ڈاکٹر فریادآذر
دور رہتی تھی کہیں چاند پہ بڑھیا کوئی
لوگ دو گز کے مکانوں میں بھی رہتے ہیں جہاں
کوئی دروازہ ، نہ آنگن نہ دریچہ کوئی
وہ فراعین ہیں کہ روحِ زمیں کانپتی ہے
اور اس عہد میں آیا نہیں موسا کوئی
میں بھی روتا ہی رہا نرگسِ بے نور کے ساتھ
دیکھ پایا نہ مجھے دیدہء بینا کوئی
دفن کر دیتے ہیں خوابوں کو یوں ہی آنکھوں میں
شاید آجائے نظر تجھ سا مسیحا کوئی
آج سیرت نہیں، صورت کو نظر ڈھونڈتی ہے
عمر ڈھل جاتی ہے ، آتا نہیں رشتہ کوئی
اب فرشتوں سے ملا قات کہاں ممکن ہے
کاش انساں ہی ز میں پر نظر آتا کوئی
پھر نہ چھا جائے اندھیرا مری آنکھوں میں کہیں
پھر دکھاتا ہے مجھے خواب سنہرا کوئی
عمرِ نو سے ہی مسائل مرے محبوب رہے
میرے خوابوں میں نہ رضیہ ہے نہ رادھا کوئی
جو نئی نسل کو آفات کا حل بتلاتا
کیا بچا ہی نہیں اس شہر میں بوڑھا کوئی