عورت کا تصور میرے لیے ایک پیا ری سعادت مند بیٹی ایک ذمہ دار شفیق ماں ایک محبت اور خلوص لٹا تی بہن اور ایک خیال رکھنے والی حسن و محبت سے آرا ستہ پیا ری بیوی ہے ہو سکتا ہے کسی کو میرے اس پیکر عورت پر اعترا ض ہو لیکن بحثیت صنف نا زک میں یہی کہوں گی کہ سوچ اپنی اپنی پسند اپنی اپنی، یہ سچ تو ہے کہ بعض ہٹلر قسم کی خواتین بھی اس معا شرے کا حصہ ہیںجنھوں نے بہت سے مردوں کا جینا حرام کیا ہے اس با رے میںکیا کہا جائے تا لی دونوں ہا تھوں سے بجتی ہے ہمارے سما ج میں خواتین سے نا روااور امتیازی سلوک اس قدربڑھا ہو ا ہے کہ اب یہ سب عام روٹین کا حصہ سمجھی جا تی ہے ایسے میں اگر کچھ خواتین اپنے حقوق وفرا ئض کے لیے آواز اٹھا تی ہیں ا تو وہ ان خاموش ظلم سہتی خواتین کی بھی تر جمانی کا فریضہ انجا م دے رہی ہو تی ہیں جنھیں او نچی آواز میں بو لنے کی اجا زت بھی نہیں جو ایک خاموش احتجا ج لیے گھر اور با ہر زندگی کی گا ڑی کھنیچ رہی ہیں ہما رے ہا ں توخواتین اپنے احتجا ج سے مکمل تو جہ نجانے کب حاصل کر پا ئیں لیکن روس کی خوش قسمت خواتین ما رچ میں ٹیکسٹا ئل کی محنت کش خو اتین نے ہڑ تا ل کر کے ایک انقلا ب کا آ غا ز کیا ان کے مطا لبا ت بڑ ی معمو لی نو عیت کے تھے انھو ں مطا لبہ کیا تھا کہ سہولتیں سب کے لیے ہو نی چا ہیے آ زادی را ئے کے ا ظہا ر کے مو اقع سب کو یکسا ں ملنے چا ہیی، انھی محنت کش خو ا تین کی جد وجہدسے ہم آ ہنگی ا تحادکے لیے پو ری د نیا میں یہ دن منا یا جا تا ہے ۔ ہم ایک تر قی یا فتہ دور کے با سی ہیں پو ری دنیا کی طر ح پا کستا ن میں بھی مختلف تنظیمو ں اور ادارو ں کی جا نب سے اس دن کی منا سبت سے احسا س اورآ گہی ا جا گر کر نے کی ایک منا سب کو شش کی جاتی ہے ۔
پا کستا ن میں آبا دی کے لحا ظ خو اتین آبا دی کا نصف ہیں ،لیکن اس کے با وجو د خو اتین کے حقو ق ادا نہیں کیے جا تے عو رت سے حسن سلو ک کے با رے میں ہما رے مذ ہب میں بڑے وا ضع اندا ز میں بتا یا گیا ہے ۔ د ین اسلا م دنیا کا پہلا مذہب ہے جس نے خو اتین کے با قا عد ہ مہرمقر ر کئے اور ان کی ادائیگی پر زور دیا، ان کو جا ئیداد میں حق دار ٹھر ایا، مر داور عورتو ں کی تعلیم لا زمی کو قرار دیا ، ما ں کے قد مو ں تلے جنت رکھ دی ۔ جب یہ با ت ثا بت ہو چکی کہ اسلا م میں عو رتو ں اور مر دو ں کے با رے میں نقطہ نظر صحیح ہے اس کے با وجود آج بھی اسلا م پر یہ الزام ہے کہ اس نے عو رتو ں کو کم در جہ دیا یہا ں غلطی دین اسلا م میںنہیں بلکہ اسکے ما ننے وا لوں کی ذا تی مفا دات ہے ۔ ہم سب دین اسلا م کے پیرو کا رہیں لیکن جب خو اتین کے حقو ق کی با ت آتی ہے تو ہم مذ ہبی ا حکا مات کا خیا ل نہیں ر کھتے ۔یا د رہتا ہے تو یہ کہ مر د کے لیے اسلا م میں چا ر شا دیاں جا ئز ہیں اور جا ئیداد میں بیٹی کو جہیز کی صورت میں اتنا کچھ دے دیا گیا ہے کہ اب دینے کی گنجا ئش نہیں با قی دنیا کی نسبت ہما رے ہا ں ا س حوالے سے ز یا دہ تعصب پا یا جا تاہے ۔ مختلف رسم رواج کے نا م پر خو اتین کے استحصا ل کا سلسلہ جا ری ہے ۔ ہما رے ہا ں خو اتین پر مختلف طر یقو ں سے تشدد کا سلسلہ جا ری ہے ،کبھی انھیں کم جہیز لا نے پر ذہنی اور جسما نی ا ذیت کا نشا نہ بنا یا جا تا ہے ، کہیں چو لھا پھٹنے کے نام ا نھیں آگ لگا کر جلا نیکے وا قعا ت عام ہیں ، تیزاب پھینکنے کے درجنو ن کیسز سا منے آئے مگر ایک بھی ملز م کیفر کرداتک نہ پہنچا ،چند ما ہ قبل اسمبلی نے تیزاب سے جلا ئے جانے والے مجرم کے لیے نیا قانون پا س کیا ہے دیکھیں اس پر کتنا عمل در آمد ہو تا ہے سندھ اور پنجا ب کے با اثر گھر انو ں میں جا ئیداد بچا نے کی خا طر خو اتین کی قر آن سے شادی کے وا قعات عا م ہیں ،یہ رسمیں ایسے خا ندا نوں میں عام ہے جہا ں کے مر د حضرا ت با ہر سے پڑھ لکھ کر اعلی ڈگر یا ں یا فتہ ہو تے ہیں ہما ری سیا ست اور قا نو ن بنا نے وا لے کرتا دھر تا بھی یہی ہو تے ہیں ما ضی کی فرسودہ رسم ورو اج آج بھی عو رت کو اپنے شکنجے میں جکڑے ہو ئے ہے ۔ کا رو کا ری ، ونی ، سوارا جیسی رسمیں بھی مو جو دہیں ہر سا ل سینکڑو ں عو رتیں ان کی بلی چڑ ھتی ہیں ، پنچا یت اور جر گے کے ہا تھو ں ظلم وجبر سہنے وا لی بے شما ر خو اتین کی مثا ل ہما رے سا منے ہے ۔اور ایسے کتنے کیسز جن کی کبھی رپو ٹ در ج ہی نہیں کرا ی گئی ہمیں ان ادارو ں کا اصل رو پ د کھاتی ہیں ۔ہما رے ہا ں جو قوا نین بنا ے جا تے ہیں وہ ایسے پیچیدہ ہیں یا پھر انھیں استعمال کر نے وا لے ا پنی مر ضی سے تو ڑ مرو ڑ کر اپنے حق میںاستعمال کرلیتے ہیں ان کی مثا لیں آئے دن اخبا رات کی زینت بنتی رہتے ہیں ۔ گھر یلو تشدد اور خا ندا ن کے جبر کے سا تھ ریا ستی قوا نین، حدود آ رڈینس، قصا ص ود یعت ، آ دھی شہا دت ، غیر ت کے نام پر ہو نے وا لے قتل پر رعا یت ، عو رتو ں پر ر یا ستی جبر وتشدد کی آئینہ دار ہے ان قوا نین کا سہا را لے کر ہر سال سینکڑو ں جر م ہو تے ہیں مگر مجر م کو سزا دینے کا اختیا رقا نو ن کے پا س بھی نہیں ہو تا ۔
ایک اسلا می ملک جہا ں دین محمد کو ما ننے وا لے بستے ہیں ، ہر چھ گھنٹے میں ایک عوار ت کے ساتھ زیا دتی ہو تی ہے ، ہر چا ر دنو ں میں ایک اجتما عی زیا دتی کا کیس اخبا رکی زینت بنتا ہے ، ان کے علا وہ سینکڑو ں کیس ایسے ہو ں گیں جو بد نا می کے ڈر سے درج نہیں کرا ئے جا تے ۔ حکو مت ا گر خو اتین کے حقو ق کی ان تما م خلا ف ور زیو ں کور ورکنے کے لیے قا نو ن سا زی کر تی ہے ، تو اس سے معا شرے میں ا س کے اچھے نتا ئج مر تب ہو ں گی۔ موجو دہ حکو مت نے خو اتین کو ہرا ساں کر نے کے جر م کا قا نو ن پا س کیا ہے اس سے وہ ملازمت پیشہ خو اتین جو گھرو ں سے نو کر ی کی غر ض سے نکلتے ہو ے سفر کے دوار ن سے گھر واپسی تک ( انگر یز ی وا لا ) سفر( Suffer) کر تی ہیں ان کے لیے یہ بل ضرور سا زگا رہو گا ۔
ما رچ خوا تین کے لیے اس با ت کی اہمیت پر زور دیتا ہے کہ اس دن محض سیمینا ربرا ئے سیمینا ر نہ ہو ں بلکہ خو اتین کی فلا ح
وبہبو دکے لیے تسلسل سے کو شش کی جا ئے ان میں تعلیم کی اہمیت کو اجا گر کر نے کی کو شش کی جا ئے کہ ایک پڑ ھی لکھی ما ں ہی اپنے بچو ں کو ملک وقو م کے لیے ایک کا رآمد شہری بنا سکتی ہے اس وقت مو قع منا سبت سے مجھے فیض احمد فیض کی صا حبزادی سلیمہ ہا شمی کا ایک انٹرویو یا دآرہاہے جس میں انھو ں نے بتا یا تھا کہ اعلی تعلیم کے لیے وا لد صا حب(فیض احمد فیض) نے ان کے سا منے دو را ستے رکھے ، ان سے کہا کہ وہ مز ید ا علی تعلیم کو تر جیح دیں گی یا جہیز کو تو انھو ں نے مز ید اعلی تعلیم کو تر جیح دی ان کا بہتر ین فیصلہ ہم سب کے سا منے ہے آج وہ پا کستا ن کی ایک کا رآمد شہر ی ، ایک بہتر ین استا د ، بہترین مصور ہ ، اچھی ما ں اور بیو ی کے کرداربڑی ذمہ دا ری و خو ش اسلو بی سے سنبھا ل رہی ہیں۔
میر ی تمام وا لد ین سے یہی گزا رش ہو گی کہ وہ اپنی بیٹیوں کو بھی بیٹو ں کی طر ح علم کی دو لت سے مالا مال کر یں صر ف تعلیم ہی ایک ایسا ھتیا رہے جو انھیں انکے حقو ق و فر ائض کی زیا دہ بہتر طو رپر آگا ہی دے سکتا ہے خو اتین کو ان کے حقوق ملیں گے تو وہ زیا دہ بہتر طو رپر ملک وقوم کی خد مت کر سکیں گی ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوا لے سے عملی اقدا ما ت کا آ غا زکیا جا ئے میرے خیا ل سے آج کا دن اس حوا لے سے قد م بڑ ھا نے کے لیے بہتر ین دن ہے ۔ ۔۔