دینی اصطلاح میں
از،عابدہ رحمانی
آج کل کے زمانے میں جب کہ ہر طرف دل کی بیماریوں کا تذکرہ ہے اوراس کے علاج معالجے میں نت نئی تحقیق ہو رہی ہے۔
ہم یہ دیکھیں کہ دینی اصطلاح میں دل کن بیماریوں میں مبتلاہیں۔ حضوراکرمۖ کا ارشا دہے۔ آگاہ ہو جا کہ سینے میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جب یہ تندرست ہو تو تمام بدن تندرست رہتا ہے اور اگر اس میں خرابی و فساد پیدا ہو جائے تو سارے جسم میں خرابی و فساد پیدا ہو جاتا ہے-
دل کی بیماریوں سے مراد تکبر، ریا، غصہ، بغض، حسد، کینہ، منافقت یہ بیماریاں انسانی اخلاق و کردار کو گھن کی طرح کھا جاتی ہیں۔
تکبراور غرور—
ابی و ستکبر
(1 غرور کا مطلب دھوکا، تکبر کا مطلب بڑائی، تفاخر جتانا اور دوسروں کو حقیر جاننا۔غرور و تکبر ابلیس کی سرشت ہے۔ اس نے جب اپنے رب کے حکم سے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور اپنے آپ کو بڑا سمجھا۔
ابلیس کے تکبر کی بنیاد یہ تھی کہ وہ آگ سے اور آدم مٹی سے ہیں۔
تکبر اور کبریائی صرف اللہ کے لیے ہے ہم کہتے ہیں اللہ اکبر۔اللہ بڑا ہے -اللہ کے سوا کسی کی کبریائی نہیں-
تکبر کن باتوں پر ہوتا ہے(الف)حسب و نسب(ب) مال و دولت و اولاد کے لحاظ سے (ج) خوشحالی کے لحاظ سے (د) خوش شکلی کے لحاظ سے (ر) تقوی دینداری و علم یہ تمام عطیہ خداوندی ہیں اور اس ذات کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔
حسب ، نسب، مرتبہ۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے اِن اکرمکم عنداللہِ اتقاکم۔ اللہ کے نزدیک حسب مراتب کی ایک ہی کسوٹی ہے بے شک تم میں عز
ت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو اللہ سے ڈرنے والا ہو گناہوں سے بچنے والا ہو–
مال و دولت اور اولاد کے لیے قرآن میں ارشاد ہے۔
المال و البنون زینت الحیو الدنیا و الباقیات الصالحات خیر عِندربک ثواباو خیراملا۔
مال اور اولاد دنیا کی رونق ہیں۔ باقی رہنے والے تو نیک اعمال ہیں۔ وہ تمہارے رب کے نزدیک ثواب اور امید کے لحاظ سے ہزار درجہ بہتر ہیں۔ اسلئے مال و
دولت ، اولاد کی قابلیت ، کثرت ، صرف اس دنیا کی شان ہے-اللہ تعالی کی نظر میں انکی چنداں حیثئت نہیں ہے اگر کوئی حیثیت ہے تو نیک اعمال کی جو انسان انجام دیتا ہے اپنے مال سے دنیا میں کوئی نیک کام انجام دیتا ہے اولاد نیک اور صالح ہو تو اسکے لئے مرنے کے بعد صدقہ جاریہ بن جاتا ہے-
دنیا کی زندگی کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہے۔
وما الحیو الدنیا الا متاع الغرور
دنیا کی زندگی دھوکے کے سرمائے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
غرور کے معنی دھوکے کے ہیں اور اس طرح ہم اپنی بڑائی جتلا کر دوسروں کو حقیر جان کر اپنے آپ کو دھوکے میں مبتلا کرتے ہیں۔اللہ جب چاہے تو یہ سارے عطیے ہم سے چھین سکتا ہے۔ وہی عزت دینے والا ہے، وہی ذلت دینے والا ہے، وتعزمن تشا وتذِل من تشا۔ بلکہ اس طرح کی مثالیں ہماری اپنی زندگی میں ہی مشاہدے میں آتی ہیں–
شکل وصورت بھی اللہ کی عطا کردہ ہے اس نے کسی کا رنگ گورا بنایا تو کسی کا کالا، کوئی پیلا ہے تو کوئی بھورا، کسی کا ناک نقشہ کیسا ہے اور کوئی کیسا، کسی کو جسمانی معذوری دی ہے اور کوئی ذہنی معذور ہے۔ اپنے حسن پر ناز کرنا بھی غرور وتکبر کی نشانی ہے۔ حجتہ الوداع کے خطبے میں حضورۖ کا ارشاد ہے کسی عربی کو عجمی پرعربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی ، گورے کو کالے پر اورکالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے اگر فضیلت ہے تو تقوی کی بنیاد پر۔ یہاں ہم جائزہ لینگے کہ تمام اعمال کی کسوٹی تقوی ہے —
دینداری پر غرور۔ اب جو لوگ اپنی زندگیوں میں نیک اور عمل صالح کر رہے ہیں وہ اس بنا پر غرور کے پندار میں مبتلا ہو جائیں کہ ہم تو نیک ہیں اچھے ہیں باقی لوگ بے حد خراب ہیں اور اس بنا پر دوسروں کو کم تر و حقیر جانیں یہ طریقہ بھی اللہ کے ہاں انتہائی ناپسندیدہ ہے۔ حضوراکرمۖ کا ارشاد ہے کہ نہ تو میرا عمل مجھے جنت میں لے جائے گا اور جہنم سے بچا سکے گا اورنہ تمہارا مگر اللہ کے فضل و کرم سے۔ اس لیے اللہ کا خوف اور اس سے امید رکھنی چاہیے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسولۖ نے فرمایا جس کے دل میں رائی برابر بھی غرور ہو گا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔
ایک شخص نے کہا کہ آدمی اچھے کپڑے اور جوتے پسند کرتا ہے تو حضور نے جواب دیا اللہ تعالی صاحبِ جمال ہے وہ نفاست اور پاکیزگی کوپسند کرتا ہے۔ تکبر تو یہ ہے کہ حق بات کو نہ مانا جائے اور لوگوں کوحقیر جانا جائے۔ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رسولۖ نے فرمایا کہ اللہ تعالی قیامت کے دن اس شخص کی طرف نگاہ بھی نہیں کرے گا جو تکبر سے اپنا کپڑا گھسیٹ کر چلتا ہے۔
ایک اور حدیث میں روایت ہے کہ رسولۖ نے فرمایا کہ میں تمہیں دوزخ والوں کی خبر دوں جن میں سرکش، بخیل اور متکبر ہیں۔
پہلے تو یہی سوچنا چاہیے کہ ہماری ابتدا و انتہا کیا ہے۔ ابتدا نجس وناپاک منی کا قطرہ اور انتہا مردہ لاش اور کیڑے مکوڑوں کی غذا۔ حیات دنیا میں منوں نجاست پیٹ میں بھری ہے جیسا کہ سورہ دھر میں ہے ۔ ھل اتی علی الانسانِ حین من الدھرلم یک شیئامذکورا۔ کیا انسان پر ایک ایسا وقت بھی تھاکہ وہ زمانے میں کوئی قابل ذکرچیز نہیں تھا۔
جس علم سے تکبر پیدا ہو وہ جہل سے بھی بدتر ہے۔ حقیقی علم سے اللہ کا خوف اور خشیت بڑھے گی۔ رسول مقبولۖ کا ارشاد ہے ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے مگر وہ ان کی زبان پر ہی رہے گا نہ حلق سے نیچے اترے گا اور نہ قلب تک اس کا اثر پہنچے گا۔ لوگوں سے کہیں گے ہم قاری ہیں، عالم ہیں ہمارے برابر دوسرا نہیں- سن لو یہ لوگ دوزخ کا ایندھن ہوں گے۔
ایک مرتبہ حضرت حذیفہ نماز میں امام بنے ۔سلام پھیر کر کہنے لگے کہ صاحبو اپنے لیے کوئی دوسرا امام تلاش کرو یا علیحدہ علیحدہ نماز پڑھ لیا کرو میں امامت کے لائق نہیں ہوں کیونکہ اس وقت میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ چونکہ میرے برابر ساری جماعت میں کوئی شخص نہیں اس لیے مجھے امام تجویز کیا گیا۔
ریا :-
اللہ کا ارشاد ہے فویل اللمصلین الذین ہم یران و یمنعون الماعون ۔تباہی ہے ان نمازیوں کے لیے جو دکھاوے کے لیے نماز پڑھتے ہیں۔ ہر مسلمان کے لیے لازم ہے کہ اپنے اعمال و عبادات کو ریا و نمود سے بچائے کیونکہ ریا شرکِ اصغر ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے جب الہ تعالی بندوں کو جزا و سزا اور انعامات عطا فرمائے گا تو ریاکاروں کو حکم دے گا کہ انہی کے پاس جا جن کے دکھاوے کو نمازیں پڑھتے اور عبادتیں کیا کرتے تھے اور انہی سے اپنی عبادتوں کا ثواب لو۔ دیکھو کیا دیتے ہیں۔
دوسری حدیث میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسولۖ نے مجھ سے بیان کیا کہ جب قیامت کا دن ہو گا تو اللہ کی عدالت میں غازی، عالم اور سخی کی پیشی ہوگی اور تینوں اپنے جہاد فی سبیل اللہ، تعلیم و علم اور مشغلہ علم دین اور اپنے خیرات و صدقات کا اظہار کریں گے تو حکم یہ ہو گا کہ چونکہ یہ اعمال دکھاوے کے لیے کیے ہیں کہ تمہیں عالم، سخی اور شہید یا غازی کہلائے جا تو دنیا میں تمہاری خوب واہ واہ ہوتی رہی اب جا جہنم میں۔
ظاہری صورت میں زہد و تقوی اختیار کرنا جبکہ باطن اس صفت سے محروم ہو۔
نیک اعمال صرف اس وقت کیے جائیں جب کہ دیکھنے والے موجود ہوں یا اس کو اتنا مشتہر کر دیا جائے جیسے کہ آج کل ہوتا ہے کہ خدمت خلق کے کاموں کی اخبارات اورٹیلی ویژن سیاور دیگر ابلاغ سے تشہیر کی جاتی ہے۔
نیکی کے دوسرے اعمال میں اخلاص سے زیادہ نمائشی پہلو ہے اور پھر یہ توقع کہ ہماری تعریف کی جائے اور واہ واہ ہو۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں اگر نیت دکھاوے کی ہو گی تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور جس چیز کو اسے مقصود بنایا ہوتا ہے وہ زندگی بھر اسے دھوکے میں مبتلا رکھتی ہے حتی کہ جب وہ اللہ کے ہاں پہنچتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ جن اچھائیوں پر وہ زندگی بھر پھولتا رہا وہ تو اس کے نامہ اعمال میں سرے سے موجود ہی نہیں۔
حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں کہ رسولۖ نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے ہم اس وقت مسیح دجال کا ذکر کر رہے تھے۔
حضور نے فرمایا کہ میں تمہیں اس چیز کی خبر نہ دوں جو میرے نزدیک دجال سے بھی زیادہ خوف کھا جانے والی ہے؟
ہم نے عرض کیا” کیوں نہیں۔ ”
تو آپۖ نے فرمایا کہ وہ شرکِ خفی ہے کہ کوئی نماز پڑھنے کھڑا ہو اور جب کسی کو متوجہ دیکھے تو اپنی نماز کو خوب بنا سنوار کر پڑھنے لگے۔
ریاکار کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں، اس کی عزت کریں، اسے دیندارسمجھیں، اس پر بھروساکریں۔ حالانکہ وہ اس قابل نہیں ہے۔
ریاکار کے تعلقات میں خلوص کا عنصر نہیں ہوتا۔ اللہ تعالی سے تعلق بھی ریا پر مبنی ہوتا ہے اور اس کے بندوں سے تعلق میں بھی ریا ہو تو خلوص و محبت بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ کسی بھی نیک کام کو کرنے میں نیت کا اخلاص لازمی ہے اگر ہمارا مقصد صرف اللہ کی خوشنودی ہو گا تو دوسروں کی واہ واہ سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
غصہ:-
دل کی بیماریوں میں غصہ کی حیثیت کافی اہم ہے۔ روحانی لحاظ کے علاوہ طبی لحاظ سے بھی غصہ ہماری صحت اورخصوصا صحت قلب کے لیے بے حد نقصان دہ ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی نے مومنین کی جو صفات بیان کی ہیں ان میں یہ اہم ہے ۔ والکاظمین الغیض۔ اور جو غصے کو پی جاتے ہیں۔
غصے کے عالم میں انسان اپنے آپے سے باہر ہو جاتا ہے اس لیے حضورۖکی حدیث ہے کہ کسی شخص کو پچھاڑنے سے آدمی پہلوان نہیں ہوتا بہادر وہ ہے جو غصے میں اپنے نفس کو پچھاڑ دے۔
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضورۖکی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے نصیحت کیجیے۔
آپۖ نے فرمایا کہ غصہ نہ کیا کرو ۔آپ ۖ سے اس نے پھر پوچھا تو آپۖ نے یہی جواب دیا۔
غصے کے عالم میں انسان کو اپنی زبان پر اختیار نہیں رہتا۔ گالی گلوچ، بدزبانی، لعن طعن حتی کہ مارپیٹ کی نوبت آجاتی ہے۔ جیسا کہ آج کل ہم اپنے معاشرے میں دیکھ رہے ہیں کہ غصے کی حالت میں مسلمان بھائی آپس میں دست و گریباں ہیں بات بے بات اسلحہ کا استعمال ہوتا ہے اور معمولی معمولی باتوں پر قتل و غارت گری ہو رہی ہے۔ روزانہ اخبارات اس قسم کی خبروں سے بھرے رہتے ہیں پھر غصے کے عالم میں انتقامی کارروائیاں ہوتی ہیں جس سے انسان حیوان کا روپ دھار لیتا ہے۔
البتہ خلاف شرع باتوں پر ناجائز افعال پر اور دین کی ہتک پر غصہ اور ناگواری لازم ہے۔ غصے کو اپنے تابع کرنے کے بعد ایسا کر دیا جیسا کہ شکاری کتا ہوتا ہے کہ جب مالک کہے تو وہ اپنے شکار کے پیچھے بھاگے اورحملہ کرے ورنہ خاموش بیٹھا رہے۔غصہ برداشت کرنے کی ایسی ترکیب ہونی چاہیے کہ نفس کی باگ قابو میں ہو۔ حلم و برداشت کی عادت ہواپنینفس_ کی نافرمانی پر غصہ آئے۔پھر جس کی کسی بات پر غصہ آ جائے تو یہ سوچا جائے کہ میرا اس پر کیا حق ہے اور اللہ کا مجھ پر کیا حق ہے پھر یہ کہ میں اس کا مالک نہیں، خالق نہیں، اس کورزق نہیں دیتا، اس کی زندگی اللہ کی عطا کردہ ہے۔ پھر یہ کہ میں خود اپنے مالک حقیقی کی کتنی نافرمانیاں کرتا ہوں، بیسیوں خطائیں مجھ سے سرزد ہوتی ہیں جب وہ سب برداشت کرتا ہے تو میری یہ حالت کیوں ہے کہ ذرا سی بات مزاج کے خلاف ہو تو میں اس کی جان کے درپے ہو جاتا ہوں پھر جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے۔
حضرت سلیمان بن اوس ۔۔۔بیان کرتے ہیں کہ میں رسول ۖ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ دو آدمی باہم گالی گلوچ کرنے لگے ان میں سے ایک کا چہرہ سرخ ہو گیا گلے کی رگیں تن گئیں تو رسولۖ نے فرمایا کہ مجھے ایک کلمہ معلوم ہے اگر یہ شخص اسے کہ لے تو اس کی یہ حالت جاتی رہے۔ اعوذباللہ من الشیطن الرجیم۔
اس پر صحابہ نے اسے کہا کہ شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ لے تو وہ کہنے لگا”کیامجھے جنون ہو گیا ہے؟”
اس لیے جب غصہ بہت آئے تو اعوذباللہ پڑھ لینا چاہیے کیونکہ غصہ شیطانی اثر ہے۔شیطان کے شر سے جب پناہ مانگی جائے تو اثر زائل ہو جاتا ہے۔
دوسری حدیث میں رسول ۖ کا ارشاد ہے کہ جب تمہیں کھڑا ہونے کی حالت میں غصہ آئے تو بیٹھ جا، اور بیٹھے ہو تو لیٹ جا اور اس سے بھی غصہ ٹھنڈا نہ ہو تو وضو کر کے اپنا گال زمین پر رکھ دو۔ حدیث میں آیا ہے اللہ کے نزدیک سب سے بہتر گھونٹ جو مسلمان پیتا ہے غصے کا گھونٹ ہے۔
رسولۖ فرماتے ہیں کہ جس مسلمان کو اپنی بیوی، بچوں یا ایسے لوگوں پر غصہ آیا جن پر اپنا غصہ جاری رکھ سکتا ہے اور وہ اس کو ضبط کر لے یا تحمل سے کام لے تو اللہ تعالی اس کا قلب امن و ایمان سے لبریز فرما دے گا۔
بدگمانی:-
دلوں میں فساد ڈالنے کا ایک بڑا سبب بدگمانی بھی ہے۔ بدگمانی یہ کہ بغیر کسی ثبوت اور مضبوط بنیاد کے دوسروں کے بارے میں بدگمانی کی جائے کہ اس نے یوں کیا ہو گا تو اس کا یہ مطلب ہو گا۔ بہت سے جھگڑے فساد محض غلط فہمی اور بدگمانی کی بنا پر ہوت ہیں۔ آج کل انگریزی میں اس قسم کے شخص کو جو ہر ایک سے برا گمان رکھتا ہو اور ہر ایک کو اپنا دشمن سمجھتا ہو۔ Paranoidکہا جاتا ہے اور یہ ایک نفسیاتی بیماری بھی کہلاتی ہے۔رسول اللہ ۖنے فرمایا کہ بچو بدگمانی سے کیونکہ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے۔ اور کرید نہ کیا کرو اور ٹوہ میں نہ رہا کرو اور باہم ایک دوسرے سے دشمنی نہ رکھا کرو ۔
ام المومنین حضرت صفیہ بیان کرتے ہیں کہ رمضان کے آخری عشرے میں جب حضور مسجد نبوی میں معتکف تھے تو وہ آپۖ سے ملنے آئیں جب وہ واپس جانے لگیں تو رسول ۖ بھی آپ کوچھوڑنے کے لیے اٹھے۔ اسی دوران میں انصار میں سے دو مرد گزرے انہوں نے رسولۖ کو سلام کیا۔
نبی کریمۖ نے ان سے کہا” یہ میری بیوی صفیہ ہیں۔”
وہ کہنے لگے” سبحان اللہ ہم بھلا آپ کے بارے میں کسی شک میں مبتلا ہو سکتے تھے۔”
اس پر نبی کریم ۖنے فرمایا “شیطان انسان کے جسم میں اس طرح پھرتا ہے جیسے کہ خون پھرتا ہے اس لیے مجھے خوف ہوا کہ کہیں وہ تمہارے دلوں میں کوئی بدگمانی نہ پیدا کر دے۔ ”
ایک اور حدیث میں ہے کہ جب تمہارے دل میں کسی کی طرف سے بدگمانی پیدا ہو تو سترگمان اچھے کر لیا کرو کہ یوں ہوا اوریوں ہوا ہوگا۔
حسد، بغض اور کینہ:-
حسد وہ بیماری ہے جس میں حاسد خود اپنی آگ میں جلتا رہتا ہے۔ خاص کر ایسی حالت میں جبکہ دوسرے آدمی پر اللہ کا فضل ہو تو حاسد کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ یہ چیز اس سے چھن جائے اور مجھے ملے یا نہ ملے اس سے تو جاتی رہے۔ ہم خواتین میں حسد کی خصلت بہت عام ہے آج کل تو اس لفظ کا فیشن بن گیا ہے۔ فلاں فلاں سے Jealousہے یا اس کو اس سے Jealousyہے۔
رسول مقبولۖ فرماتے ہیں “حسد نیکیوں کو اس طرح جلا دیتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو جلا دیتی ہے۔”
ہم میں سے بعض فطرتا حاسد ہوتے ہیں وہ کسی کو ترقی کرتا ہوا اور پھلتا پھولتا دیکھ ہی نہیں سکتے۔ اس طرح اگر کسی سے ہماری رنجش ہے تو اس کی خوشحالی تو برداشت ہی نہیں ہوتی۔ پھر جن انسانوں کو ہم کمتر سمجھتے ہیں ان کو جب اللہ تعالی عزت و مرتبہ عطا کرتا ہے تو حسد کی وجہ سے ان کی خوشحالی ہماری برداشت سے باہر ہو جاتی ہے۔
حسد کے دو علاج ہیں ایک علمی اور دوسرا عملی ہے۔
علمی علاج تو یہ ہے کہ حاسد کو جاننا چاہیے کہ اس کا حسد اس کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ محسود کا اس سے کچھ نہیں بگڑتا بلکہ حاسد کی نیکیاں مفت میں اس کے ہاتھ آ رہی ہیں جبکہ حاسد کا دین کا بھی نقصان ہے اور دنیا کا بھی۔ دین کا نقصان یہ کہ اللہ کے غصے کا نشانہ بنا ہوا ہے اور دوسروں پر اس کے انعام و اکرام کو برداشت نہیں کر سکتا اور دنیا کا یہ کہ حسد کی وجہ سے ہر وقت رنج و غم میں مبتلا رہتا ہے بلکہ ہروقت ایک بے چینی، خلش اور کرب کی کیفیت رہتی ہے جس سے اس کی جسمانی صحت بھی تباہ ہو جاتی ہے۔
عملی علاج یہ کہ جس سے حسد محسوس ہو اپنے نفس پر صبر کر کے اس کی نعمتوں اور خوشیوں پر خوشی کا اظہار کرے اس طرح کرنے سے اس کے ساتھ ہماری عداوت ختم ہوجائے گی اور اس کی جگہ محبت لے لے گی۔
کینہ و بغض:-
جب کسی شخص پر غصہ نکالنے میں ہم بے بس ہو جاتے ہیں تو اس کیخلاف دل میں جو جذبات پرورش پاتے ہیں وہ کینے اور بغض کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جو موقع پاتے ہی انتقامی کارروائی کی شکل میں ظہور پذیر ہوتے ہیں یا آتش فشاں کے لاوے کی طرح پھٹ پڑتے ہیں۔اگر کینہ و بغض نکالنے کا موقع نہ ملے تو ہم خود ہی اندر اندر جلتے، کڑتے ہیں جس سے جسمانی و روحانی دونوں طرح ہمارا دل تکلیف و اذیت میں رہتا ہے۔
حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کو وہ چیز نہ بتاں جو بہت سی (نفل) نمازپڑھنے اور خیرات کرنے سے افضل ہے۔
لوگوں نے کہا” کیوں نہیں”
انہوں نے فرمایا ” آپس میں صلح کرانا اور بچو تم بغض و عداوت سے کہ یہ نیکیوں کو مونڈنے والی ہیں۔”
منافقت:-
منافقت اور دورنگی یہ کہ ہم اندر سے کچھ اور ہیں اور ظاہر کچھ اور کر رہے ہیں۔ ہمارے باطن سے اور اندرونی کیفیت سے اللہ تعالی بخوبی واقف ہے۔ منافقت اور دورنگی سیرت و کردار کی کمزوری کی علامت ہیں اور انتہائی گھٹیا ہیں۔ خصوصا دین کے معاملے میں تو شدید گھنانا فعل ہے۔
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖنے فرمایا کہ لوگوں میں سب سے برا وہ شخص ہے جو دو چہروں والا ہو جو ان لوگوں کے پاس ایک چہرہ لے کر آتا ہے اور ان لوگوں کے پاس دوسرا چہرہ لے کر جاتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ نبی کریم ۖنے فرمایا “چار خصلتیں ایسی ہیں کہ اگر کسی میں جمع کر دی جائیں تو وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان کی ایک خصلت ہے اس میں نفاق کی علامت ہے جب تک کہ وہ اس خصلت کو ترک نہ کر دے۔ وہ خصلتیں یہ ہیں کہ جب اس کو کسی امانت کا امین بنایا جائے تو وہ اس میں خیانت کرے، جب بات کرے توجھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اسے پورا نہ کرے اورجب کسی سے جھگڑا ہو تو بدزبانی کرے۔” اللہ تبارک و تعالی سے عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ ہمارے اعمال کی اصلاح کرے اور ہمیں ان اخلاقی اور روحانی امراض سے محفوظ رکھے —-آمین ثم آمین
بہت عمدہ……………..