پروفیسر خالد پر ویز
اورپھر یوں ہوا کہ جیسے ہی دریا کی خشک ریت میںدبایا گیا دریا نے پورے زور و شور اور معمول سے ذیادہ طغیانی کے ساتھ موج در موج بہنا شروع کر دیا۔لوگوں نے جب یہ سنا کہ خشک دریا کے نام ایک خط لکھا گیا ہے اور آج وہی خط دریا کے حوالے کیا جائے گاجس کے بعد وہ ٹھاٹھیں مارنے لگے گا تو پورا شہر دریا کنارے امڈ آیااور لوگوں کا ایک جم غفیر تھا کہ سنبھالے نہیں سنبھلتا تھا۔
پہلے تو لوگوں نے اسے ایک انہونی بات سمجھا کہ کیا کبھی دریا بھی خط کی تحریر سمجھے گااور اس پر عمل کرے گا کیونکہ ان کا تو یقین کچھ اور تھا۔اور وہ تو ہر سال اپنے عقیدے کے مطابق ایسا ہی کرتے تھے۔جب بھی دریا خشک ہوتا وہ ایک حسین و جمیل کنواری لڑکی کو اس کی بھینٹ چڑھاتے تھے اور یہ سمجھتے دریا ایک لڑکی کے خون سے اپنی پیاس بجھا کرہی رواں دواں ہوتا ہے۔
دین اسلام وحدانیت کی تعلیم دیتا ہے اور اس قسم کے عقائد کی سراسر نفی کرتا ہے۔شہر جب مجاہدین اسلام کے ہاتھوں فتح ہوااور حضر ت عمرو بن العاص وہاں کے گورنر مقرر ہوئے تو لوگوں نے آپ کو دریا کے خشک ہونے کی داستان سنائی اور اس کے جاری ہونے کا جاہلانہ طریقہ بھی بتایا۔یہ سن کر شہر کے گورنر حضرت عمرو بن العاص نے فوری طور پر ختم المرسلین رحمةاللعالمین رسول کریم کے دارلحجرت اوراور مملکت اسلامیہ کے دارلخلافہ مدینہ منورہ میں رہائش پذیر امیرلمومنین کو تمام تر صورتحال لکھ بھیجی اور درخواست کی کہ اسکا کوئی بہتر حل بتایا جائے۔
امیر لمومنین کو جیسے ہی گورنر کی چٹھی ملی انہوں نے فوری طور پر دو خط لکھوائے۔ایک خط گورنر کے نام اور دوسرا خط دریا کے نام۔گورنر کے نام خط میں ہدائیت تھی کہ دریا کے نام خط کو دریا کے حوالے اس یقین کے ساتھ کر دیا جائے کہ تمام کائنات ارض و سماکی قادر و کار ساز صرف رب رحمٰن و رحیم کی ذات ہے۔
امیر لمومنین نے دریا کے نام جو خط لکھا اس کی تحریر یوں تھی
،یہ خط اللہ کے بندے عمر بن خطاب کی جاب سے دریائے نیل کے نام ہے۔اے دریا! اگر تو رب کے نام سے بہتا تھا تو ہم اب بھی خالق و مالک کون و مکاں ہی سے تیرا جاری ہونا مانگتے ہیں۔اور اگر تو خود اپنی مرضی سے بہتا ہے اور اپنی مرضی سے رک جاتا ہے تو پھر ہمیں تیری کوئی پر واہ اور ضرورت نہیں،
سچ ہے جب اللہ کا بندہ حقیقی معنوں میں اللہ ہی کا ہو جاتا ہے ۔او راس بات پر کامل یقین رکھتا ہے کہ اللہ ہی عبادت کے لائق ہیاور صرف اور صرف اللہ ہی مدد کرنے والاہے تو پھر اللہ چاہے تو تمام مخلوق کو اس کے تابع کر دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انسان کو اشرف لمخلوق کہا گیا ہے۔اور یہ بہت بڑا شرف اور اعزاز ہے۔رب تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس شرف کی اہلیت بھی عطا فرمائے!!
ّآمین۔