دل کو زندہ رکھنے کا نسخہ
۔۔۔۔ذکر اللہ
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی ایم اے سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال
عَنْ اَبِیْ مُوْسیٰ قَالَ قَالَ النَّبِیُّ ﷺ مِثْلُ الَّذِیْ یَذْکُرُ رَبَّہٗ وَالَّذِیْ لَا یَذْکُرُ رَبَّہٗ مِثْلَ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ۔’’حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص اللہ کا ذکر کرتا ہے اور جو نہیں کرتا ان دونوں کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے ،کہ ذکر کرنے والا زندہ اور ذکر نہ کرنے والا مردہ ہے ۔‘‘
زندگی ہر شخص کو محبوب ہے اور مرنے سے ہر شخص ہی گھبراتا ہے ۔حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو اللہ کا ذکر نہیں کرتا وہ زندہ بھی مردے ہی کے حکم میں ہے ،اس کی زندگی بھی بیکار ہے ۔
بعض علماء نے فرمایا کہ یہ دل کے حال کا بیان ہے کہ جو شخص اللہ کا ذکر کرتا ہے اس کا دل زندہ رہتا ہے اور جو ذکر نہیں کرتا اس کا دل مر جاتا ہے ۔
زندگی زندہ دلی کا نام ہے مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں
عَنْ مَعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِیَّ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہَ ﷺ لَیْسَ یَتَحَسَّرَ اَہْلُ الْجَنَّۃِ اِلَّا عَلیٰ سَاعَۃٍمَرَّتُ بِھِمْ لَمْ یَذْکُرُوْا اللّٰہَ تَعَالیٰ فِیْھَا۔’’حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جنت میں جانے کے بعد اہل جنت کو دنیا کی کسی چیز کا بھی قلق و افسوس نہیں ہو گا۔ بجز اس گھڑ ی کے جو دنیا میں اللہ کے ذکر کے بغیر گذر گئی ہو ،‘‘
جنت میں جانے کے بعد جب یہ منظر سامنے ہو گا کہ ایک دفعہ اس پاک نام کو لینے کا اجر و ثواب کتنا زیادہ تعداد میں ہے کہ یہاڑوں کے برابر ثواب مل رہا ہے تو اس وقت اس اپنی کمائی کے نقصان پر جس قدر افسوس ہو گا وہ ظاہر ہے ۔ایسے خوش نصیب بندے بھی ہیں جن کو دنیا ہی بغیر ذکر اللہ کے اچھی نہیں معلوم ہوتی ۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یحییٰ بن معاذ رازی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مناجات میں کہا کرتے تھے :’’ یا اللہ ! رات اچھی نہیں لگتی مگر تجھ سے راز و نیاز کے ساتھ ،اور دن اچھا معلوم نہیں ہوتا مگر تیری عبادت کے ساتھ اور دنیا اچھی نہیں معلوم ہوتی مگر تیرے ذکر کے ساتھ اور آخرت بھلی نہیں مگر تیری معافی کے ساتھ اور جنت میں لطف نہیں مگر تیرے دیدار کے ساتھ۔‘‘
حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جرجانی کو دیکھا کہ ستو پھانک رہے ہیں ،میں نے پوچھا کہ یہ خشک ہی پھانک رہے ہو؟ کہنے لگے کہ میں نے روٹی چبانے اور پھانکنے کا جب حساب لگا یا تو چبانے میں اتنا وقت زیادہ خرچ ہوتا ہے کہ اس میں آدمی ستر مرتبہ سبحان اللہ کہہ سکتا ہے ۔ اس لئے میں نے چالیس برس سے روٹی کھانا چھوڑ دی ہے اور ستو پھانک کر گزر کر لیتا ہوں۔‘‘
منصور بن معمر رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق لکھا ہے کہ چالیس برس تک عشاء کے بعد کسی سے بات نہیں کی ۔
ربیع بن ھیثم کے متعلق لکھا ہے کہ بیس برس تک جو بات کرتے اس کو ایک پرچہ پر لکھ لیتے اور رات کو اپنے دل سے حساب کرتے کہ کتنی بات اس میں ضروری تھی اور کتنی غیر ضروری۔
غرضیکہ حدیث زیر نظر سے وقت کی اہمیت مفہوم ہوئی اور اللہ والوں کی سیرت و عمل سے وقت کی قدر کرنے کا سبق ملا ہے ۔
عَنْ اَنْسٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ قَالَ مَا مِنْ قَوْمٍ اِجْتَمَعُوْ ا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ ،لَا یُرِیْدُوْنَ بِذٰلِکَ اِلَّا وَجْہ اللّٰہِ ،نَادٰھُمْ مُنَادٍ مِنَ السَّمَآءِ اَنْ قُوْمُوْا مَغْفُوْرًا لَّکُمْ قَدْ بَدَّلْتُ سَیِّاآتِکُمْ حَسَنَاتٍ۔’’ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو بھی لوگ اللہ کے ذکر کے لئے مجتمع ہوں اور ان کا مقصودصرف اللہ ہی کی رضا ہو ،تو آسمان سے ایک فرشتہ ندا کرتا ہے کہ تم لوگ بخشدئیے گئے اور تمہاری برائیاں نیکیوں سے بدل دی گئیں۔‘‘
ایک حدیث میں آیا ہے کہ جس مجلس میں اللہ کا ذکر نہ ہو ،حضور اکرم ﷺ پر درود نہ ہو ،اس مجلس والے ایسے ہیں جیسے مرے ہوئے گدھے پر سے اٹھے ہوں۔‘‘
ایک حدیث میں آیا ہے کہ مجلس کا کفارہ یہ ہے کہ اس کے اختتام پر یہ دعا پڑھ لے :سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَاَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَ اَتُوْبُ اِلَیْکَ۔
ایک حدیث میں ہے کہ مجلسوں کا حق ادا کیا کرو! اور وہ یہ ہے کہ اللہ کا ذکر ان میں کثرت سے کرو ،مسافروں کو (بوقت ضرورت) راستہ بتاؤ،اور ناجائز چیز سامنے آجائے تو آنکھیں بند کرو(یا نیچی کر لو کہ اس پر نگاہ نہ پڑے )۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ارشاد فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ چاہے کہ اس کا ثواب بہت بڑی ترازوں میں تلے (یعنی ثواب بہت زیادہ مقدار میں ہو) ،اس کو چاہیے کہ مجلس کے ختم ہونے پر یہ دعا پڑھا کرے :سُبْحَانَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوْن ،وَسَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْن، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن۔
مجلس کے ختم پر دعا مذکورہ بالا اور یہ الفاظ پڑھ لینے سے بہت فائدہ ہوتا ہے ۔
عَنْ اَبِیْ الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اَلَا اُنَبِّءُکُمْ بِخَیْرِ اَعْمَالِکُمْ ،وَاَزْکَاھَا عِنْدَ مَلِیْکِکُمْ ،وَ اَرْفَعَھَا فِیْ دَرَجٰتِکُمْ وَ خَیْرٍ لَّکُمْ مِنْ اِنْفَاقِ الذَّہَبِ وَالْوَرِقِ، وَخَیْرٍلَّکُمْ مِنْ اَنْ تَلْقُوْا عَدُّوَّکُمْ فَتَضْرِبُوْ ا اَعْنَاقِھِمْ وَیِضْرِبُوْا اَعْنَاقِکُمْ؟ قَالُوْا بَلٰی قَالَ ذِکْرُ اللّٰہِ ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ کیا میں تمہیں ایسے بہترین اعمال نہ بتادوں جو رب کے نزدیک بہت ستھرے اور تمہارے درجے بہت بلند کرنے والے ،اور تمہارے لئے سونا ،چاندی خیرات کرنے سے بہتر ہوں اور تمہارے لئے اس سے بھی بہتر ہوں کہ تم دشمن سے جہاد کرو اور تم ان کی گردنیں مارو اور تمہیں شہید کریں ؟ صحابہ نے عرض کیا؟ ہاں! تو فرمایا: وہ عمل ۔اللہ کا ذکر ہے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں زیادہ سے زیادہ ذکر کرنے کی توفیق دے ۔آمین
جاری کردہ
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی
سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال پنجاب پاکستان
موبائل نمبر0300-6491308