دعوتِ کیف
ڈاکٹر فیصل حنیف
بر صغیر کی خوش قسمتی ہے کہ اس سرزمین کو اردو شاعری کی نسبت سے ایسے عالی دماغ صاحبانِ کمال و فن میسر آ گئے جن کی وجہ سے عالمی ادب میں بر صغیر کا مقام قابلِ رشک ہو گیا اور زبانوں میں اردو زبان کی قدر بڑھ گئی اور اس کی توقیر میں اضافہ ہو گیا۔ شاعری کی فسوں گری کے اس سفر میں ولیؔ کی جمال پرستی اور ٹھیٹھ زبان،آبروؔ کی معرفت اور وسعت خیالی ، شاہ حاتمؔ کی شستگی اور جامعیت، خان آرزوؔ کی استادی اور تمکنت ، جانِ جاناں مظہرؔ کی زبان آوری اور لطافتِ طبع ، سوداؔ کی زبان سازی اور بلندی مضمون ، میرؔ کا سوزو گداز، دروں بینی، گہرائی اور فنی نزاکت ، دردؔ کا اختصار اور بلاغت، نظیرؔ کی مقامیت اور عوامیت، جرأتؔ کی معاملہ بندی اور متعلقاتِ حسن ، انشاؔ کی شوخی اور بانکپن، مصحفیؔ کی قادر الکلامی اور پُر گوئی، ناسخؔ کی اصلاحِ زبان اور ابداع مضامین میں قدرت ، آتشؔ کی مرصع سازی اور لطافت آمیز سادگی، شاہ نصیرؔ کی سنگلاخ زمینیں اور مشکل قافیوں میں زور آوری، غالبؔ کی پہلوداری، معنی و نکتہ آفرینی، روایت شکنی اور شاعرانہ عظمت، ذوقؔ کی دقیقہ سنجی اور محاورہ بندی، مومنؔ کا طرب و نشاط اور شاعرانہ ذکاوت، ظفرؔ کا دھیما پن اور رعایتِ لفظی، انیسؔ و دبیرؔ کا ایجاز و کمالِ بلاغت اور آنکھوں میں فرات بھر دینے والے مرثیے، داغؔ کی فصاحت اور سلاست، امیرؔ کی شائستگی اور سنجیدگی، حالیؔ کی لطافت اور شیرینی، شادؔکی ندرت افکاری اور طرزِ بیاں ، اکبرؔ کی ظرافت اور زبان و بیان کا چٹخارہ، ریاضؔ کی رندی و سر مستی اور نفسیاتی کیفیات کی تحلیل و تجزیہ، جلیلؔ کی صاف اور مستند زبان، حسرتؔ کی سہل بیانی اور گنگناہٹ، اقبالؔ کی گہرائی، آفاقیت اورعالمگیری، فانیؔ کا حزن و یاس، ثاقبؔ کی ‘میریت ‘ اور نکتہ رسی، عزیزؔ کی ‘غالبیت’ اور لکھنؤ کی ٹکسالی زبان، یگانہؔ کی انفرادیت اورجائز تعلی، اصغرؔ کی جنبشِ تحیر کا سکوت اور عارفانہ بصیرت و متصوفانہ سنجیدگی، جگرؔ کے تغزل کی بے ساختگی اور روانی، فراقؔ کی رموزِ حسن و عشق سے واقفیت اور نئے میلانات، جوشؔ کا شکوہِ الفاظ اور قلز مِ حرف و معانی ، حفیظؔ کی نغمگی اور مؤثر انداز، اختر ؔشیرانی کی رومانویت، مخدومؔ کے ابرِ گوہر بار قلم کی روانی ، راشدؔ اور میراؔ جی کا تخیل اور وسعت، مجازؔ کی حلاوتِ زبان ، فیضؔ کی موسیقیت، مجروحؔ کی نغز گوئی ، مجید امجدؔ کے ہئیت کے تجربے اور اظہار کی پختگی، اختر الایمان کی قوتِ ایجاد اور طرفگیِ خیالات، ساحرؔ کی نازک خیالی اور بے باکی، ناصرؔ کی اداسی، سلاست اور ٹھہراؤ، اور جونؔ کی جدت طرازی، کی جلوہ گری گیسوئے اردو کو شانے سے بے نیازکرتی دکھائی دیتی ہے۔