Imran Junani
خواب جس کے دیکھ کر صدقے واری ہو گئے
درحقیقت پایا تو سکتے طاری ہو گئے
جس ہنسی میں نقرئی گھنٹیاں سی بجتی تھیں
قہقہے وہ پاس آکر آہ و زاری ہو گئے
ہر طرف آنگن میں ضوفشاں شعائیں تھیں
اس نے پیسے کیا مانگے سوگواری ہو گئے
آنکھوں نے آنکھوں کا اک اشارہ نہ سمجھا
رقیب رو سیاہ جو آیا وار کاری ہو گئے
چودھری کی منجھلی بیٹی حساب لینے نکلی ہے
ایرے غیرے نتھو خیرے بڑھ کے ہاری ہو گئے
نیم نابینا انکل میری سائیکل لے کر نکلے تھے
پہلے میل پہ بچے یتیم خود مزاری ہو گئے
کل کے بچے رفتہ رفتہ اماں ابا بن چکے
اس کی شادی کے قصے سوچ بچاری ہو گئے
آہوں اور سسکیوں میں سادگی کو دفنایا
چھوٹے چھوٹے خرچے بھی پنج ہزاری ہو گئے
دسترخوان پر جن کے مرغ دو اذانیں دیتا تھا
گرانی کا سیلاب چلا سبزی ترکاری ہو گئے
شیخ صاحب اک جنت کا ٹکٹ یہاں بھی پکڑانا
سنتے ہیں دوسرے فرقے کے سب بشر ناری ہو گئے
مٹھی گرم، جیب گرم، ڈیوٹی لگی لیاری میں
واہ سنتری جی راتوں رات سبزواری ہو گئے
آ اصلاح معاشرہ کی ہم بھی کچھ فکر کریں
دیکھو انڈیا میں کیسے کیسے انا ہزاری ہو گئے
اپنوں نے ہی لوٹ لیا غیروں کو تکلیف نہ دی
سب کے سب محسن تیرے تشنہ زرداری ہو گئے
Post Views: 172
This is a demo store for testing purposes — no orders shall be fulfilled. Dismiss