن جیسے جیالے ‘کہتاہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق’ پر قائم رہتے ہوئے، جنون اور دیوانگی میں وہ معرکہ بھی سر کر آتے ہیں جس کی نظیر مشکل سے ملتی ہے۔ ذرا تصور کیجئے، ایک پوری زندگی اس سچ اور خواب کے نام کردینا کیا آسان ہوتا ہے، جس پر نہ کوئی تحفہ ملنے کی امید ہو نہ انعام اور صرف اس لیے کہ— پہنچی وہیں پے خاک جہاں کا خمیر تھا— یہ مٹی کی محبت اور کرامت تھی کہ دشمنوں کے ہر حربے، ہر منصوبے کو غلط ٹھہراتے ہوئے عبیدالرحمن صدیقی نے اس کتاب کو لکھنے کا فیصلہ کیا۔ اور اس درمیان نہ ان کے پاس گھر کے لیے وقت رہا اور نہ بچوں کے لیے اور جیسا کہ وہ اپنی کتاب کے شروع میں لکھتے ہیں۔
‘یہ کتاب بیٹی زیبا کے نام ہے، جسے بچپن میں ایک باپ کے ہونے کا احساس نہ دے پایا۔ اس لیے کہ غازیپور کی تاریخ لکھنے میں مصروف رہا۔’
غازیپور کے ساتھ نا انصافی کرنے، اور تاریخ کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے لوگوں کے لیے یہ کتاب ایک ایسا منہ توڑ جواب ہے، جس کی گونج گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتی جائے گی۔ یہ کتاب ان فرقہ پرست عناصر کے منہ پر طمانچہ ہے جو مسلمانوں کی روشن تہذیب کو دھول میں ملا دینے کی سازش کررہے ہیں۔ اور بھول گئے ہیں کہ مسلمان اپنے روشن ماضی اور تاریخ کو کس قدر سنبھال کر رکھتا ہے اور اسے بدلنے کا حق کسی فرقہ پرست عناصر کو نہیں دیتا۔ میں حق کی آواز بلند کرنے اور اس قومی و مثالی جذبے پر عبیدالرحمن صدیقی کو مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ مجھے یقین ہے، وہ آئندہ بھی اپنا سفر قائم رکھیں گے۔
tabassumfatima2020@gmail.com

اپنا تبصرہ لکھیں