از ڈاکٹر جاوید جمیل
دور تک کانٹوں بھری راہ گزر دیکھتا ہوں
دور رس فیض سے بھرپور سفر دیکھتا ہوں
سب کوکیسے یہ بتاؤں کہ یہ سب کیسے ہوا
اجڑی آنکھوں سے میں اجڑا ہوا گھر دیکھتا ہوں
سب گئے چھوڑ کے اک بوڑھے پرندے کے سوا
آنکھوں سے اسکی میں یہ سوکھا شجر دیکھتا ہوں
سچ تو یہ ہے کہ وہی شمس و قمر رہتے ہیں
پھر بھی کیوں روز نئے شام و سحر دیکھتا ہوں
اک چمکتے ہوئے پتھر کی طرف سب کی نظر
منبع_نور جدھر ہے میں ادھر دیکھتا ہوں
بارہا دیکھا “بصر” نے کوئی پایا نہ “فطور”*
سجدے میں “سبع سماوات” کے سر دیکھتا ہوں
میرا اجڑا ہوا گھر پھر سے بسے گا اک دن
خود کواس گھر میں بلا خوف و خطر دیکھتا ہوں
میں مصائب سے کہاں ڈرتا ہوں جاوید کبھی
اپنے اندر میں قلندر کا جگر دیکھتا ہوں
*سورہ ملک ٣-٤
—