طارق حبیب
اصولی طور پر تو مجھے اس حوالے سے مشورہ نہیں دینا چاہئے کیونکہ شاعری سے میرا دور پرے کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اور اس حوالے سے تو اپنا یہ حال ہے کہ
“شعر یاد نہیں رہتے اور یاد رہ جائیں تو شعر نہیں رہتے”
مگر فیس بک پر بنائے جانے والے ادب اور شاعری کے “صفحات” پر پوسٹس دیکھ کر خود پر قابو نہیں رکھ سکا، اندازہ ہوا کہ چلو تجاویز تو میں بھی دے سکتا ہوں یہی سوچا کہ تجاویز ان قسمت کے مارے “شاعروں” تک پہنچا دوں، شاید ان کے کسی کام آجائے۔
ویسے تو ادبی صفحات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری سوسائٹی میں کیسے کیسے “جوہڑ” نایاب موجود ہیں۔ بیشتر ادبی صفحات پر موجود ادب کو تو ادب چھو کر بھی نہیں گزرا مگر فی الحال میں صرف شاعری کی بات کرنا چاہ رہا ہوں۔
بعض “شاعر” حضرات تو خود کو شاعرمشرق کے پائے کا تصور کرتے ہیں اور والدین کی نصیحتوں کو لکھ کر، شعر قرار دیتے ہیں۔ پھر فراخدلی سے علامہ اقبال کے دامن میں ڈال کر ڈھٹائی سے پھیلا بھی دیتے ہیں۔ حالانکہ انھیں سوچنا چاہئے کہ ہوسکتا ہے کہ علامہ اقبال ان کے والدین کے برابر اعلی ظرف نہ ہوں جو ان کے “کارناموں” کی ذمہ داری لے سکیں۔ شعر نما چیزیں منسوب کرنے کی پریکٹس کا آغاز اردو شاعری کے ایک ستون جناب احمد فراز سے اشعار منسوب کرکے کیا گیا۔ مگر کیا کہیے کہ داد کے قابل تو وہ بھی ہیں جو دھڑا دھڑ لائیک اور شئیر پر کلک کررہے ہوتے ہیں۔ مرحومین تو تردید نہیں کرسکتے۔ اسلئے ان شاعر سے گزارش ہے کہ اپنے کئے کو اپنے نام ہی منسوب کریں اگر نہیں تو پھر پانی ڈال دیا کریں۔
ان “شاعروں” کی ایک قسم وہ بھی ہے جو گھریلو مسائل ایک کاغذ پر لکھتے ہیں، انھیں فٹے (اسکیل) کی مدد سے دو ، چار ، یا چھ جملوں میں برابر تقسیم کرتے ہین اور اگر مسائل زیادہ ہوں تو آٹھ ، دس حصوں میں بھی تقسیم کردیتے ہیں، انتہائی مہارت سے بالکل برابر۔ پھر انھیں اشعار یا غزل کا نام دیکر شاعری کے صفحہ کی زینت بنا دیا جاتا ہے۔ زینت سے یاد آیا کہ ایک کرائم شو کسی چینل نے نشر کیا تھا “زینت پر کیا گزری”۔
کچھ ایسے بھی شاعر ہیں جو سمجھتے ہیں چند مشکل لفظ لغت سے ڈھونڈ کر لکھو اور انھیں آپس میں ملادو تو شعر مکمل، ان کے لئے مشورہ ہے کہ بھائی”اپنے ہیجانی پیغامات” کو شعروں میں ڈھالنے کے بجائے نثر کی جانب آئو تاکہ شاعری پر سے “تھرڈ نہیں لاسٹ ڈگری ٹارچر” کا کچھ حصہ نثر کی جانب بھی منتقل ہو اور شاعری کو کچھ سکون ملے۔ (جیسے کہ میں لکھ رہا ہوں)۔
اور چند تو وہ بھی ہیں، جو مذہبی فرائض، کتب کے نام، احکامات لکھتے ہیں اور آخر میں کاپی پیسٹ کرتے ہوئے جملے خود آگے پیچھے ہوجائیں تو انھیں ہی شعروں کا نام دے دیتے ہیں۔ ان سے انھیں یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ہم “مسلمان” اسے ثواب سمجھ کر شئیر کرنا شروع کردیتے ہیں۔ مسجدوں کے سامنے کھڑے پمفلٹ تقسیم کرنے والوں کی روایت فیس بک پر ان شاعروں نے اپنا لی ہے۔ کمزوردل و عقیدہ لوگوں کو شئیر کرنا، کہ اسے مزید پھیلائیں اور ثواب حاصل کریں، شئیر نہ کرنے والا فرعون کی طرح غرق ہوجائے گا اور ہم فوری شئیر کردیتا ہیں۔ کیونکہ اپنے اعمال یا تو ہم جانتے ہیں یا خدا۔
کچھ نایاب النسل وہ بھی ہیں جو مختلف شاعرون کے شعروں میں معمولی ردوبدل سے اسے اپنے نام منسوب کرلیتے ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ شاعری کو صنف نازک جان لیں یا مان لیں اور ڈائیٹنگ کراکے کم ازکم “وزن” کا خیال ہی کرلیا کریں اور کم سے