درویش
کلام : راحیل نظام
اندر ھُو کا شور ہے باہر، آوازوں کا کال
میں پنچھی آزاد ہوں اور یہ، نگری مایہ جال
آنکھوں میں ماضی مستقبل، پیشانی میں حال
چھوڑ مِری لغزش کو بھائی! اپنا آپ سنبھال
او مٹّی پانی آگ ہوا چل ، اپنا رستہ ناپ
میں آپ ہوں عنصر پانچواں، میں چاروں کا باپ
ہے نقشِ الف ابھارتی، مرے ہاتھ پہ ایک لکیر
میں جوگی درویش ہوں، میں سادھو سنت فقیر
میرا ورثہ ترکہ سب کچھ ہے، اِکتارہ اور زنجیر
یہ کاسہ زیور تن کا ہے، اک گُدڑی ہے جاگیر
جب ہستی کے دربار میں، اک دِیوا جگتا ہے
پھر ھُو ھُو کی ہر تان پر، اِکتارہ بجتا ہے
میں بھیدی عہد الست کا، میں کن فیکوں کا راز
میں وقت کا بھی نِروان ہوں، میں دنیا کا آغاز
میں آوازوں کا شور بھی، میں شور کی بھی آواز
میں چُپ کا راگ آلاپ ہوں، میں خاموشی کا ساز
سب موسم میرے یار ہیں، کیا سردی گرمی دھوپ
میں مٹّی کی اولاد ہوں، اور مٹّی میرا روپ
میں باغی دین دھرم کا ہوں، میں دنیا سے بیزار
سب رستے مجھ کو ایک ہیں، صحرا جنگل بازار
میں غیب کا ہوں اقرار بھی، میں حاضر کا انکار
میں منکِر اپنی ذات کا، میں خود پر ہوں آزار
اک اسمِ اعظم جاپ کر خود بناتا ہوں
میں اپنا آپ گھماتا ہوں اور چاک بناتا ہوں