کلام: ڈاکٹر شہلا گوندل
شہرِ اقتدار کی گلیاں آج خاموش نہیں ہیں
یہاں ہر دیوار پر خون کا نشان ہے،
ہر گلی نے چیخ سنی ہے،
اور ہر چراغ نے بجھنے سے پہلے
مظلوموں کے خواب جلتے دیکھے ہیں
کنٹینر پر
دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے
وہ شخص جو
اپنے ایمان کی گواہی دے رہا تھا
جسے دھکا دے کر نیچے گرا دیا گیا
اس خونی ڈبےکے کنارے پر
اس کی آخری گرفت
ہاتھوں سے پھسلتی زندگی
“قوم کے محافظ”نے
اس کا ہاتھ بھی چھڑوا دیا
اور وہ گواہی زمین پہ گر کر
ہمیشہ کے لیےخاموش ہو گئی
یکلخت گردن ٹوٹ گئی اس کی
“اسلامی جمہوریۂ پاکستان” کا
ایک اور دشمن مارا گیا
رات کی سیاہی نے
ظلم کو چھپانے کی کوشش کی،
مگر بوٹوں کی چاپ نے
ہر قدم پر خوف لکھ دیا
نہتے ہاتھ، جو صرف اپنے حق کے طلبگار تھے،
خون میں لت پت ہو گئے
تین دن کے بھوک کے مارے مسافر
جن کی دعائیں آسمان تک گئی ہونگی
مگر جواب زمین پرگولیوں کی گونج نے دیا
لہولہان لاشوں کا سکوت
اسلام آباد کی یہ شبِ ظلمت
نومبر کی ستائیسویں رات
یاد دلاتی ہے
اس ظلم اور جبرکی
جب پر امن لوگوں کی آواز
گولی سے دبا دی گئی تھی
ڈی چوک، آج تُو بھی جلیانوالہ باغ بن گیا
جہاں آزادی مانگنے والوں کو
زندگی سے آزاد کر دیا گیا
مگر ستم تو یہ ہے
کہ ظلم کو حکومتی رِٹ کا لباس پہنایا گیا
کچھ انتشار پسند،
غیر ملکی دہشت گرد گرفتار
“مسنگ پرسنز “کی طرح
لاشیں بھی گمشدہ ہو گئیں
سڑکیں دھل کے شفاف ہو گئیں
جیسے خون کے قطرے
کبھی گرے ہی نہ ہوں
راستے کھول دیے گئے،
جیسے یہاں کبھی کوئی قتل عام نہ ہوا ہو
اور کیک کاٹ کر شکریہ کے ساتھ
قوم کوخوشخبری دی گئی
کہ فتنہ ختم ہو گیا
زحمت کی معذرت
مگر یہ کون سمجھے
یہ تو صرف ایک آغاز ہے
ظلم کے چراغ جلانے والے،
اور ان چراغوں کے دھویں میں
گھٹتے ہوئے مظلوم برابر نہیں
قوم دو حصوں میں بٹ گئی ہے،
ظلم پہ روتے اور آواز اٹھاتےانسان
اور رونے والوں کا مذاق اڑاتے حیوان
مگر یاد رکھو،
یہ خون رائیگاں نہیں جائے گا
یہ دھرتی اب بھی
بیج رکھتی ہے تبدیلی کے
اور ہر گولی سے گرا ہوا قطرۂ خون
کل ایک شجر بنے گا،
جو سایہ دے گا اور سکون بھی
یہ رات کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو،
سورج ضرور نکلے گا