عقیل قادر۔ناروے
کمپوزنگ و انتخاب
گرمیوں کی لُو سے بھری ایک دوپہر تھی جب وہ اسکول سے گھر لوٹا، گھر میں داخل ہوتے ہی اسے محسوس ہوا جیسے ماں کے چہرے کا رنگ ایکدم تبدیل ہو گیا۔ ماں سے دیکھ کر مسکرائی اور کہا، جلدی سے کپڑے بدل لو میں کھانا لاتی ہوں۔ جب وہ کپڑے بدل کر آیا تو سامنے سبزی یا دال کی جگہ کچھ اسکی پسندیدہ ڈش، ایک پیالی میں میٹھا اورگلاس میں ستو موجود تھا۔ اُس نے پوچھا امی آج اتنا کچھ؟ خیریت تو ہے؟ ماں نے کہا ، ہاں مہمان آئے تھے اس لیے یہ سب بنایا۔ اُسنے کہا ، آپ بھی آ جائیں۔ماں بولی، میں نے مہمانوں کے ساتھ کھا لیاتھا اب تو پانی کی جگہ بھی نہیں، تم کھاؤ نا ٹھنڈا ہو جائے گا، یہ کہہ کر ماں پھر سے کچن میں چلی گئی۔وہ روز منہ بنا کر کھانا کھاتا تھا لیکن آج پسند کا کھانا دیکھ کر جلدی جلدی سب چٹ کر گیا۔ برتن اُٹھا کر وہ جیسے ہی کچن میں داخل ہوا تو اُس نے دیکھا کہ ” دُنیا کی سب سے زیادہ جھوٹی عورت فرش پر بیٹھی کئی دنوں کے بھوکوں کی طرح باسی روٹی کو پانی میں ڈبو کر کھا رہی تھی۔”تحریر۔ نامعلوم۔