خواب بننے والے ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ڈاکٹر ستیہ پال آنند جو ایک پُراسرار شخصیت کے طور پر اُبھرے، انہوں نے لکھنے کے لیے اردو کو اپنی آبائی زبانوں ہندی اور پنجابی پر ترجیح دی اور غیر ملکی یونیورسٹیوں میں انگریزی کی تدریس کی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’’اردو زبان میری ثقافت کا حصہ ہے اور میں اسے اپنے اظہار کا ذریعہ بناکر اطمینان محسوس کرتا ہوں۔انگلش میری تدریسی، تعلیمی اور تربیت کی زبان ہے۔ میں نے شاعری میں غزل سے زیادہ نظم کو ترجیح دی ہے۔ غزل خاصی غیر متغیر ہے اور اس کے موضوعات قرونِ وسطیٰ کے دور کی محبت تک محدود ہیں۔اس میں روزمرّہ کی زندگی اور اس کے حقائق کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔‘‘

معروف شاعر گلزار نے ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے بارے میں کہا تھا کہ وہ اپنی تحریروں میں بیک وقت خلا میں اور زمین پر رہتے ہیں۔

یہ مصنف اپنا دفاع اس وضاحت کے ذریعے کرتے ہیں کہ زیادہ تر لوگ کٹر حقیقت پسند ہوتے ہیں اور صرف دنیا کی تلخ حقائق کے بارے میں سوچتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’’ایک جانب میرے تصورات اور احساسات کے بارے میں ہیں اور میں نے اپنی شاعری میں انہیں تلخ اور ٹھوس حقائق کے ساتھ اکھٹا کردیا ہے۔‘‘

مثال کے طور پر ایک طویل نظم بیاضِ عمر ایک سوانح عمری سے بڑھ کر ہے، جس میں انہوں نے اپنا تجزیہ کیا ہے، جس میں خوشی، درد اور اداسیوں کی عکاسی کی گئی ہے۔

یہ ایک خود کو ایک آزاد انسان کے طور پر دیکھنے کی جدوجہد سے شروع ہوتی ہے جو بلندیوں کے سفر پر ہے، جہاں اس سے پہلے کوئی بھی نہیں پہنچا ہے اور حسن کی تلاش میں غیر مفتوحہ علاقوں میں۔

تقابلی ادب کے پروفیسر ہونے کے ناطے انہیں سات یورپی زبانوں کی اساس کو پہچاننے کا موقع ملا۔

وہ کہتے ہیں ’’میں ان کی گہرائی کا اندازہ کرسکتا ہوں اور انہیں اردو، فارسی، عربی، ہندی اور سنسکرت کے ادب کے دائرے میں شامل کرسکتا ہوں۔‘‘

ڈاکٹر آنند کہتے ہیں کہ اردو محض ایک زبان ہی نہیں ہے، بلکہ یہ برّصغیر میں بسنے والے لوگوں کا ایک مشترکہ ورثہ ہے۔ یہ ہندوستان کی مقامی اور اسلام کے ساتھ آنے والی دونوں ثقافتوں کی آمیزش سے تیار ہوئی ہے۔

اردو میں مختلف اندازِ تحریر عموماً جداگانہ ہے پھر بھی یہ دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں ہندی کی بہ نسبت زیادہ اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

اگرچہ ایک زرخیز مصنف شاعری کو ترجیح دیتا ہے کہ یہاں اس کو اظہار کے زیادہ وسیع مواقع میسر آتے ہیں۔

نثر طوالت کی وجہ سے اکتاہٹ پیدا کردیتی ہے، دوسری جانب شاعری میں پختگی، جامعیت اور موسیقیت ہوتی ہے۔

ڈاکٹر آنند کی وضع کردہ ہر ایک سطر کو قاری علیحدہ علیحدہ یاد رکھ سکتا ہے۔ جو کچھ کہا جارہا ہے اور جو کچھ سمجھا جارہا ہے، اس میں کوئی وقفہ نہیں ہے۔

پچھلے پانچ سالوں کے دوران انہوں نے چھ سو سے زیادہ نظمیں سادہ مصرعوں میں لکھی ہیں۔ یہ انہیں سکون اور اظہار کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔ اس میں قافیوں کی پابندی نہیں ہے۔ ان نظموں میں پیغمبرِ اسلام حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی شان میں کہی گئیں ایک درجن سے زیادہ نظمیں شامل ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’’ایک متقی مسلمان کے لیے محمد رسول اللہ ﷺ جس قدر عظیم پیغمبر ہیں، اس سے کہیں زیادہ وہ میرے لیے عظیم پیغمبر ہیں۔‘‘

ڈاکٹر ستیہ پال آنند تقسیم سے قبل چکوال میں مقیم تھے۔ انہوں نے 1999ء میں اپنی جائے پیدائش کا دورہ کیا تھا اور اپنے احساسات کو ان الفاظ میں بیان کیا تھا کہ جیسے اپنی ماں سے بچھڑ جانے والا بچہ طویل عرصے بعد دوبارہ اپنی ماں سے آن ملا ہو۔

انہوں نے راولپنڈی کے اسکول میں تعلیم حاصل کی تھی، لہٰذا وہ وہاں بھی گئے، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے دیگر بڑے شہروں کا دورہ بھی کیا۔

ڈاکٹر آنند نے بتایا ’’یہ علاقہ تہذیب کا گہوارہ تھا۔ ہڑپّہ، گندھارا کی پٹی اور موئن جو درڑو کے ساتھ آریاؤں اور بدھ مت کے قبائل بھی یہاں آباد تھے۔ ہندوستان میں اسلام کی آمد سے ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کی مشترکہ تہذیب نے جنم لیا۔‘‘

گوکہ ڈاکٹر آنند نے اپنی کم سنی میں ہی لکھنا شروع کردیا تھا، تاہم ان کی پہلی کتاب 1952ء میں شایع ہوئی، جب وہ اکیس برس کے تھے۔

ان کے خاندان نے تقسیم کے وقت ہندوستان نقل مکانی کی، جب وہ سولہ برس کے تھے۔یہ عمر ایسی ہوتی ہے کہ جب زندگی کی ذمہ داریوں کا بوجھ سر پر نہیں ہوتا۔ لیکن نوجوان آنندپر پڑنے والی ذمہ داریوں نے ان کی زندگی کو تلخ بنادیا تھا۔ ان کے والد تقسیم کے فسادات میں نقل مکانی کے دوران قتل کردیے گئے تھے۔ ان پر اپنی بیوہ ماں اور تین کم سن بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داریاں آن پڑی تھیں۔

وہ کہتے ہیں کہ زندگی نے ان کے ساتھ دھوکہ دیا اور ان کی جوانی کو ان سے چھین کر انہیں پریشانیاں دے دیں۔

لیکن سخت جدوجہد کے دوران انہوں نے مشکل حالات کو بھلادیا، انہوں نے مزید کوشش کی، جس سے انہیں فرحت کا احساس ہوا۔

ڈاکٹر آنند نے بتایا ’’چنانچہ میں لکھتا گیا اور لکھتے لکھتے ایک زرخیز ناول و افسانہ نگار اور شاعر بن گیا۔ اگرچہ شاعری سے مجھے کچھ خاص آمدنی نہیں ہوئی، پھر بھی یہ میری پہلی محبت تھی اور میں آج بھی اس سے وابستہ ہوں۔ لیکن نثر نگاری سے مجھے فائدہ پہنچا اس لیے میں نے اس پر توجہ مرکوز کی۔‘‘

انہوں نے بتایا ’’میرے افسانوں کے چار مجموعے شایع ہوچکے ہیں، جس میں نوّے افسانے شامل ہیں۔ چار ناول، اردو شاعری کی تیرہ کتابیں اور نو انگریزی نظموں پر مشتمل کتابیں شایع ہوئی ہیں۔‘‘

اس کے ساتھ ساتھ کچھ ہندی اور پنجابی میں ہیں، لیکن یہ محض اردو اور انگلش سے نکل کر گویا زبان کا ذائقہ بدلنے کے لیے کیا۔ میری بنیادی محبت اب بھی اردو کے ساتھ برقرار ہے۔‘‘

ان کے ماضی کا ایک واقعہ جو ان کے ذہن پر نقش ہوگیا ہے، پر مبنی ایک ناول چوک گھنٹہ گھر ہے، جسے ڈاکٹر آنند نے 1957ء کے دوران لدھیانہ میں تحریر کیا تھا۔

اس ناول کا مرکزی کردار کوئی انسان نہیں بلکہ ایک گھنٹہ گھر ہے اور ناول میں اس کے اردگرد ہونے والے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔

ہندوستانی حکومت نے سمجھا کہ اس میں بائیں بازو کا ایک پیغام ہے۔

چنانچہ اس کتاب کے بک شاپس پر پہنچنے کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اس پر پابندی لگادی گئی اور ڈاکٹر آنند کو پولیس نے پکڑ لیا لیکن وہ ان سے بچ نکلنے میں کامیاب رہے اور جیل سے فرار ہوگئے۔

ستیہ پال آنند کہتے ہیں کہ ’’حکومت نے بعد میں یہ پابندی اُٹھالی، لیکن اس سے ذہن پر بہت بُرا تاثر پڑا۔‘‘

بعد میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے امریکا چلے گئےاور وہیں آباد ہوگئے۔

ان کے ساتھی اور طالبعلم انہیں ’ایئرپورٹ پروفیسر‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ وہ اس سے خوش تو نہیں ہیں، تاہم وہ وضاحت کرتے ہیں کہ انہیں یہ عرفیت کیسے ملی۔

جب انگریزی ادب سے تقابلی ادب کے شعبے کے یونیورسٹی پروفیسر بن گئے، جس کی انہیں مہارت حاصل تھی اور جس میں دیگر ادب اور زبانوں کی شاخیں بھی شامل تھیں۔

تو اس کے بعد یورپ، امریکا اور کینیڈا کی یونیورسٹیوں نے نصاب کی منصوبہ بندی اور اس کی تیاری کے لیے انہیں بطور وزیٹنگ پروفیسر باقاعدگی کے ساتھ مدعو کرنا شروع کردیا۔

انہوں نے وضاحت کی ’’ان دوروں نے مجھے اپنے کندھوں پر علم و دانش کا بوجھ اُٹھانے کے قابل بنایا۔ان تعلیمی اداروں، اساتذہ اور یورپ کے مصنفین نے میرے علمی افق کو وسیع کردیا۔‘‘

اب وہ ریٹائیرڈ لائف گزار رہے ہیں اور پچھلے بیس سالوں سے واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ہے۔ وہ یورپ کا سالانہ وزٹ کرتے ہیں، جہاں وہ لیکچرز دیتے ہیں اور سیمیناروں میں شرکت کرتے ہیں۔ ان کا بیشتر وقت لندن میں یونیورسٹیوں کے ساتھ کام کرتے گزرتا ہے۔ کچھ وقت انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔

ڈاکٹر ستیہ پال آنند رات گئے لکھنا پسند کرتے ہیں، جب ساری دنیا خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی ہوتی ہے۔ اس وقت ان کے ساتھیوں میں ایک ٹیبل لیمپ اور ایک کمپیوٹر ہوتاہے۔

’’نیند یقیناً ایک بہت اچھی چیز ہے، لیکن مجھے اس کی کمی کی شکایت نہیں ہوتی، میرے لیے تین سے پانچ گھنٹوں کی نیند کافی ہے۔ میں صبح سویرے بیدار ہوجاتا ہوں اور کافی کے ساتھ خود کو تازہ دم کرتا ہوں اور اس کے بعد میرے معمول کے کام شروع ہوجاتے ہیں۔‘‘

وہ عصرِ حاضر کے نوجوان مصنفین کے بارے میں خاصے پُرامید ہیں، اس لیے کہ وہ اپنے اردگرد کے حقائق کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں، خاص طور پر سیاسی و اقتصادی لحاظ سے، اور وہ اپنی تحریروں میں ان سے نمٹنے کی جانب زیادہ مائل ہیں۔

حال ہی میں ان کا کراچی کا وزٹ ان کے مصروف دوروں میں سے ایک تھا، جس میں انہوں نے بڑی تعداد میں کانفرنسوں میں شرکت کی، جن میں عالمی اردو کانفرنس کے ساتھ ساتھ انجمن ترقی اردو کانفرنس بھی شامل تھی۔

ان کی زندگی دلچسپ واقعات سے بھری پڑی ہے، چنانچہ ڈاکٹر آنند نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنی سات برسوں کی یادداشتوں کو قلمبند کریں گے۔

انہوں نے کہا ’’اپنے بارے میں لکھنا کافی مشکل کام ہے۔ زیادہ تر لوگوں نے آئندہ نسلوں کے لیے خودستائشی کی۔ میں نے اس سے گریز کرتے ہوئےاپنے ادبی دوستوں پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔ مثلاً ناول و افسانہ نگار کرشن چندر، ترقی پسند اندازِ تحریر کے شاعر اندر سنگھ بیدی اور اختر رحمان، ڈاکٹر وزیر آغا، جمیل الدین عالی اور بہت سے دوسرے جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔‘

Klikk her
اپنا تبصرہ لکھیں