تحریر،شازیہ عندلییب
لاہور پاکستان کا واحد شہر ہے جس کا کسی دوسرے شہر سے کوئی مقابلہ نہیں۔اسی لیے تو کہتے ہیں کہ
نئیں ریساں شہر لاہور دیاں
یہاں کا معاشرہ ، یہاں کے لوگ اپنے اندر ایک انوکھی انفرادیت سموئے ہوئے ہیں۔یہاں زندگی کا ہر رنگ اورہر رخ ملتا ہے۔ ادب سے لیکرسیاست تک اور تصوف سے لیکر فلم انڈسٹری تک ، ہر شعبہ کے با کمال لوگ یہاں پائے جاتے ہیں۔بر صغیر کی تاریخ پڑھ لیں تو لاہور کا نام اور ذکر نمایاں ملے گا۔پاکستان کی ہسٹری پڑھ لیں تو لاہوریوں کی بہادری کی مثا لیں سنہری حرفوں میں لکھی نظر آئیں گی۔غرض یہ کہ ہر شعبہء ہائے زندگی کے لوگ شہر لاہور کی معاشرت کو اپنی اعلیٰ کارکردگی کے بناء پرایک شاندار شہر بنا رہے ہیں۔ یہاں ہر شعبہ میں کمال حاصل کرنے والے لوگ صرف شہرت ہی نہیں کماتے بلکہ دلوں پر بھی راج کرتے ہیں۔ جیسے سیاست کے بے تاج بادشاہ، نواز شریف اور شہباز شریف، فلم انڈسٹری کی گلوکارہ ملکہء ترنم نور جہاں، دنیائے ادب کے عظیم شعراء، فیض احمد فیض اور اسکے علاوہ بے شمار لوگ اور ادارے۔ سیاست سے علیحدگی کے باوجود فیصل آباد میں عظیم الشان اجتماع سے خطاب نواز شریف کی ہر دلعزیزی کا کھلا ثبوت ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہاں ہر شعبہ کے لوگ اپنے کمال فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
دوسرے اخبارات کے ساتھ ساتھ بیشتر ویب سائیٹس بھی موثر کردار ادا کر رہی ہیں اس میڈیا وار میں
اردو پوائنٹ اور اسکے ایڈیٹرہراول دستے میں ہیں۔ کیوں نہ ہوں آخر یہ وہی لاہور ہے جہاں کے شہریوں نے دشمنوں کو ڈنڈے مار مار کر بھگا دیا تھا۔ یہاں کے لوگ اپنے ہر دلعزیز لیڈر سے دوری کیسے برداشت کر سکتے ہیں!!اردو پوائنٹ کی انہی بیباکانہ پالیسیوں نے ہی تو اسے میڈیا کے آ سمان کا ایک درخشاں ستارہ بنا دیا ہے۔یہ ویب سائٹ تو ہے ہی ایسی دلوں کو گرمانے اور دشمنوں کو تڑپانے والی!!
اسکے علاوہ اسکا اسپورٹس کا صفحہ بہت منفرد ہے۔ یہاں جس انداز سے کھیل کا تجزیہ کیا جاتا ہے وہ انداز بے مثال ہے۔بیشک اسکے لکھنے والے اور ایڈیٹر قابل تحسین ہیں۔اس میں ایڈیٹر کی کھیل کی تجزیہ نگاری قاری کی توجہ آخر تک قائم رکھتی ہے۔
یہ اس شہر کی خصوصیت ہے کہ بڑی بڑی شخصیات نے اسے اپنے لیے منتخب کیا۔ان میں علامہ اقبال جیسے صف اول کے شاعراور منیر نیا زی شامل ہیں۔ یہاں کے تعلیمی ادارے اور دیگر ادارے بھی اپنی مثال آپ ہیں۔اگر کسی میں تھوڑا سا بھی ٹیلنٹ ہے تو یہ ادار ے اسکی شخصیت کو ایسے تراشتے ہیں جیسے کوئی قیمتی ہیرا۔ پھر زمانہ کی آنکھیں اسکی چمک دمک سے خیرہ ہو جاتی ہیں۔ان تعلیمی اداروں میں پنجاب یونیورسٹی، فاطمہ جناح میڈیکل کالج اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالجز شامل ہیں۔ آجکل لاہور میں ہر شعبے کے تعلیمی اداروں کا جال پھیلا ہوا ہے۔جو امتیاز ان داروں کو حاصل ہے اور کسی کو نہیں۔ ان اداروں کے
طالبعلموں کی شخصیات دور سے ہی پہچانی جاتی ہین۔ وہ لوگ عملی زندگی میں بہت نمایاں کارکردگی رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں لاہور کے لوگ ایک خاص ادبی اور فنی ذوق کے مالک ہیں۔ادب ،میڈیا فن، اور سیاست سے وابستہ لوگوں نے ملک گیر ہی نہیں بلکہ عالمگیر شہرت حاصل کی ۔ سکے علاوہ یہاں کام کرنے والے ادارے بھی بین ا لاقوامی شہرت رکھتے ہیں۔ان میں عمران خان کا کینسر کے علاج کاہسپتال شوکت خانم میموریل ہاسپٹل اور دیگر میڈیاکے ادارے شامل ہیں۔یہاں کی مشہور شخصیات نے اپنے شعبے میں ہی نہیں بلکہ لوگوں کے دلوں پر بھی راج کیا ہے۔یہ حقیقت صدیوں پر محیط ہے۔اسکی تازہ مثالیں شاعر منیر نیازی اور فیض احمد فیض ، گلوکارہ ملکہ ء ترنم نور جہاں اور شریف برادران ہیں۔ یہاں پر الحمرا آ ٹس کونسل اور داتا دربار دونوں جگہ پر رونق نظر آتی ہے۔اگر فلم انڈسٹری میں رقص دیکھنے والے شائقین ہیں تو داتا دربار پہ ذائرین بھی کم نہیں۔یہاں کی فضاء ایسی ہے کہ یہاں کسی بھی ٹیلنٹ رکھنے والے فرد کا دامن عروج اور کامیابی سے خالی نہیں رہتا۔کئی لوگ اسکی ایک وجہ حضرت داتا گنج بخشؑ کے دربار کی موجودگی کو بھی سمجھتے ہیں۔ اس شہر مراد میں ہر سائل کی جھولی داتا کے دربار پہ مرادوں سے بھری جاتی ہے۔ میں نے بھی میٹرک میں داتا دربار پہ اپنی فسٹ ڈوین کی دعا مانگی تھی تب میٹرک میں مجھے فسٹ ڈوین اور اسکالرشپ ملی تھی۔ لیکن یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ کئی نادان لوگ درباروں پہ جا کر شرک کرتے ہیں جو کہ گناہ عظیم ہے۔ اس کے علاوہ بزرگان دین کی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔ وہاں دعا مانگنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ وہاں درود فاتحہ پڑہیں اور دعا اللہ تعا لیٰ سے مانگیں۔ یہ کہنا کہ اے ولی ہماری مراد پوری کر دے قطعاً درست نہیں ۔یہ شرک کے زمرے میں آ جاتا ہے۔بے شک شرک نری تباہی ہے ، سب سے برتر ہستی تو ذات باری تعالیٰ ہے اور ولی بزرگ تو ایک وسیلہ ہیں۔
ؒ اہور کا نام شہروں میں بہت معتبر سمجھا جاتا ہے۔ ویسے تو فیصل آباد لاہور کا ہمسایہ شہر ہے لیکن ان دونوں شہروں کے تہذیب و تمدن اور ماحول میں بہت فرق ہے۔ اگر اسکا پڑوسی شہر فیصل آباد جگت بازوں کا شہر ہے تو لاہور پتنگ بازوں اور فنکاروں کا شہر ہے۔اگر اسلام آباد ، شاہوں کا شہر ہے تو لاہور بادشاہوں کا شہر ہے۔اگر فیصل آباد میں ٹیکسٹائل انڈسٹری ہے تو لاہور میں فلم انڈسٹری ہے۔پشاور، اپنے چپل کباب کے لیے مشہور ہے تو لاہور میں راوی کے کھگے شہرت رکھتے ہیں۔اہالیان کراچی نے اگر کنجوسی میں نام کمایا ہے تو لاہوری اپنی دریا دلی کے لیے جانے جاتے ہیں۔فیصل آباد کی زمینں اگر نہروں سے سیراب ہوتی رہی ہیں تو لاہور میں دریائے راوی اپنا رومانوی حسن بکھیرتا رہا ہے۔سب سے زیادہ گیتوں میں راوی کا نام استعمال ہوا ہے۔ حالانکہ دریا تو اور بھی ہیں مگر کسی شاعر نے دوسرے دریاؤں مثلاًدریائے سندھ، دریائے جہلم ،دریائے ستلج ، دریائے چناب اور دریائے اٹک کو اپنے گیتوں کے قابل نہیں سمجھا۔یہ اعزاز صرف دریائے راوی کو ابھی میرا آرٹیکل زیر تکمیل ہی تھا کہ لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر گولیاں برسانے کی افسوسناک خبر ملی۔گوفرض شناس پولیس اہلکاروں انے اپنی جان دی کر اور ڈرائیور نے فرج شناسی سے سری لنکن ٹیم کی جان تو بچا لی لیکن کرکٹ کا مستقبل پاکستان میں تاریک ہو گیا ہے۔ یہ پاکستان میں کرکٹ کے شائقین کے لیے کسی سانحہ سے کم نہیں۔ تاہم ایک بات تو یقینی ہے کہ یہ سب کچھ دشمنوں نے وطن عزیز میں کھیلوں کا مستقبل تاریک کرنے کے لیے کیا ہے۔اس سازش میں یقیناً کچھ اپنے بھی شامل ہونگے۔جب تک ایسے میر جعفروں کا خاتمہ نہیں کیا جائے گا ایسے واقعات رونماء ہوتے رہیں گے۔
میں نے جب سے شہروں پر آرٹیکلز لکھنے شروع کیے ہیں، مجھے بہت حیرت ہوئی کہ قارئین نے میری بہت حوصلہ افزائی کی بلکہ کئی لوگوں نے تو مجھ سے ان شہروں پر لکھنے کی فرمائش بھی کی جہاں میں کبھی نہیں گئی۔فیصل آباد کے آرٹیکل کے سلسلے میں مجھے مانچسٹر سے احمد صاحب نے تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ انکا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔ وہ بھی تمام تر ترقی کے باوجود اس شہر کی گندگی سے نالاں ہیں۔ انکے خیال میں صفائی سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ سیاستدان اور حکمران تو پہلے ہی قومی خزانہ اور بینکوں کی صفائی اور لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ اب وہ بیچارے فیصل آباد کی صفائی بھی کریں کیا؟نہیں جی یہ ایک ایسا مشکل کام ہے جو نہ میو نسپل کمیٹی کر سکتی ہے اور نہ ہی خاکروب۔ اہالیان فیصل آباد کو نہ صرف شہر کی بلکہ اپنے دلوں کی صفائی بھی کرنے کی ضرورت ہے ۔ پھر ہی یہ شہر صاف ہو سکتا ہے۔اجلا من اور اجلے لوگ! فیصل آباد سے محمد سلیم اس بات پر شکر گزار ہیں کہ کسی نے انکے شہر پر بھی لکھا۔ایک دوسرے صاحب نے بتایا کہ گوجرانوالہ بھی ایک اندسٹریل شہر ہے لہٰذا مجھے اس پر بھی لکھنا چاہیے۔ انکی یہ معصوم حب الوطنی سے بھر پور فرمائش پڑھ کر تو میرا جی چاہا کہ فوراً پوری کر دوں لیکن پھر مجھے یاد آیا کہ میں تو کبھی گوجرانوالہ گئی ہی نہیں اسلیے بغیر دیکھے کیسے لکھ سکتی ہوں!!
لاہور کا رقبہ پانچ سو کلو میٹرہے اور یہ کراچی کے بعدپاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔اسکی آبادی سات اعشاریۂ پانچ ملین ہے۔جبکہ ا نا سی فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔ لاہور کا موسم گرم ہے۔یہاں درجہ حرارت دس ڈگری سینٹی گریڈ سے لیکر بیالیس ڈگری سینٹی گریڈ تک جاتا ہے۔ نومبر سے مارچ تک بارشیں ہوتی ہیں۔لاہور ایک قدیم تہذیبی شہر ہے۔ اسکا ذکر چار ہزارسالہ قدیم تاریخی کتابوں میں بھی ملتا ہے۔ اسکی تاریخ کی کتاب، تاریخ عالم ،میں ۲۸۹ میں لکھی گئی جسکا ترجمہ یک انگریز مورخ نے۱۹۲۷ میں کیا۔ہندو تاریخ کے مطابق اسکا پرانا نام لاوا تھا۔ لاہور سطح سمندر سے سات سو چھ فٹ بلند ہے۔یہ دو ہزار سال سے پنجاب کا دارلحکومت رہا ہے۔مورخ رائے بنڈی کے مطابق اس شہر کی بنیاد رام چندر جی کے بیٹے لاہو نے رکھی تھی۔جب لاہور برباد ہوا تو پنجاب کا دارالحکومت سیالکوٹ کو بنا دیا گیا۔لاہور میں مختلف تہذیبیں جنم لیتی رہیں اور معدوم ہوتی رہیں۔ان مذاہب میں بدھ مت، ہندو،کنشک اور جین مت جیسے مذاہب شامل ہیں۔یہ تمام مذاہب اپنی مدت پوری کرنے کے بعد وقت کے اندھیروں میں گم ہو گئے۔آج اس شہر کا مذہب اسلام ہے۔اس قدیم شہر کا مزاج درویشانہ، ماحول کافرانہ اور رواج ہندوانہ ہے۔ باغات اور بلند وبالا جدید و قدیم عمارتوں سے آراستہ یہ شہر اسلامی شعائر سے عاری ہے۔یہاں و لیوں اور صوفیا کرام کے اڑتیس مزار ہیں مگر آج انکی تعلیمات پر بہت کم لوگ عمل پیرا ہیں۔اسکے بجائے اہا لیان لاہور کی اکثریت دشمنان اسلام کے نقش قدم پہ چل رہے ہیں۔یہاں ہندوؤں کے تہوار پوری دھوم دھام سے منائے جاتے ہیں۔بسنت کے تہوار پہ مکانوں کی چھتوں کے دروازے اور بازار ساری رات کھلے رہتے ہیں۔اسکی ایک بڑی وجہ ئی بتائی جاتی ہے کہ سیاح دور دور سے یہ تہوار دیکھنے آتے ہیں اس لیے یہ تہوار منایا جاتا ہے۔اسکا مطلب ہے کہ اہالیان لاہور سیاحوں کو خوش کرنے کیلیے یہ کرتب اور پتنگ بازی کی بازی گری دکھاتے ہیں۔ اس میں بے شک لوگوں کی جان چلی جائے ۔ ایسا جوش و خروش تو اسلامی تہواروں خصوصاًشب معراج ار رمضان میں بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔ اسلیے کہ کہ اہالیان لاہور کو اللہ کی خوشنودی سے ذیادہ ہمسایہ ملک اور سیاحوں کی خوشنودی عزیز ہے۔اسلام کا کوئی تہوار ایسا نہیں جس میں اتنی جانیں تلف ہوتی ہیں جتنی کہ بسنت پر۔ اسلیے کہ یہ ایک شیطانی تہوار ہے جو کہ ساری رات جاگ کر منایا جاتا ہے۔
یہ وہ تاریخی شہر ہے جہاں کئی بادشاہوں نے ڈیرے ڈالے۔انکی باقیات اور نشانیاں آج بھی محفوظ ہیں۔ان بادشاہوں نے فن تعمیرات کے انمول تحفے اس شہر تمنا کو عنائیت کیے۔ان قدیم عمارتوں میں بادشاہی مسجد، شالامار باغ، اور شاہی قلعہ جیسے انمول تعمیراتی نمونے شامل ہیں۔ان بے مثال عمارات کو دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے زا ئرین آتے ہیں۔اسکے علاوہاندرون وہر کافی قدیم عمارتین اور دروازے ایستادہ ہیں ۔ لاہور کامیوزیم بھی بہت اچھا ہے ۔ لیکن ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ وہاں حکیم لقمان کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن حکیم کا نادر نسخہ بھی پڑا تھا۔ یہ قدیم نسخہ چمڑے یا درخت کی چھال پر نہیں بلکہ کاغذ پر تھا۔حکیم لقمان کا ذکر قرآن حکیم میں بھی ہے ۔ جس زمانے میں حکیم لقمان تھے تب تو کاغذ ایجاد ہی نہیں ہوا تھا پھر یہ نسخہ کہاں سے آ گیا۔کاغذ پر قرآن حکیم حضرت عمررضی اللہ کے دور میں تدوین ہواتھا۔ کیا کسی اہل علم کے پاس اس بات کا جواب ہےَ ؟؟اہم بات یہ ہے کہ اہالیان لاہور نہ صرف یہان کی قدیم عمارتوں کی اہمیت سے واقف ہیں بلکہ انکی حفاظت کرنا بھی خوب جانتے ہیں۔انکا یہ وصف اہل لندن جیسا ہے۔ وہاں کے لوگ بھی اپنی پرانی عمارتوں کی حفاظت قیمتی ورثہ کی طرح کرتے ہیں۔یہاں کے لوگ اپنی تاریخ پر فخر کرتے ہیں اسی لیے تو لاہور شہر کا نام بہت معتبر سمجھا جاتا ہے۔
یوں تو لاہور کے سبھی اہم مقامات دیکھے ہیں۔ لیکن میں بچپن میں چڑیا گھر نہ دیکھ سکی جس کا مجھے ایک عرصہ سے قلق تھا۔تب میں فورتھ کلاس میں تھی جب ہملوگ لاہور کی سیر کو گئے، راولپنڈی سے۔سارے اہم مقامات کی سیر کر لی مگر چڑیا گھر نہ دیکھ سکی۔ چنانچہ راولپنڈی واپسی تک میں روتی رہی۔ پھر تو جو بھی لاہور سے آتا مجھ سے یہی پوچھتا کہ تم نے لاہور کا چڑیا گھر نہیں دیکھا۔اور میں منہ بسور کے رہ جاتی۔پھر اسلام آباد کے چڑیا گھر کو یوگنڈا کے حکمران عیدی امین نے ہاتھی کا تحفہ دیا۔ ہملوگ س ہاتھی پر سیر کیا کرتے تھے۔ مگرلاہور کے چڑیا گھر کی سیر کا شوق ابھی تک باقی تھا۔پھر ہملوگ ناروے شفٹ ہو نے کے بعد جب لاہور گئے تب میری یہ خواہش پوری ہوئی۔اس طرح جو خواہش میں نے فورتھ کلاس میں کی تھی وہ فورتھ ایئر میں جا کر پوری ہوئی۔چڑیا گھر کی سیر کر کے بہت لطف آیا۔ ہاتھی کی سیر تو نہ ہو سکی مگر مور کا رقص دیکھ لیا۔ مور بھی جیسے ہم لوگوں کا ہی منتظر تھاہمیں دیکھتے ہی رقص شروع کر دیا۔ اسے دیکھ کر قدرت کی صناعی پر جی بے اختیار عش عش کر اٹھا۔ ان خوبصورت لمحات کو
فلم میں محفوظ کرلیاگیا ۔
ویسے تو لاہور شہر بہت سی خوبیوں کا مالک ہے لیکن اسکا خوبصورت دریائے راوی خشک اور ویران پڑا ہے۔البتہ جب بھی بارش ہوتی ہے پورا شہر راوی بن جاتا ہے۔اب سننے میں آیا ہے کہ شہباز شریف نے واسا والوں کے کان کھینچے ہیں اور اب شہر کی حا لت پہلے سے بہتر ہو گئی ہے۔تاہم کہیں کہیں پھر بھی برسات میں راوی کا منظر تو ضرور ابھرتا ہو گا۔اس لیے بلدیہ لاہور کے لیے ایک نادر مشورہ ہے۔چونکہ بلدیہ لاہور ایک بے بس اور مجبور ادارہ ہے ۔ اس لیے وہ بیچارہ ساری کی ساری نئی سیورج لائنیں تو بچھا نہیں سکتا۔نہ ہی اس نظام کو کلی طور پر بہتر بنانا اس کے بس میں ہے۔اسلیے سیورج کا نظام بہتر بنانے کے بجائے کشتیاں بنانی چاہئیں۔ اسکے ساتھ ایک ٹاسک فورس تشکیل دی جائے جو ماہی گیروں اور کشتی چلانے والے ناخداؤں پر مشتمل ہو۔بارش ہوتے ہی جب لاہور شہر راوی دریا کا منظر پیش کرے ، کشتی سروس چلا دی جائے۔اسطرح دو فائدے ہو نگے ۔ ایک تو دریائے راوی کے خشک ہونے کا ملال بھی جاتا رہے گا اور دوسرے ٹرانسپورٹ کا متبادل نظام بھی کشتیوں کی صورت میں مل جائے گا۔اسطرح کچھ دیر کے لیے ہی سہی مگر راوی کی رنگینیاں لوٹ تو آئیں گی۔پاکستان پچھلی مرتبہ جب میں گئی تو ہم لوگ نو شہروں میں گئے۔پچھلی مرتبہ ہملوگ پانچ برس بعد پاکستان گئے تھے۔ کراچی تو میں زندگی میں پہلی مرتبہ گئی تھی۔ لاہور سے واپسی والے دن لاہور کی سرحد تک پہنچتے پہنچتے پانی گھٹنوں تک آگیا تھا۔کثر شہروں کے لوگوں نے بتایا کہ وہاں کئی برس سے بارش نہیں ہوئی تھی۔ گرمی غضب کی پڑ رہی تھی۔ ہم جس شہر میں بھی گئے اسی روز وہاں بارش شروع ہو جاتی ۔ رشتہ دار شکر کرتے کہ آپ آئے ہیں تو بارش بھی آگئی ورنہ لوڈ شیڈنگ نے سب کا برا حال کر رکھا تھا۔بات یہیں تک رہتی تو ٹھیک تھا لیکن ہوا کیا کہ جس روز ہم لوگ کسی شہر سے روانہ ہوتے اس روز وہاں پہ سیلاب آجاتا ہمارے جانے کے بعد۔نہ جانے کیوں؟؟
ؒ اہور ایک ایساشہر ہے جو اپنے دامن میں انگنت یادگاریں اور یاد گار ہستیاں سمیٹے ہوئے ہے۔یادگار پاکستان مینار پاکستان کی صورت میں شہر کے بیچوں بیچ بڑی شان سے ایستادہ ہے۔یہاں پہ بسنے اور کام کرنے والی ہستیوں نے دلوں پر راج کیا ہے ۔ اس لیے اس شہر کو دل والوں کا شہر کہنا بے جا نہ ہو گا۔ کوئی بھی شعبہ لے لیں، مذہب ، ادب، میڈیا فن اور سیاست، ہر شعبہ سے وابستہ لوگوں نے ملک گیر ہی نہیں بلکہ عالمگیر شہرت حاصل کی ہے۔یہ حقیقت صدیوں پر محیط ہے۔ اسی لیے تو سکندر اعظم سے لے کر تمام مغل بادشاہوں تک ہر بادشاہ لاہور آنا فرض سمجھتا تھا۔یہ صرف قدیم بادشاہوں کا ہی نہیں بلکہ جدید بادشاہ گروں کا بھی شہر ہے۔اسی لیے تو پوری دنیا کے لوگ اور سیاح بادشاہوں کی نشانیاں دیکھنے آتے ہیں۔ان نشانیوں میں پر شکوہ بادشاہی مسجد، شالا مار باغ، شاہی قلعہ اور بیشمار قدیم عمارتیں اورکل تیرہ دروازے ہیں۔ یہ قدیم نشانیاںآج بھی جوں کی توں موجود ہیں جو کہ لاہوریوں کے اعلیٰ ذوق کا ثبوت ہیں۔قدیم عمارتوں کے ساتھ ساتھ جدید عمارتیں بھی شہر کے حسن کو چارچاندلگا رہی ہیں۔ان میں مینار پاکستان، اقبال پارک،حضوری باغ، واپڈا ہاؤس پنجاب اسمبلی ہاؤس، اور فورٹریس اسٹیڈیم شامل ہیں۔لاہور شہر میں کل تیرہ دروازہ ہیں۔یہ دروازے قدیم وقتوں میں شہروں کی حفاظت کے لیے بنائے جاتے تھے۔ اسلام سے قبل عیسوی دور میں شہروں کے گرد فصیلیں اور دروازے تعمیر کرنے کا ذکر ملتا ہے۔یہ دیواریں اور دروازے درندوں دشمنوں اور ڈاکوؤں سے شہریوں کو بچانے کے لیے بنائے جاتے تھے۔آج پاکستان میں پھروہی پرانا دور لوٹ آیا ہے ۔ ا ب ہمیں پھرسے شہروں کو محفوظ کرنے کیلیے دیواریں اور دروازے تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلیے کہ آجکل وطن عزیز پھر سے انسان نماء درندوں اورڈاکوؤں کے نرغے میں ہے۔جبکہ یورپین ممالک میں ایسا عدم تحفظ نہیں ہے۔یہاں تو دیواریں گرائی جا رہی ہیں دیوار برلن جو کہ روس اور جرمنی کے درمیان تھی وہ گرا دی گئی ہے۔اسطرح پاکستان تحفظ کے لحاظ سے عیسوی صدی میں پہنچ گیا ہے۔ویسے تو پورا پاکستان ہی اس وقت قدیم ادوار کا منظر نامہ پیش کر رہا ہے۔ حکومت کو دیکھ لیں تو قارون اور فرعون بھی شرما جائیں۔ خواتین کے فیشن اور نمائش کو دیکھ لیں تو زمانہء جاہلیت کی یاد تازہ ہو جائے۔حکومت پر تو وہ مقولہ صادق آتا ہے۔
، چور اچکے چوھدری تے لنڈی رن پردھان
یہاں کی مشہور شخصیات نے اپنے شعبے میں ہی نہیں بلکہ لوگوں کے دلوں پر بھی راج کیا ہے۔یہ حقیقت صدیوں پر محیط ہے۔اسکی تازہ مثالیں شاعر منیر نیازی اور فیض احمد فیض ، گلوکارہ ملکہ ء ترنم نور جہاں اور شریف برادران ہیں۔شریف برادران کو بے شک سیاست سے نکال دیا گیا ہے، لیکن وہ عوام کے دلوں سے نہیں نکلیں گے۔اسوقت سیاست میں ان سے زیادہ مقبول شخصیات کوئی نہیں۔ نواز شریف اپنے نام کی طرح ایک دلنواز شخصیت کے مالک ہیں۔شہباز شریف نے جو فلاحی کام کیے ہیں انکی وجہ سے انہوں نے عوام کے دل جیت لیے ہیں۔قوموں اور لیڈروں پر اچھا اور برا وقت تو آتا ہی رہتا ہے۔ یہ برا وقت بھی گزر ہی جائے گا۔اس فیصلے پر پوری قوم سراپاء احتجاج بنی ہوئی ہے۔اس سلسلے میں میڈیا کا بھی اہم کردار ہے۔
اس مرتبہ کرسمس ہالیڈیز میں پاکستان جانا ہوا۔ تین ہفتے کے اس ٹور نے چودہ طبق روشن کر دیے۔ ہماری فلائٹ لاہور ہی اتری۔وہاں ایک دن کا اسٹے تھا۔ وہاں جیسے ہی اترے تو پتہ چلا کہ حالات بہت تشویشناک ہیں۔ واہگہ بارڈر پہ انڈیا اور پاکستان کی فوجیں آمنے سامنے کھڑی ایکدوسرے کو ، آ کوڈی کوڈی کر رہی ہیں249۔ ادھر بمبئی دھماکوں کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے لے لی ہے۔لہٰذا اب ہیر رانجھے کے شہر جھنگ میں بھی جنگ کا خطرہ ہے۔محرم کی آمد کی وجہ سے شیعہ سنی فسادات بھڑکنے کا الگ خدشہ تھا۔لہٰذا پولیس بھی ہائی الرٹ تھی۔وہاں ٹریفک ایسی تھی جیسے گاڑی سڑک پر نہیں سرکس والے موت کے کنویں پر چل رہی ہو۔ کوئی قائدہ قانون نہ تھا۔انہی اندیشوں کے سائے میں ہملوگ اپنے میزبانوں کے گھر پہنچے۔وہاں انہوں ے ہماری تواضع لاہوری ناشتے یعنی پوری حلوے سے کی۔ چنانچہ جاتے ہی گلا بیٹھ گیا۔ اس طرح تقریب عروسی میں ڈھولک کی تھاپ پہ روائتی گیتوں کے سر جگانے کا خواب ادھورا ہی رہ گیا۔یہاں ہمیں ایک تقریب عروسی میں شرکت کرنا تھی ۔اگلے روز سے تقریب شروع تھی۔ اسی شام کو لبرٹی میں شاپنگ کا پروگرام تھا۔ناشتہ کر کے ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے تو خبر آئی کہ لبرٹی میں دھماکہ ہوا ہے۔تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔سر شام ہی ہماری فیملی شاپنگ کے لیے نکل کھڑی ہوئی۔کرسمس کی وجہ سے بازار خوب سے ہوئے تھے۔مسیحی برادری بڑی تعداد میں شاپنگ میں مصروف تھی۔ہم لو گ جو توں کی ایک مہنگی اورمشہور دوکان مین شاپنگ کی غرض سے داخل ہوئے۔وہاں ہر جانب مسیحی گاہک بمع اہل و عیال موجود تھے۔اکثریت ملگجے لباس میں تھی۔ لگتا تھا کہ جاب سے سیدھے خریدداری کے لیے تشریف لے آئے ہیں۔ایک تین سالہ گل گوتھنا سا بچہ میری جانب دوستانہ انداز سے دیکھنے لگا۔ بچہ بے حد خوبصورت اور گول مٹول تھا۔ اس نے کالا اورسفید گرم کوٹ اور گرد آلود پاجامہ پہن
رکھا تھا۔ وہ میلے کچیلے لباس میں گدڑی کا لعل معلوم ہو رہا تھا۔ میں باوجود خواہش کے اسے چھو نہ سکی۔بس
ایک مسکراہٹ دیکر اآگے بڑھ گئی۔جوتوں کی دوکان پر فینسی جوتے چار ہزار روپئے سے لیکر ڈیڑھ ہزارکی قیمت کے تھے۔ یہ قیمت وہاں پہ رہنے والوں کے لیے بہت ذیادہ تھی۔وہاں سے میچنگ جوتے خرید کر ہملوگ کپڑوں کی دوکان پر چلے گئے۔ یہاں بھی مہنگائی ہوشربا تھی۔ فینسی سوٹوں کی قیمت آٹھ ہزار سے شروع ہوتی تھی۔ ڈریسز کی دوکانوں کا رش دیکھ کر بالکل احساس نہیں ہوتا کہ پاکستان ایک
غریب ملک ہے۔اس مرتبہ تین ہفتوں کے ٹور میں ، میں چھ شہروں میں گئی ہوں جن میں لاہور، اسلام آ باد، راولپنڈی ،جھنگ ، فیصل آ باد اور تربیلا شامل ہیں۔ ان تمام شہروں کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے اور کسی شعبے میں ترقی کی ہو یا نہ کی ہو لیکن فیشن اور کھانے پینے کے شعبے میں بہت ترقی کی ہے۔ غریب اور پسماندہ علاقوں کی ریڈی میڈ کپڑوں کی دوکانوں پہ بھی فنکشنز اور شادیوں کے لباس ہینگروں میں جھول رہے ہوتے ہیں۔ گویا پورا ملک شادیء مرگ میں مبتلا ہو چلا ہے۔
گو کہ لاہور شہر میں کئی صوفی بزرگوں کے مزار ہیں لیکن اسکی معاشرت میں پڑوسی ملک انڈیا کی ثقافت کا رنگ گہرا ہے۔اسلام صرف درباروں پہ دھمال ڈالنے اور دکھاوے کے لیے ہی رہ گیا ہے۔اسی لیے یہاں ہر شخص پریشان نظر آتا ہے۔
اپنے پڑوسی شہر فیصل آباد کی طرح لاہور کا سرحدی علاقہ بھی انڈسٹریل ایریا ہے۔ یہاں کیمیکلز کی متعدد فیکٹریز ہیں ۔ ان میں سلیکیٹ، سوڈا کاسٹک اور تیل صاف کرنے کی فیکٹریز ہیں۔ یہ میٹیریل صابن بنانے اور شیشہ بنانے کی فیکٹریز میں جاتا ہے۔ انکی وجہ سے وہاں کی فضا آلودہ اور بدبودار ہے۔ لہٰذا لاہور یاترا کے لیے براستہ سڑک آنے والے سیاحوں کو لازمی نائٹروجن اور دوسری بدبودار گیسز سے ناک سینکنی پڑتی ہے۔ اسکے علاوہ لاہور کے مضا فاتی علاقوں کے نام بھی عجیب ہیں جن میں کالا شاہ کاکو، مرید کے اور چھانگا مانگا شامل ہیں۔ان ناموں کو مزاح نگار شوق سے اپنی مزاحیہ تخلیقات میں استعمال کر
سکتے ہیں۔تاہم اگر مغل دور کے بادشاہوں کا گزرکالاشاہ کاکو اور مرید کے کی کیمیکل انڈسٹریز کے علاقے سے ہوتا تو وہ لاہور میں اتنے خوبصورت باغات کی تعمیر سے توبہ کر لیتے۔اسے باغات کا شہر بھی کہا گیا ہے۔ اس میں سولہ کے قریب باغات ہیں کچھ باغات کھنڈر بن چکے ہیں ۔ انکے اب صرف نام ہی باقی ہیں۔ شالامار باغ کے علاوہ ان میں قابل ذکر باغا ت ڈ یوڑھی باغ، نولکھا باغ،بارہ دری باغ،چوبرجی باغ،کامران باغ اور جناح باغ وغیرہ شامل ہیں ۔یہ شہر تاریخ کے طلبہء کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔
اس شہر میں بادشاہوں اور ولیوں دونوں کے مزار ہیں۔یہاں نہ صرف قدیم تاریخ و تہذیب ملتی ہے بلکہ نئی نسل کے لیے سبق آموزی بھی ہے۔
مشہور اسپتالوں میں گلاب دیوی،شیخ ذید ہسپتال، گنگا رام ہسپتال،لیڈی ولنگٹن ہسپتال،وغیرہ شامل ہیں۔ مشہور فلمی اسٹوڈیوذ میں باری اسٹوڈیوز اور شاہ نور اسٹوڈیوز شامل ہیں لہاٰذا کسی کو فلمی ہیرو بننا ہے یا فلم کی شوٹنگ بالمشافہ ملاحظہ کرنی ہے تو یہاں تشریف لے جا سکتے ہیں۔ ادبی محافل کے لیے الحمرا ہال،پاک ٹی ہاؤس، چوپال ناصرباغ، اور رائٹرز گلڈ کلب شامل ہیں۔
لاہورہر لحاظ سے ایک خوبصورت اوربے مثال شہر ہے مگر اس میں کمی ہے تو اسلامی شعائر کی۔ لاہور میں رہنے والوں کو اسے اسلامی طور طریقوں سے مزین کرنا ہوگا، تاکہ اسکا نام رہتی دنیا تک رہے۔اب یہ شہر اپنی تاریخ کی طرح پھر کبھی تاراج نہ ہو۔ یہ شہر دشمن کی منہوس نظروں سے محفوظ رہے۔آمین