دو سہیلیاں، دو کہانیاں

زنداں

کلام: شعاعِ نور

اگر میں یہ کہوں تم سے کہ کچھ اظہار ساری عمر سانسوں کی طرح سینوں میں رہتے ہیں
دھڑکتے دل میں بستے ہیں
نگاہوں سے چھلکتے ہیں
مگر اپنے نہیں ہوتے
رکے رہتے ہیں وہ ہونے یا نہ ہونے کی کسی ایسی اذیت میں
جو دیمک کی طرح دل چاٹ جاتی ہے
تو بہتر تو یہی ہوگا کہ خاموشی سے اپنے
دل کے در پہ ڈال کر تالا یہ مرکز چھوڑ دیتے ہیں
کہ لمحے کب ہیں ملکیت محبت کی
محبت ٹھہری رہتی ہے مگر ساعت تو رخصت مانگ لیتی ہے

کرائے کے مکاں جیسی محبت
سے مجھے کیا فائدہ ہوگا

سو بہتر ہے پلٹ جاؤ
کہ در میرا مقفل ہے
سو میں منکر ہوئی اس عشق سے جس میں محبت چند لمحوں کی ہوئی قیدی
یہی بہتر ہے کہ کچے مکاں میں عمر کے ہمراہ اپنی قید میں کاٹوں
تمھارے ہجر کو اپنے رگ و ریشے میں یوں بانٹوں کہ تم سوچو مشقت اس سے بڑھ کر عشق میں اب اور کیا ہوگی
یہ زنداں ہے تمھارے نام کی چادر لئے سر پر میں ایسے معتکف ہوں گی کہ دستک داد دیتی مسکرا کر حال پوچھے گی
میں ہنس کر اس سے کہہ دوں گی
معزز عشق کے رتبے کہاں ملتے ہیں رستوں میں

یہ زندانوں کی زینت ہیں

میں اسکی یاد کی گٹھری کو سینے سے لگائے فرش پہ کچھ پل گزاروں گی
یہ وہ گٹھری ہے جس میں چار حرفی لفظ باندھے ہیں
مگر بس اک گذارش ہے

مرے زندان کی دیوار پہ اک آئنہ
رکھ دو

فراق یار کے رنگوں میں گھل کر آئنے میں اس کو دیکھوں گی
اسے دل میں اتاروں گی

میں خود کو ہجر دلہن کی طرح ہر پل سنواروں گی

———————————
روزن

کلام: ڈاکٹر شہلا گوندل

میں ایک ایسے گھر میں ہوں،
جس میں کوئی در نہیں،
باہر صرف برف اور تاریکی ہے،
اندر بظاہر خاموشی ہے،
مگر دل میں جنوں کی آہٹ ہے
ایسی قیدِ تنہائی ہے،
جہاں ہر سانس میں
دبے ہوئے خوابوں کی سرگوشی ہے،
اور ہر پل میں ایک خاموش گونج ہے،
جو کسی کو سنائی نہ دے،
اور میں صرف اپنی ذات میں گم ہوں

سخت برفیلا موسم،سرد ہوا اور تاریکی کا راج
آزاد فضائیں میری پہنچ سے دور،
صرف ایک خواب کی طرح،
جو میری آنکھوں میں جم گیا ہے
میں چاہتی ہوں کہ
ہوا کی نغمگی سنوں،
تاریکی میں دیکھ پاؤں،
برف کے لمس کو محسوس کروں،
ایور گرین درختوں کی سانسوں کو
اپنی رگِ جاں میں شامل کروں
مگر یہ سب ادھورا رہ جاتا ہے،
جیسے کوئی ناکام محبت!

میں اک حساس لکھاری،
جس کے الفاظ وہ پرندے ہیں،
جو ان دیواروں کے پار اڑتے ہیں،
جب لوٹ کر آتے ہیں،
تو رگوں میں اتر جاتے ہیں
وہ دریا جن کے پانیوں کا ذائقہ
میری زباں نے چکھا نہیں
وہ شجر جن کی ٹہنیوں کے لمس سے
میری انگلیاں محروم ہیں
وہ گلیاں جن میں
میرے قدم کبھی جا نہ سکے،
وہ جھرنے جن کے ترنم کو
میرے کانوں نے کبھی سنا نہیں
وہ چمن جن کی خوشبو
کبھی میری سانسوں میں مہکی نہیں
یہاں نہیں ہیں، ابھی نہیں ہیں
مگر میرے خواب میں زندہ ہیں
ایک دن ،
میرے گھر کی تنہا روزن
میرے اندر کی روشنی کو
باہر کے نور سے جوڑ دے گی
تب مجھے قید سےرہائی ملے گی،
اورمیری نیستی
میری ہستی بنے گی

مگر ابھی،
یہ ملن رت کے سہانے سپنے
میرے دل کو بے تاب کرتے ہیں
وہ ضوء ، وہ خوشبو،
وہ صوت و آہنگ
روح کی گہرائی میں اتر رہے ہیں
موسمِ بہار کی طرح،
دل کی ہر دھڑکن میں
ایک دیوانگی ہے
جو مجھے میری ذات سے
باہر نکالنے پر تُلی ہوئی ہے
وہ موسم، یہ سرخوشی
میرے منجمند خواب کا حصہ ہیں،
جو پگھلنے کے لیے تڑپ رہا ہے
یہ سب کچھ جوبظاہر
میرے قلم کی سرگوشی ہے
مگر ہر لفظ میں آگہی کی چاشنی
اور یقین کی مہک شامل ہے

میرا جنون اور برفیلا جامد موسم
دونوں ایک دوسرے میں مدغم ہیں،
جہاں ہر لمحہ، وصل کی امید،
یاسیت اور تنہائی کو نگل رہی ہے
اور میں جانتی ہوں،
کہ ایک دن یہ رنگ ونور کا سیلاب
میرے وجود کی قید کو توڑ کر
مجھے حقیقت سے ہمکنار کر ے گا

————————————————————————-

شاعری جذبات کی زبان ہے، اور جب دو حساس دل اور تخلیقی ذہن، ہزاروں میل کے فاصلے پر، ایک ہی دن اپنے دل کی گہرائیوں سے تخلیق کریں، تو یہ اتفاق نہیں بلکہ ایک گہری روحانی ہم آہنگی کا مظہر ہوتا ہے۔ شعاعِ نور اور ڈاکٹر شہلا گوندل، جو بچپن کی سہیلیاں ہیں، نے 24 دسمبر 2024 کو اپنی اپنی نظمیں تخلیق کیں، جن میں محبت، قید، تنہائی، اور آزادی کے موضوعات کو منفرد انداز میں بیان کیا گیا۔ شعاعِ نور نے پاکستان میں بیٹھ کر اپنی نظم “زنداں” لکھی، جبکہ ڈاکٹر شہلا نے ناروے کی برفیلے موسم میں “روزن” تخلیق کی۔

یہ حیرت انگیز ہے کہ دو مختلف جغرافیائی مقامات، دو مختلف تجربات، اور دو الگ تخلیقی ذہنوں سے نکلی یہ نظمیں موضوع اور احساسات میں ایسی گہری مماثلت رکھتی ہیں، جیسے دونوں نے ایک ہی کیفیت کو الگ زاویوں سے دیکھا ہو۔ شعاعِ نور کی “زنداں” ہجر کی قید اور محبت کی اذیت کو فلسفیانہ انداز میں قبول کرنے کا پیغام دیتی ہے، جبکہ ڈاکٹر شہلا کی “روزن” قید کی تاریکی میں امید کی روشنی کی جستجو کو بیان کرتی ہے۔

شعاعِ نور کی نظم میں محبت کو ایک قید کی صورت میں پیش کیا گیا ہے، جہاں ہجر کی اذیت اور محبت کی مشقت کو تقدس کا درجہ دیا گیا ہے۔ وہ محبت کو ایک ایسی چادر کی طرح اوڑھتی ہیں، جو انہیں ہجر کی گہرائیوں میں بھی محفوظ رکھتی ہے۔ دوسری طرف، ڈاکٹر شہلا کی نظم ایک داخلی قید کو بیان کرتی ہے، جہاں ایک روزن کی تلاش انہیں اس تاریکی سے روشنی کی جانب لے جانے کی امید دیتی ہے۔ ان کی شاعری میں تنہائی، سرد موسم، اور خوابوں کی جستجو کا ذکر ہے، جو قید سے رہائی کی تمنا کے ساتھ گہرا تعلق رکھتی ہے۔

یہ دونوں نظمیں محبت اور قید کے دو مختلف مگر گہرے تجربات کی کہانی سناتی ہیں۔ شعاعِ نور کے پاکستان کے جذباتی موسم اور ڈاکٹر شہلا کے ناروے کے برفیلے ماحول میں لکھی گئی یہ نظمیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ حقیقی دوستی اور تخلیقی روح کا رشتہ کسی بھی فاصلے یا وقت کی قید سے ماورا ہوتا ہے۔ ان دونوں نظموں میں موجود گہرائی، مماثلت، اور جذبات کی شدت اس بات کی گواہ ہے کہ تخلیق کے ذریعے دو دل ہمیشہ جڑے رہتے ہیں، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں۔

اپنا تبصرہ لکھیں