سیما سراج
”ادب کے معیار کا اندازہ اسی سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ کاغذ جو بازار میں سونے کے بھاو بکتا ہی، جب اس پر شاعری یا افسانہ چھپ جاتے ہیں تو ردی کے بھاو بھی نہیں بکتا….“
(”سوختنی نہ فروختنی“ مشمولہ ”سخن ہائے ناگفتنی“ از: خامہ بگوش، مرتبہ: مظفر علی سید)
….٭….٭….
حسن عابدی نے اپنا مﺅ قف ایسی خوبصورت نثر میں بیان کیا ہے کہ ان کی بات مان لینے کو جی چاہتا ہے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ دور کے بیش تر ادیب کسی آنے والے میر اور کسی آنے والے غالب کے لیے کھاد کا کام کررہے ہیں، اور ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اکادمی ادبیات ہمارے ملک کا کھاد بنانے والا سب سے بڑا کارخانہ ہے۔“
(”سوختنی نہ فروختنی“ از: خامہ بگوش، کراچی۔ پہلی اشاعت اپریل 2004ئ)
….٭….٭….
”جن لوگوں کے اندر شاعری کی صلاحیت ہوتی ہے وہ شاعری کرکے اس صلاحیت کو زائل کرلیتے ہیں۔ لیکن جن میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی انہیں بھی تو بہرحال کچھ نہ کچھ کرنا ہوتا ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہ بیٹھی، نثری شاعری کرلی۔ اس میں کسی دوسرے کی گرہ سے کیا جاتا ہی! نثری شاعری کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کو پڑھنے کی عادت نہیں ہے وہ اپنی اس عادت کے جواز میں شاعری کو پیش کرکے بہت خوش اسلوبی سے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ پڑھنے سے نہ پڑھنا بدرجہا بہتر ہے۔“
(”شگفتہ بیانی یا آشفتہ بیانی“ از: خامہ بگوش، مرتبہ مظفر علی سید، کراچی)
….٭….٭….
بہت پرانا لطیفہ ہے۔ جب پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک افغانی مہاجر نے اپنا تعارف افغانستان کے ریلوے کے وزیر کے طور پر کرایا۔ مخاطب نے حیران ہوکر کہا…. ”وہ کیسی؟ افغانستان میں تو ریلوے ہے ہی نہیں۔“ اس پر افغان مہاجر نے جواب دیا ”اس سے کیا فرق پڑتا ہی، آخر پاکستان میں وزیر قانون بھی تو ہوتا ہے۔“
(”ماورائے عدالت پھینٹی“ عطائ الحق قاسمی، لاہور 2000ئ)
….٭….٭….
ایک دیہاتی نے کسی ایجنٹ کو ملک سے باہر جانے کے لیے پچاس ہزار روپیہ دیا، ایجنٹ دیہاتی کو مری کی پہاڑیوں پر چھوڑ آیا اور کہا ”تین دن چلنے کے بعد ایک گیٹ آئے گا، وہ کویت کا گیٹ ہی، تم کویت میں داخل ہوجانا“۔ تین دن بعد دیہاتی کو ایک شخص ملا، اس نے اس سےپوچھا”کویت کہاں ہی؟“ اس شخص نے جواب دیا ”میں خود ایک ماہ سے دبئی ڈھونڈ رہا ہوں، تم کویت کی بات کرتے ہو“۔
(خوش گپیاں، مرتبہ: امان اللہ نیر شوکت، لاہور 2004ئ)
….٭….٭….
(تبسم ہی تبسم۔ بمبئی 1977ئ)
ڈاکٹر نے مریض سے پوچھا: ”آپ کو جب سردی لگ کر بخار آتا ہے تو کیا دانت بھی کٹ کٹ بجتے ہیں؟“ بوڑھے مریض نے کہا: ”ڈاکٹر صاحب مجھے معلوم نہیں کیونکہ وہ تو رات کو ٹیبل پر رکھے ہوتے ہیں“۔
….٭….٭….
ڈاکٹر: تمہیں کوئی خاص شکایت نہیں، صرف آرام کی ضرورت ہے۔ مریضہ: لیکن ڈاکٹر صاحب ذرا میری زبان تو دیکھیے۔ ڈاکٹر: ہاں اس کو بھی آرام کی ضرورت ہے۔
(نوادر۔ مرزا محمد عسکری۔ ادبی پریس لکھنو ، 1933ئ)
….٭….٭….
چٹ پٹے لطیفے۔ امجد اقبال(کراچی)
ایک بوڑھی عورت بس میں کھڑی ہچکولے کھا رہی تھی۔ سب سیٹیں بھری ہوئی تھیں اور کسی کو اس پر ترس ہی نہیں آرہا تھا۔ اگلے اسٹاپ سے ایک خوبصورت نوجوان لڑکی بس میں سوار ہوئی، اسے دیکھتے ہی ایک نوجوان اپنی سیٹ سے اٹھا اور مسکراتے ہوئے لڑکی سے بولا: ”آپ یہاں بیٹھیی!“ لڑکی نے ایک نظر اِدھر ا ±دھر دوڑائی اور بوڑھی عورت کا ہاتھ پکڑ کر خالی سیٹ پر بٹھادیا۔ نوجوان نے کھڑی ہوئی لڑکی سے کہا: ”میں نے تو سیٹ آپ کے لیے چھوڑی تھی“۔ لڑکی نے مسکرا کر کہا: ”کوئی بات نہیں، اصل میں بہن سے زیادہ ماں کا حق ہوتا ہے“۔
٭٭٭
bht hi aala zabardast intekhab hai
Shukriya Imran..khush rhain or hmesha muskraeyn..