خواتین کی تنظیم کا نیا دفتر اور “ پیکا بُو” قسط نمبر چار (آخری)

تحریر: ڈاکٹر شہلا گوندل

شام ڈھل چکی تھی۔ دفتر کے لوگ ایک ایک کر کے رخصت ہو رہے تھے۔ ایس اے نے بتایا کہ انہیں چار بجے کسی کو پارسل دینا ہے اور عصر کی نماز بھی پڑھنی ہے۔ اتنے میں ایک خاتون ایس اے کے پاس آئیں اور پوچھا، “کب چلنا ہے؟” ایس اے نے ان سے پارسل کی بات کی۔ ان خاتون سے میرا تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی سرگودھا سے ہیں۔ جیسے ہی ہم دونوں کو ایک دوسرے کا تعلق جاننے کا پتہ چلا، خوشی سے چہرے دمک اٹھے اور ہم نے فوراً فون نمبرز کا تبادلہ کیا۔

ایس اے نماز کے لیے گئیں، اور اس دوران میں اور ایس ایس اپنے تعارف کے ابتدائی مراحل طے کرتے رہے۔ وہ میری جاب اور ٹیچنگ کے بارے میں سن کر بہت خوش ہوئیں اور اپنے خیالات کا اظہار بڑے خلوص سے کیا۔

جب ایس اے واپس آئیں، تو ہم نے ریسیپشن پر پارسل دینے کا فیصلہ کیا۔ لفٹ سے باہر نکلتے ہی وہ خاتون جو پارسل لینے والی تھیں، ریسیپشن پر پہلے ہی موجود تھیں۔ پارسل انہیں دے کر ہم تینوں بلڈنگ سے باہر آگئے۔ ایس اے اور ایس ایس نے اپنی گاڑی کی طرف رخ کیا جبکہ میں نے ٹرین پکڑنی تھی۔ گیٹ پر ہم نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا۔

میں ابھی دو قدم ہی چلی تھی کہ اچانک آر کے نظر آئیں۔ ہاتھ میں شاپنگ بیگ اٹھائے وہ چل رہی تھیں اور مجھے دیکھ کر خوشی سے ان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ انہوں نے تنظیم کے پروگراموں اور اوسلو میلہ ہاؤس کے میلہ پروگرام میں شریک نہ ہونے کا شکوہ کیا۔ میں نے بتایا کہ اب میں ہفتے میں ایک دن باقاعدگی سے آؤں گی۔ اس پر وہ بے حد خوش ہوئیں اور کہا، “یہ بہت اچھی خبر ہے!”

واپسی کے سفر میں ٹرینوں کا شیڈول خراب تھا۔ میں نے سوچا کہ ائیرپورٹ جانے والی ٹرین لینی پڑے گی۔ جلدی جلدی اوسلو ایس پہنچی تو معلوم ہوا کہ میرے گھر جانے والی ٹرین دو منٹ میں روانہ ہو رہی ہے۔ میں نے جلدی سے پلیٹ فارم کی طرف دوڑ لگائی۔ جیسے ہی ٹرین پر نظر پڑی، دیکھ کر دل ڈوب گیا۔ ٹرین کھچاکھچ بھری ہوئی تھی۔

بہت مشکل سے راستہ بناتے ہوئے میں ٹرین میں سوار ہوئی اور موبائل ایپ پر ٹکٹ خریدا۔ دھیرے دھیرے راستہ بناتے ہوئے میں درمیان تک پہنچی تو ایک بچے کی ٹرالی نے میرا راستہ روک دیا۔ میں وہیں رک کر کھڑی ہو گئی۔
میرے سامنے پریم میں بیٹھا ہوا ڈیڑھ دو سال کا بچہ سیفٹی بیلٹ میں بندھا ہوا پٹر پٹر مجھے دیکھ رہا تھا۔ نیلی بلوری آنکھیں، گلابی رخسار۔ بچے کا باپ دروازے کے پاس کی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا، اور ایک پانچ چھ سال کی لڑکی جو لمبے سنہرے بالوں اور سبز مائل آنکھوں والی تھی، اپنے بابا کی آستین تھامے کھڑی تھی۔

بچے نے مجھے تجسس سے دیکھا۔ میں نے ہاتھ سے “پیکا بو” کا اشارہ کیا اور اپنا چہرہ چھپا لیا۔ اس نے اپنی پریم کا کور آگے کر کے اپنا منہ چھپایا، پھر ہٹایا۔ ہم نے یہ عمل کئی بار دہرایا۔ بچہ ہنسنے لگا اور پھر مانوس ہو کر میری انگلی پکڑ لی۔ یہ منظر اتنا دلکش تھا کہ اس کی بہن بھی مجھے دیکھ کر مسکرا دی۔

ان بچوں کو مسکراتا دیکھتے اور پیکا بو کا کھیل کھیلتے کھیلتے ہی للے سترام اسٹیشن آ گیا، اور ٹرین میں بھیڑ کم ہونے لگی۔ مجھے بیٹھنے کی جگہ مل گئی، اور وہ بچہ اپنے بابا اور بہن کے ساتھ ٹرین سے اتر گیا۔ بچے اور اس کی بہن کی تصاویر میرے دل میں قید ہیں، لیکن میں نے پریم کے چھجے والی فوٹو ضرور لی تھی جب وہ مجھ سے “پیکا بو” کھیل رہا تھا

اپنے اسٹیشن پر پہنچ کر میں نے دیکھا کہ میرے شوہر گاڑی میں میرا انتظار کر رہے تھے۔ گھر آتے ہوئے میں نے دن بھر کی یادوں کو ذہن میں دوہرایا۔ وہ لمحے، وہ ملاقاتیں، اور وہ قیمتی باتیں میرے اندر ایک نئی توانائی بھر چکی تھیں۔

یہ دن میری زندگی کا ایک خاص دن تھا، جو آنے والے وقتوں کے لیے میرے لائحۂ عمل کا حصہ بن گیا۔
ختم شد

اپنا تبصرہ لکھیں