راجہ محمد عتیق افسر
اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات قرطبہ یونیورسٹی پشاور
03005930098, attiqueafsar@yahoo.com
سوشل میڈیا نے جہاں بات چیت کو آسان بنا دیا ہے وہیں اس نے زبان و قلم کو بے لگام بھی کر دیا ہے ۔ بلا سوچے سمجھے کسی بھی چیز کو نشر کر دینا روز کا معمول ہے ۔ کس بات کے کتنے اثرات ہوں گے اس سے کسی کو غرض نہیں ۔ سوشل میڈیا تو ایک طرف ہمارے سرکاری و نجی ذرائع ابلاغ بھی خبر کے نشر کرنے میں انتیائی جلد بازی سے کام لیتے ہیں اور بعض اوقات ایسا مواد نشر کر دیتے ہیں جو کسی طور بھی ہمارے قومی مفاد کے مطابق نہیں ہوتا بلکہ وہ قومی تشخص کو مجروح کردینے والا ہوتا ہے ۔ قومی معاملات ، ایام اور شخصیات کے حوالے سے مضحکہ خیز سوالات اور ان کے غیر سنجیدہ جوابات سے قومی تشخص کا مذاق اڑایا جاتا ہے ۔ اسی قسم کے سوال و جواب 23 مارچ کے حوالے سے نشر کیے گئے جن کے جوابات سن کر انتہائی افسوس ہوا ۔یہ جان کر نہایت ہی افسوس ہوا کہ لوگ اس دن کی اہمیت سے قطعا ً نا واقف ہیں ۔اسکے علاوہ ہمارا میڈیا اس دن کے حوالے سے جو معلومات عام کر رہا ہے وہ بھی اس دن کی اہمیت کو صحیح طور پہ اجاگر نہیں کر پاتیں ۔اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی اس سے صرف اس حد تک واقف ہیں کہ 1940 کو اسی دن لاہور میں مسلم لیگ کا جلسہ ہوا تھا جس میں ایک قرار داد منظور ہوئی تھی ۔اسی مناسبت سے اس دن کو یوم پاکستان کے طور پہ منایا جاتا ہے ۔ لیکن سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ قیام پاکستان سے قبل کئی یادگار جلسے ہوئے اور کئی جلسوں میں خون تک بہا لیکن انہیں اسطرح یاد نہیں کیا جاتا جیسے اس قرارداد والے جلسے کو یاد کیا جاتا ہے تو آخر اس جلسے اور اس قرارداد میں کیا خاص ہے ؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے اپنی روح کو ماضی میں لے جانا پڑے گا اور اس روح پرور جلسے کو چشم تصور سے دیکھنا اور محسوس کرنا ہوگا۔ یہ 22 مارچ 1940 ہےاور انگریز دور حکومت ۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمان آزادی کے لیے انگڑائی لے رہے ہیں ۔ 1930 کے خطبہ الہ آباد میں حکیم الامت مصور پاکستان علامہ محمد اقبال نے ایک آزاد مسلم ریاست کی منزل کی جانب راہنمائی کر دی تھی ۔ اسی طرح چودھری رحمت علی نے بھی 1933 میں مسلمانوں کی ریاست کا نظریہ پیش کر دیا تھا ۔ ان کے نظریے کے مطابق مسلمان جہاں جہاں اکثریت میں ہیں وہاں وہ اپنی ریاست قائم کریں ۔ اس کے لیے انہوں نے نام بھی تجویز کیے تھے ۔ برصغیر کے شمال مغرب میں جو ریاست انہوں نے تجویز کی تھی اس کا نام انہوں نے پاکستان تجویز کیا۔1930 سے 1940 تک مسلمانان ہند نے کوشش کی کہ انگریز نے نجات کی خاطر ہندوؤں کے برابر مساوی حقوق حاصل کر کے ملک کے طعل و عرض میں رہا جائے ۔ لیکن دوسری جانب ہندو عصبیت کھل کر واضح ہوتی چلی گئی ۔ بالآخر 37- 1936 کے انتخابات میں تو کانگرس کے بہروپ میں چھپی ہندو عصبیت کھل کر آشکار ہو گئی ۔ کانگرس نے وزارتیں بناتے ساتھ ہی جو اقدامات کیے ان سے واضح ہو گیا تھا کہ ہندوؤں کے زیر سایہ مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔ مسلمانان ہند کو پختہ یقین ہو گیا تھا کہ ان کی منزل اگر ہے تو ایک الگ ریاست کے حصول ہی میں ہے ۔ اسی مقصد کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس لاہور میں منعقد کیا گیا اور پورے ہند سے مسلمان اکابرین کو لاہور بلایا گیا تھا تاکہ مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اجلاس بہت اہم ٹھہرا اور ہندوستان کے مختلف علاقوں سے لوگ اس میں شرکت کے لیے آئے اور یہ ایک جلسہ عام کی شکل اختیار کر گیا ۔ جو لوگ سیاسی سوجھ بوجھ کے حامل تھے انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور دیگر انہماک سے سنتے رہے ۔ اس اجلاس میں مسلمانان ہند کی حتمی جہت کا فیصلہ کیا جانا تھا اس لیے یہ ہر خاص و عام کے لیے اہم تھا۔
اجلاس تین دن جاری رہا ۔ اس میں مسلمانوں کی آزادی کے لیے کئی حل پیش کیے گئے ۔ ہندوستانی مسلمانوں کی آزادی کے حوالے سے تقریباً9 نظریات پہ بات چیت ہوئی ۔ سنجیدگی سے غور و غوص کیا گیا اور نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کی گئی ۔ 22مارچ کو جلسہ شروع ہوا ، 23 مارچ کو شیر بنگال مولوی فضل حق نے قرارداد پیش کی اور 24 مارچ کو اس قرارداد کو منظور کر لیا گیا ۔ چونکہ یہ اجلاس لاہور میں منعقد کیا گیا تھا اس لیے اسے قرارداد لاہور قرار دیا گیا ۔ اس قرارداد کے مطابق مسلمانان ہند کے لیے انگریزوں اور ہندوؤں سے آزادی حاصل کرنا ناگزیر قرار دیا اس مقصد کے لیے مسلم ہند کی دو ریاستیں قائم کی جائیں گی ایک مشرق میں اور ایک مغرب میں ۔ اس طرح اس جلسے نے مسلمانان ہند کے لیے جدوجہد کا ایک راستہ اور ایک سمت متعین کر دی ۔ اگر یہ کہا جائے کہ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد یہ مسلمانان ہند کا آزادی کی جانب ایک اہم سنگ میل تھا تو یہ بے جا نہ ہو گا۔ اس جلسے سے قبل مسلم لیگ کی قیادت مسلمانوں کے اجتماعی حقوق کے لیے کوشاں تھی لیکن اس اجلاس کے بعد قیادت سے کارکن تک سب شمع آزادی کے پروانے بن گئے ۔ اقبال ؒ نے آزادی کا جو خواب مسلمانان ہند کو دکھایا تھا اسے مسلمانان ہند نے اپنی منزل قرار دیا ۔ اب سب راستے سب قافلے آزادی کی جانب رواں دواں تھے ۔
اقبال ؒ جیسےمفکر نے آزادی کا خواب تو دکھلا دیا لیکن اس کی عملی تعبیر مسلم اکابرین کی نظر میں مختلف تھی ۔ کچھ داخلی خودمختاری پہ اکتفا کر رہے تھے کچھ مکمل آزادی کا خاکہ لیے ہوئے تھے ۔ کچھ لوگوں نے ایسا تصور بھی دیا کہ ہندو آبادی ایک جانب ہو جائے اور مسلم آبادی ایک جانب تاکہ دونوں ممالک اپنے طور طریقے سے آزادی کا بھرپور فائدہ اٹھا سکیں ۔ اس وقت جمیعت علمائے ہند کے اکابریں کانگریس کے طرز پہ ہندو مسلم مشترکہ آزادی کا راستہ دکھا رہے تھے ۔دوسری جانب کچھ مسلمان مفکرین پاکستان کی شکل میں مکمل دارالسلام کا نظریہ پیش کر رہے تھے ۔ مولانا مودودی نے بھی قائد اعظم کو ایک خاکہ پیش کیا تھا جس کے تحت 25 برس کا وقت دیا جائے جس میں ہندو آبادی ایک جانب اور مسلم آبادی ایک جانب منتقل ہو جائے ۔ اور اس عرصے میں مسلم قیادت کی اسلامی اصولوں پہ تربیت کر لی جائے تاکہ انگریز سے آزادی ملتے ہی یہ قیادت اسلامی تعلیمات کے مطابق ملک کا نظم و نسق قائم کر سکے جس کے لیے کئی نسلیں انتظار کر کے کھپ چکی تھیں ۔ان سب نظریات سے قطع نظر مسلم لیگ مسلم قومیت کے نظریے کی بنیاد پہ تقسیم پہ آمادہ ہوئی تھی ۔ مسلم لیگ آبادی کی نقل مکانی کی حامی نہ تھی بلکہ مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلم راج کی خواہاں تھی ۔ مسلم لیگی قیادت کے پیش نظر یہ تھا کہ مسلم اکثریت کے علاقوں پہ مسلم حکومت قائم ہو اور دیگر اقلیتیں ساتھ رہیں ۔ اسی طرح ہندو اکثریت کے علاقوں میں ہندو راج ہو اور دیگر اقلیتیں ساتھ رہیں ۔ اس طرح دونوں اقوام کو کارکردگی دکھانے کا موقع مل جائے گا۔بہر حال مسلمانان ہند کو نئی منزل کا نشاں مل گیا ۔ہر مسلمان نے اس نئے وطن سے امیدیں وابستہ کر لیں ۔ہر جانب ایک نعرہ گونجنے لگا ۔پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔لا الہ الا اللہ۔
اس قرارداد میں لفظ پاکستان کا تذکرہ نہیں تھا لیکن ہندو عصبیت نے آزادی ہند کے اس فیصلے میں مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کو ہر گز قبول نہ کیا اور اس قرارداد کا مذاق اڑایا ۔ ہندو اخبارات نے اس فیصلے کو چودھری رحمت علی کے نظریے کے ساتھ جوڑا اور یہ تاثر دیا کہ مسلمان ہندوستان کو تقسیم در تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور یہ پاکستان بنانا چاہتے ہیں ۔ ہندو عصبیت نے جب آزادمسلم وطن کواستہزائیہ انداز میں پاکستان قرار دیا تومسلمانان ہند نے بھی اپنی منزل مقصودکے لیے اسی نام کو اپنا لیا۔ہر مسلمان نے تہیہ کر لیا کہ بٹ کے رہے گا ہندوستان لے کے رہیں گے پاکستان ۔ 1946 میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں اس قرارداد میں ترمیم کر کے مسلم ہند کی جگہ پاکستان کا لفظ باضابطہ شامل کر لیا گیا۔اسی طرح مشرق اور مغرب میں دو الگ الگ ریاستیں قائم کرنے پہ اتفاق ہوا تھا لیکن بعد میں 46- 1945 کے عام انتخابات میں بنگال میں مسلم لیگ نے وزارتیں قائم کیں تو اہل بنگال نے اصرار کیا کہ دو کے بجائےمشرق و مغرب میں ایک ہی ریاست قائم کی جائے ۔1946مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں بنگال کے منتخب وزیر اعلیٰ حسین شہید سہروردی کی تحریک پر قرارداد لاہور میں ترمیم کی گئی اور ایک ہی ریاست کے لیے جدو جہد کرنے پہ اتفاق ہوا ۔ اسطرح یہ قرارداد لاہور قرارداد پاکستان بن گئی۔
کہنے کو تو ایک جلسے میں پڑھی گئی قرارداد تھی جسے شرکائے جلسہ نے جذباتیت کے ساتھ منظور کر لیا لیکن حقیقت میں یہ خوابیدہص شیر کی بیداری کے لیے انگڑائی تھی ۔اقبال کے خواب کو تعبیر دینے کے لیے مصمم عہد تھا جو قوم نے باندھا بھی اور نبھایا بھی ۔ ایک نئی ریاست کے قیام کے لیے سنگ بنیاد رکھا گیا تھا جس کا کوئی تاریخی ، جغرافیائی ، نسلی وجود نہیں تھا ۔صرف لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر ایک ریاست کے قیام کا نہ صرف عزم کیا گیا بلکہ سات سال کی جدو جہد میں اسے دنیا کے نقشے پر قائم بھی کر کے دکھا دیا گیا ۔اس تناظر میں دیکھا جائے اور دل کی آنکھ سے دیکھا جائے تو یہ محض ایک قرارداد نہ تھی بلکہ شکست خوردہ اور زوال پزیر قوم کا وبارہ عروج کی طرف گامزن ہونے کا اعلان تھا ۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ نسل نو کو اس قرارداد کی حقیقت سے آگاہ کیا جائے اور انہیں باور کرایا جائے کہ پاکستان نامی جس درخت کی چھاؤں میں یہ نسل بیٹھی ہے اس کی جڑوں میں کتنی نسلوں کا خون شامل ہے ۔ لہذا اس کی بنیادوں پہ استہزاء کرنے کے بجائے اس کی مزید آبیاری کی ضرورت ہے تاکہ یہ سائے کے ساتھ ساتھ وہ پھل بھی دے سکے جس کے لیے اس کا بیج بویا گیا تھا۔