دور حاضر کی خضر راہ

afkare tazaیوم اقبال کے موقع پر جناب عارف کسانہ کے قلم سے اردو فلک ڈاٹ نیٹ کیلے خصوصی تحریر
ڈاکٹر عارف کسانہ سویڈن
ایران کے مشہور شاعر ملک ا لشعراء نے علامہ اقبال کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ قرآن حاضر خاصہ ،اقبال گشت
یعنی کہ موجودہ دور اقبال کا دور ہے لیکن عظیم شاعر ہر دور میں اپنی بلندی و شہرت پر فائز رہتا ہے۔جب تک اردو زبان زندہ ہے اقبال کا نام ہمیشہ روشن رہے گا مگر علامہ اقبال کو شاعر کہنا بہت بڑی ذیادتی ہے۔یہ ضرور ہے کہ وہ اردوا ور فارسی کے بہت بڑے شاعر رہے ہیں لیکن انہوں نے شاعری کو اپنے پیغام کا ذریعہ بناسی اور خود ہی یہ بھی کہا کہ
میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھو
بلکہ انہوں نے اس ساز سخن کو پیام حریت کا ذریعہ قرار دیا اور ک نبی کریم کی بارگاہ میں بھی یہ شکائیت کی کہ لوگ مجھے شاعر کہہ رہے ہیں میں شاعر نہیں ہوں۔ان کی شہرت اگرچہ شاعر مفکر فلسفی اور سیاستدان کی حیثیت سے ہے مگر وہ درحقیقت سچے عاشق رسول اور پیامبر قرآن تھے ۔ ان کی سوچ کا منبع قرآن کریم تھا۔انہوں نے جو سمجھا قرآن سے سمجھا اور جوسمجھایا قرآن ہی سے سمجھایا۔اور یہ پیغام دیا کہ
گرم تومی خواہی مسلماں زیستن
نیز ممکن جزبقرآن زیستن
کہ اے مرد مومن گر تو عزت کی زندگی گزارنا چاہتا ہے تو وہ قرآن کی تعلیمات پر عمل کر کے ہی ممکن ہے۔علامہ اقبال کی زندگی جدو جہد اور دیگر پیغام کا جائزہ کے کر قاری پر یہ حقیقت آشکارہ ہوتی ہے کہ علامہ اقبال نے کئی محاذوں پر جنگ لڑی ہے۔اس وقت مسلمان ملک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ان میں نہ صرف قیادت کا فقدان تھا بلکہ مذہبی قیادت انہیں فرسودہ رسومات کا پابند بنا رہی تھی۔نسل پرستی اور وطن پرستی کے نظریات نے انسان کو تقسیم کر رکھاتھا۔ان حالات میں علامہ اقبال نے صدائے حریت بلند کی اور قوم پرستوں تنگ نظر مزہبی سوچ بے عمل تصوف لا دین عناصر غلامانہ سوچ اور بے عملی کی زندگی کے خلاف جدو جہد کی اور کسی قسم کی مخالفت کی پرواہ نہ کی۔ دور حاضر کے مضطرب اور تلاش حقیقت کے متلاشی نو جوانوں کے لیے فکر اقبال کی تحریریں خضر راہ کا کام دے سکتی ہیں۔علامہ اقبال نے نو جوان ملت کو اپنا پیغام خودی ،فکر عشق قرآن عشق رسول،علم و عقل اجتہاد ،مسلم قومیت مردمو من اور وحدت انسانی کی صورت میں دیا ہے۔وہ پیام انقلاب ہے ۔مغرب کی جن خرابیوں کی نشاندہی کی ہے انہیں نظر انداز کرنا ممکن ہی نہیں۔مسلمانوں کی نشاة ثانیہ کے حوالے سے انہوں نے جو پیغام بذریعہء جاوید دیا ہے وہ آج بھی مشعل راہ ہے۔جاوید نامہ ،خضر راہ ،ساقی نامہ ء مومن مرد مومن غرض ان کی شاعری کا مجموعی کلام ایک اعلیٰ کردار کی تعمیر کرتا ہے۔علامہ نے تقدیر کے بجائے عمل اور جامد تقلید کے بجائے اجتہہاد اورمحض رسمی عبادات کے بجائے اصل روح دین کو اجاگر کرنے اور دین کو سمجھنے کی ترغیب دیتا ہے۔اہل مغرب اور پڑہے لکھے طبقے کو دین کی طرف ر اغب کرنے کے لیے ان کے خطبات
( The re construction og religious thoughts in islam)ذہن کی گتھیوں کو آج بھی سلجھا سکتے ہیں ۔
علامہ اقبال کی شخصیت ایک دانائے راز کی شخصیت ہے۔یہ علامہ اقبال کی ہی شخصیت ہے جنہوں نے پیام مشرق میں صحبت رفتگاں میں ٹالسٹائی ،ہیگل کومت اور کو ہگن کو جمع کیا۔یہ اقبال ہی ہیں جنہوں نے گوئٹے گرو نانک ،سر آرنلڈ ،شیکسپیر اور دوسری کئی غیر مسلم تاریخ ساز شخصیتوں کو خراج تحسین پیش کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا۔تو پھر علامہ اقبال سے رہنمائی لینے والا کیوں اعتدال اور مذہبی رواداری کا حامل نہ ہو گا۔وہ نطشے کو خراج عقیدت بھی پیش کرتے ہیں او ر ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں
اگر وہ ہوتا مجذوب فرنگی اس زمانے میں
تو اقبال اسے سمجھاتا مقام کبریاء کیا ہے
وہ کارل مارکس کو سلام کرتے ہوئے کہتے ہیں
نیست پیغمبر ولی دارد کتاب
کہ وہ پیغمبر نہیں ہے مگر اسے کتاب ملی ہے۔علامہ کارل مارکس کو ایسا عظیم خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جو آج تک کسی نے نہیں پیش کیا۔

وہ کارل مارکس کو کلیم تو کہتے ہیں مگر بے تجلی۔اسے مسیح تو قرار دیتے ہیں لیکن بے صلیب۔یہاں تک کہ جاوید نامہ میںافغانی کی زبان میں یہاں تک کہ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساحب سرمایہ ازند خلیل یعنی آں پیغمبر بے جبریل
زانکہ حق در باطل او مغمرات قلب و مومن دماغ است کافر است

علامہ کارل مارکس کو جبرئیل کے بغیر پیغمبر قرار دیتے ہوئے اسکا دل مومن کا کہتے ہیں اور دماغ کافر کا قرار دے کر اسے ام الکتاب کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔روس میں اشتراکی انقلاب کا ضرب اکلیم میں اشتراکیت کے عنوان سے خیر مقدم کرتے ہوئے کہتے ہیں جو حرف قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دور میں شائید وہ حقیقت ہو نمودار
لیکن ساتھ ہی وہ یہ پیغام دیتے ہیں کہ
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطاء جوت کردار
یہ علامہ ہی ہیں جو لینن کو خدا کے حضور پیش کر دیتے ہیں اور پھر اسے یہ بے باکی بھی دیتے ہیں کہ وہ خدا کے حضور پوچھتا ہے کہ
وہ کون سا آدم ہے تو جس کا ہے محبوب؟
وہ آدم خاکی کے جو ہے زیر سماوات؟
یہ علم یہ حکمت یہ تدبیر یہ حکومت ،
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہء مزدور کے اوقات
لینن کی اسی آواز کے جاب میں اللہ کا فرمان فرشتوں سے ہوتا ہے کہ
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امراء کے درو دیوار ہلا دو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو
علامہ اقبال ایک طرف جہاں ومی جامی نطام الدین اولیاء ،سیّد علی ہجویری اور خواجہ معین الدین چشتی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں وہیں مذہبی پیشوائیت اور ملائیت پر کڑی چوٹ بھی کرتے ہیں اور یہاں تک کہ جاتے ہیں کہ صوفی اور ملّا کی قرآن کی تشریح نے خدائے رسول اور جبرئیل کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔

کہ جو وہ کہہ رہے ہیں حقیقت کے بر عکس ہے دین کی غلط تشریح پر وہ اس طبقہ پر کھلی تنقید کرتے ہیں۔
اور اپنی نظموں پیرو مرید ذید و رندی ملأا و بہشت پنجاب کے پیرزادوں سے خانقاہ شیخ و مکتب سے باغی مرید ملا کے حرم پنجابی مسلمان صوفی سے تصوف اور اے پیر حرم میں کھل کر اظہار خیال کرتے ہیں۔وہ مذہب کو رسمی عبادات کے بجائے ایک نظام زندگی کی صورت دیکھنا چاہتے ہیں اور برملاء
کہتے ہیں
گر صاحب ہنگامہ نہ ہو ملت محراب
دیں بندہء مومن کے لیے موت ہے یا خواب

اپنا تبصرہ لکھیں