مشرف عالم ذوقی
٣١ جولائی، کوئٹہ بلوچستان کے اپنے گھر سے دانیال طریر سوئے عدم کو روانہ ہوگئے— دو سال سے سرطان کے موذی مرض میں مبتلا تھے— ٢٤ فروری ١٩٨٠ کو پیدا ہوئے— اور محض ٣٦ سال کی مختصر عمر میں دار فانی سے کوچ کر گئے— لیکن ٣٦ برسوں کے ادبی سفر میں غزلوں، نظموں اور تنقیدی مضامین کا جو ذخیرہ ہمارے لئے چھوڑ گئے، وہ نایا ب ہے— اُس کی نظیر مشکل سے ملے گی۔ اصل نام مسعود دانیال، تخلص طریر تھا۔ دانیال طریر کے نام سے ہی ادب میں مضبوط شناخت قائم ہوئی۔ تصانیف میں آدھی آتما (شاعری)، خواب کمخواب (شاعری)، خدا مری نظم کیوں پڑھے گا (طویل نظم)، معنی فانی (شاعری)، بھوکھے بھجوکے (نظم) معاصر تھیوری اور تعین قدر (تنقید و تحقیق، جدیدیت، مابعد جدیدیت اور غالب (تنقید)، ادب، تنقید اور تھیوری (تنقید)، بلوچستانی شعریات کی تلاش، تعبیری شعریات کی حدود) قابل ذکر ہیں۔
میری دانیال سے ملاقات نہیں تھی۔ ملاقات ادب کے ذریعہ ہی ہوئی۔ اور جیسے جیسے دانیال کو پڑھتا گیا، دانیال کے لئے میری دیوانگی بڑھتی چلی گئی۔ ٢٠١٣ میں، میں لکھنؤ میں تھا۔ اور پہلی بار دانیال سے گفتگو کا موقع ملا۔ اس کے بعد دانیال نے اپنی تمام کتابیں ڈاک سے مجھے بھجوائیں۔ میں اب تک اُس کی غزلوں اور نظموں کا ہی مدّاح تھا مگر اس کے تنقیدی مزاج اور تنقیدی شعور نے بھی میرا دل جیت لیا— وہ مختلف تھا۔ آن بان شان نرالی۔ نئے انداز سے سوچتا تھا۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ جب تک اردو زبان زندہ ہے اور دعا ہے کہ زندہ رہے، دانیال کو نظم خدا مری نظم کیوں پڑھے گا، دانیال کے یہ نظم بھی زندہ رہے گی۔ ماضی کے اثاثہ کو حال اور مستقبل سے کیسے وابستہ کیا جاسکتا ہے، یہ دانیال جانتا تھا۔ وہ کشمکش علامتوں اور نئے نئے استعاروں سے کھیلتا تھا۔ وہ خدا کا سچا عاشق تھا۔وہ خدا جسے اللہ کے نام پر پاکستان سے جلا وطن کر دیا گیا۔ ہم ایسے موقع پر اُسے خدا حافظ کہہ رہے ہیں، جب وہ خدا کے دربار میں پہنچ چکا ہے۔ اور دانیال کو کہاں پتہ تھا کہ خدا بھی اُس کی نظم پڑھ چکا تھا۔ اور خدا کو اُسے بلاینے کی جلدی بھی اسی لئے تھی کہ وہ ایسے نایاب ہیرے کو درد سے کراہتا ہوا کہاں دیکھ سکتا تھا۔ لیکن خدا کو کیا معلوم کہ اس کراہ اور بے چینی کے پیچھے چپکے سے دانیال نے گمشدہ ماضی اور اس پرآشوب دور کا زہر پی لیا تھا۔ اندر سے اُس کا جسم نیلا تھا اور باہر سے شاداب اور نورانی۔ وہ تو آہستہ آہستہ مر رہا تھا۔ مگر نہیں… اب شاید وہ کسی دھند سے پہلے سے زیادہ نورانی چمک کے ساتھ باہر آرہا ہے۔ اپنی نظمیں سنانے کے لئے… خدا میری نظم کیوں سنے گا۔ خدا سن چکا… اب ہماری باری ہے— ہمیں سننا بھی ہے اور دانیال طریر کو زندہ رکھنے کی ذمے داری بھی ہماری ہے۔