خُدا کی موجودگی کا بارِ ثبُوت بی بی سی کے مطابق خُدا کے ماننے والوں پر ہے، میں خُدا کا ماننے والا ہُوں لہٰذا خوشی سے یہ بار قبول کرتا ہُوں, لیکن دہریت جس کی ترجُمانی کا فریضہ بی بی سی نے سر انجام دیا خُدا کی عدم موجودگی کا ثبُوت بے شک نہ دے کم سے کم انسان کی حادثاتی تخلیق کے اپنے دعوے کا بارِ ثبوت ہی اپنے ذمّے لے لے جو بہرحال دہریّت نامی مذھب کے بُنیادی دعوں میں سے ایک ہے۔
خُدا کی موجودگی کا دعوٰی کرنے والوں (مُسلمانوں) کا دعوٰی فقط خُدا کی موجودگی کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ خُدا نے ہی کائنات، اسکی بناوٹ اور قائم رہنے کے پیچھے موجود قوانین اور عوامل کے ساتھ ساتھ ہم سب سمیت ہر قسمی زندگی بھی کُچھ ایسے تخلیق کی ہے کہ اِن عوامِل، قوانین اور زندگی میں جابجا اپنے شواھد چھوڑ دیے ہیں جنہیں اُسکے بھیجے ہُوئے پیغام اور عقل کے استعمال سے پرکھا جا سکتا ہے۔
خُدا کے ماننے والوں کا ساتھ میں یہ بھی دعوٰی ہے کہ خُدا نے چُنیدہ افراد جنہیں انبیأؑ کہا جاتا ہے پر انسانوں کی رہنمائی کا پیغام بھی اپنی نشانیوں کے ساتھ بار بار اُتارا اور بالآخر چودہ سو سال پہلے ایک آخری نبیﷺ پر اپنے پیغام کی اتمامِ حُجّت کر دی اس پیغام کو قرآن کہتے ہیں اور وہ قُرآن کائنات کی ترکیب اور تخلیقِ انسان سے مُتعلق ایسی نشانیاں پیش کرتا ہے جو آج سے پانچ سو سال پہلے بھی کسی انسان کو معلوم ہونا ممکن نہیں تھا اور قُرآن تو چودہ سو سال پُرانا ہے۔ گویا قُرآن اپنے اندر وہ شواھد رکھتا ہے جو اسے خالِقِ کائنات کا کلام اور محمدﷺ کو اُسکا حقیقی نُمائندہ ثابت کریں۔
زیادہ پُرانی بات نہیں ہے جب ایک سائنسدان گلیلیو نے یہ انکشاف کیا تھا کہ زمین گھُومتی ہے،
اُس سے پہلے زمین چاند ستاروں اور سیاروں کا ساکت ہونا مسلمانوں کو چھوڑ کر سبھی اقوامِ عالم یُونیورسل ٹرُتھ مانتی تھیں, تبھی گلیلیو کا انکشاف خصوصاََ مغربی اقوام کے کائنات سے مُتعلق عقائد اور انڈرسٹینڈنگ پر بجلی بن کر گرا۔
گلیلیو کے سائنسی انکشاف نے جہاں مسلمانوں کا ایمان تازہ کیا وہیں مغرب میں غم و غُصے کا یہ عالم تھا کہ عوامی ردّعمل دیکھ کر گلیلیو نے بالآخر اپنا دعوٰی واپس لے لیا لیکن اُسکے اپنا دعوٰی واپس لینے سے وہ حقیقت نہیں بدلی جو گلیلیو سے ہزار سال پہلے سے قُرآن کے حُفّاظ اپنی نمازوں میں تلاوت کرتے تھے۔ یعنی خُدا کے دُنیا میں آخری نبی محمدﷺ کا لایا ہُوا قُرآن تو گلیلیو سے ٹھیک ایک ہزار سال پہلے یہ بتا چُکا تھا کہ سبھی ستارے سیّارے اپنے لیے طے کردہ مدار میں تسلسُل سے گردِش کر رہے ہیں، میرا دہریّت نامی مذھب سے بہت سادہ سا سوال ہے کہ کیا آپ مسلمانوں کے گلیلیو سے بھی ہزار سال پہلے کے اس عقیدے کی کیا سائنسی یا عقلی توجیح پیش کریں گے جو تب آپ جیسے لوگوں کو مضحکہ خیز لگتا تھا لیکن وہ سائنس جسے دہریت اپنی مذہبی کتاب سمجھتی ہے اس سچ تک قُرآن سے ہزار سال تاخیر سے پُہنچی۔
بِگ بینگ کے بارے میں قُرآن کیا کہتا اس پر بعد میں بات کریں گے پہلے انسان کی بات ہو جائے۔
دہریّت کی مذھبی کتاب یعنی سائنس کے ایک پیغمبر لیُووَن ہُک سولہ سو ستتّر میں سپرم دریافت کر کے پُوری دُنیا میں معزز ٹہرے, لیکن ابھی سپرم کی بناوٹ ایگ سے جڑتے وقت اسکی پُوزیشن اور کیفیت بتانے میں سائنس کو مزید دو سو سال لگنے تھے.
مزید دو سو سال بعد جس فرانسیسی سائنسدان نے اس ضمن میں یہ انکشافات کیے وہ ایک نومُسلم تھا اور اُسی کے مطابق اُسے اس دریافت کی طرف قُرآن کی سب سے پہلے نازل ہونے والی سُورۃ کی دوسری آیت کے ایک لفظ عَلَقْ نے تحریک دی۔
اُس نے مسلمان ہونے کے بعد باقائدہ عربی سیکھ کر قرآن پڑھا تھا، وہ جانتا تھا عربی میں عَلَقْ جونک کے لیے استعمال ہوتا ہے جو ایک جگہ چمٹ کر لٹکی رہتی رہتی اور خُون پی کر بڑی ہوتی رہتی ہے۔
قُرآن کی پہلی سُورۃ کہتی ہے ’’ اپنے پالنے والے کے نام سے پڑھیے جِس نے ہر چیز کو پیدا فرمایا، جِس نے انسان کو رحمِ مادر میں جونک کی طرح معلق وجُود سے پیدا کیا۔‘‘
بس پھر اس گورے سائنسدان نے جہاں اس آیت میں اپنی ایک نشانی میں نظر نہ آنے والے اپنے خالِق کو دیکھ لیا بلکہ اسی آیت کو سائنسی مفروضہ بنا کر تحقیق کی اور سائنس کی ایک شاخ ایمبریالوجی میں ماں کے پیٹ میں سپرم سے زائیگوٹ بننے تک کے مائکروسکاپِک پراسس کا اضافہ کر کے ایسے کئی سوالوں کے جواب دیے جو ہزاروں سال سے انسان کی جُستجو تھے۔
یعنی جیسے قرآن نے کہا تھا کہ کائنات اور انسانوں کے اپنے نفس میں خُدا نے اپنی موجودگی کے شواھد رکھ دیے ہیں جنہیں انسان تا قیامت دریافت کرتا چلا جائے گا وہ دعوٰی آئے دن پُورا ہوتا چلا جاتا ہے حالانکہ قُرآن نہ سائنس کی کتاب ہے نہ ریاضی کی لیکن اس میں ایسے شواہد ضرور موجود ہیں جو محمدﷺ پر چودہ سو سال پہلے قُرآن کو انسانوں کے خالق کا کلام ثابِت کر سکیں۔
یعنی بظاہر اللہ کو دیکھنا ممکن نہیں لیکن یہ تو وہ شواہد ہیں جنکے ذریعے اندھے بھی اپنے خالِق کی موجودگی پرکھ سکتے ہیں۔
چلیے ایک لمحے کو سوچ لیں کہ قُرآن خالق کا کلام نہیں اب دہریے اس معاملے کی کیا سائنسی یا عقلی توجیح پیش کریں گے کہ چودہ سو سال پہلے مکّہ نامی ایک پسماندہ گاؤں میں رہنے والے ایک صاحب محمدﷺ نے قرآن میں مائکروسکوپِک ایمبریالوجی اور فلکیات کے اُن مُسلمہ قوانین سے عین مطابقت رکھتے ہُوئے کلمات کیسے کہہ دیے جن میں سے بعض قوانین کو سائنس نے ہزار سال بعد پہلی بار دریافت کا نام دینا تھا بعض کو چودہ سو سال بعد۔
برطانیہ میں پچیس سال کے پچھتر فیصد نوجوانوں کے لادین ہو جانے کے انکشاف کے بعد بیلینس کرنے کے لیے بی بی سی کا اُردو میں دہریت کے سطحی دلائل چھاپنا قابلِ سمجھ ہے لیکن اگر مسلمانوں کو دہریّت کی تبلیغ کرنی ہی ہے تو بی بہ سی کے دیے گئے خلا میں کیتلی اور گیراج میں غیر مرئی اژدھے جیسے بھُونڈے دلائل نہیں چلیں گے کیونکہ غیرفطری اصولوں سے بھری تحریف شُدہ بائبل کے برعکس مسلمانوں کے پاس خُدا کی عظیم نشانی ایک ایسے قرآن کی شکل میں موجود ہے جو چودہ سو سال پُرانی کتاب ہونے کے باوجود سائنس سمیت تمام جدید عُلوم سے زیادہ جدید اور فطری تو ہے ہی، اللہ کی موجودگی کے ایسے شواہد بھی پیش کرتی ہے جو بغیر آنکھوں والوں کو بھی خالق دکھا سکیں۔