مال مفت دل بے رحم کی مثال میڈا گاسکر کے وزیر تعلیم پہ صادق آتی ہے جنہوں نے اسکول کے بچوں کے لیے دو ملین ڈالرز (مساوی 1.6ملین برطانوی پائونڈز) کے لالی پاپ منگوانے کا منصوبہ بنایا۔ایک غریب افریقی ملک کے صدر نے اس ’بے رحمانہ‘ فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے ملکی خزانے پہ بوجھ قرار دیا۔ صدارتی اعتراض کے بعد وزیرتعلیم سے وزارت کا قلمدان لے لیا گیا ہے۔
ہم نیوز کے مطابق افریقہ کے جنوب مشرقی ساحل پہ واقع ملک میڈا گاسکر کے وزیر تعلیم نے لالی پاپ کا آرڈر دینے کا منصوبہ اس لیے بنایا تھا کہ اسکول کے بچوں کو ایک ایسی دوا پلائی جانی تھی جس کے متعلق مقامی سطح پہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ عالمی وبا قرار دیے جانے والے کورونا وائرس سے بچاو¿ کا ذریعہ ہے۔دوا جڑی بوٹیوں کی مدد سے مقامی سطح پر تیار کی گئی ہے اوراندرون ملک بے انتہا مقبول بھی ہے۔ میڈا گاسکر کے صدر بھی اس دوا کا عالمی سطح پر فروغ چاہتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق چونکہ تیار کردہ دوا کافی کڑوی ہے اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ اسکول کے ہر بچے کو دوا پینے کے بعد چوسنے کے لیے تین لالی پاپ دیے جائیں تاکہ وہ منہ میٹھا کرکے دوا کی کڑواہٹ برداشت کرنے کے قابل ہو سکے۔
میڈا گاسکر کے وزیر تعلیم ریجوآندریامانا نے فوری طور پربچوں کے لیے دو ملین ڈالرز کے لالی پاپ منگوانے کا فیصلہ کر لیا۔رپورٹ کے مطابق میڈاگاسکر کے صدر اینڈی راجویلینا نے وزیر تعلیم کے تیار کردہ منصوبے کو ملکی خزانے پہ بوجھ قرار دیتے ہوئے اسکول کے بچوں پر دوا آزمانے کی تجویز ہی رد کردی۔صدر میڈا گاسکر کی جانب سے کیے جانے والے فیصلے کے بعد وزیر تعلیم سے وزارت کا قلمدان لے لیا گیا ہے۔
میڈا گاسکر کے صدر اینڈی راجویلینا مقامی جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ دوا کو کورونا وائرس کے علاج کے لیے بہترین قرار دیتے ہوئے اس کے فروغ پر کام کررہے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق متعدد افریقی ممالک میڈا گاسکر سے کوویڈ 19 کے علاج کے لیے یہ دوا درآمد بھی کررہے ہیں حالانکہ عالمی ادارہ صحت نے غیر تصدیق شدہ کسی بھی دوا کے استعمال سے خبردار کیا ہے۔
دلچسپ امر ہے کہ خود میڈا گاسکر کی نیشنل میڈیکل اکیڈمی کو بھی اس دوا پر تحفظات ہیں اور اس کا موقف ہے کہ یہ انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔میڈا گاسکر کے صدر اینڈی راجویلینا ا س حوالے سے بالکل علیحدہ موقف رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ دوا کسی مغربی ملک نے تیار کی ہوتی تو دنیا کا ردعمل یکسر مختلف ہوتا۔
انہوں نے فرانس کے خبررساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ طرز عمل دنیا کے دوہرے معیار کی علامت ہے اور اس سوچ کا اظہار کہ وہ افریقہ کی جانب کس نظر سے دیکھتی ہے؟ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر ان کے ملک میں تیار ہونے والی دوا کسی مغربی ملک میں تیار ہوتی تو اس کا بڑے پیمانے پر استعمال ہورہا ہوتا۔امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی عالمی ادارہ صحت کی تجویز کے برخلاف عوام الناس کو کووڈ 19 سے بچائو کے لیے دوا تجویز کرچکے ہیں۔ انہوں نے برملا دعویٰ کیا تھا کہ وہ خود یہ دوا استعمال کررہے ہیں۔