از
عابدہ رحمانی
کئی روز ناساز رہنے کے بعدآج اس کی طبیعت کافی بہتر محسوس ہو رہی تھی ۔ جسم میں جیسے قدرےطاقت آگئی ہو ورنہ تو جوڑ جوڑ میں دکھن تھی۔اسکابہت جی چاہا کہ باہر نکل کر چہل قدمی کی جائے ۔۔یوں بھی یہ اسکی ایک عادت ثانیہ ،ایک معمول تھا۔کام کاج تو کوئی خاص تھا ہی نہیں ، ۔۔اسے وہ وقت بری طرح یاد آتا تھا جب فرصت کے چند لمحات کو ترس جاتی تھی اور اب اسکا جی چاہتا ہے کاش کوئی مصروفیت ہوتی۔اسنے جوگرز پہنے ، ہلکی جیکٹ پہنی،فون جیب میں ڈالا،سر پر ہیٹ پہنا اور روانہ ہوئی ۔۔چلتے چلتے وہ تمام وقت تلاوت کرتی رہتی یا پھر اپنے فون سے ائر پلگ لگا کر تلاوت سنتی ۔۔اللہ سے تعلق جوڑ کر اسے یک گونہ سکون اور اطمینان ہوتا۔۔
دور سے رابرٹ اپنے دو خونخوار قسم کے کتوں سمیت نظر أیا اسنے گرم جوشی سے ہاتھ ہلایا اور قریب أکر اسکی خیریت دریافت کی ۔۔اسنے اپنی بیماری کی کچھ تفصیلات بتائیں۔۔ پہلے پہل جب وہ ملتا تو وہ اسکو ہیلو کہتا اور یہ ہائے کہہ دیتی۔۔یہاں پر ذرا غیر ملکی نظر أنیوالوں کو ہیلو کہا جاتا ہے ورنہ تو ہائے ،ہائے اور بائے بائے چلتا ہے ۔۔ایک روز تو وہ سپینش زبان میں شروع ہوا تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ اسے لاطینی سمجھتا ہے۔۔ لیکن جب ایک روز وہ شلوار قمیض پہنے نکلی تو اسنے قریب أکر کہا ” نمسٹے” وہ مسکرائی پھر ایک روز جب اسنے کہا ” ہیپی ڈیوالی ” تو اس سے برداشت نہیں ہوا اور اسنے سارا پول کھول دیا ۔۔ اب تو وہ اچھی طرح جان چکا تھا کہ وہ پاکستانی ہے اور مسلمان ہے۔۔ وہ اس سے اکثر پاکستان یا مسلمانوں کے بارے میں ذکر کرتااور وہاں کے حالات پر گفتگو کرتا ۔۔أئے دن خبروں مین ایک سے ایک اندوہناک قصےأ ٓرہے ہوتےاور وہ اسے یقین دلانے کی کوشش کرتی کہ ہم تو انتہائی مہذب اور امن پسند ہیں۔امن وامان ، چین اور سکون کے متلاشی ہیں ۔۔ حقیقت بھی یہی تھی اسی امن، سکون اور چین کی خاطر تو سات سمندرپار اس انجانے ملک میں آبسےتھے۔۔ملک تو خیر ایسا تھا کہ ہر کوئی بسنے کے خواب دیکھتا۔۔لیکن وہ تو کتنے انقلابات سے گزر کر یہاں تک پہنچی تھی۔۔
گھر کے چند افراد کے علاوہ اس شہر میں اسکا کسی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ رکھنا بھی نہیں چاہتی تھی دوچار جاننے والوں سے فون اور ای میل کے ذریعے دعا سلام ہو جاتی تھی۔ اسی چہل قدمی کے بہانے کچھ حرکت ہوجاتی۔ورزش کی ورزش ،تازہ ہوا اور موسم خوشگوار ہو تو یہ چہل قدمی کافی پر لطف ہوجاتی ۔۔دو چار لوگوں سے ہیلو ہائے بھی ہو جاتی کچھ لوگ چلتے پھرتے نظر آتے ورنہ یہاں کی بے کیف ،تنہااور گوشہ نشین زندگی سے وہ اکثر بیزار آجاتی ۔۔
زیادہ طبیعت اکتائی تو فون ملا لئے اپنے دور افتادہ بھائی بہنوں عزیزوں، دوستوں سے باتیں کرلیں ۔ورنہ کمپیوٹر پر ہی اسکی دنیاأّباد تھی۔ یہ ایجاد اور اسکی سہولتیں اسکے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ سےکم نہیں تھی۔۔
ملک بھی تو کیسے چھوٹا تھا ۔عادل کے اس دنیا سے جانے کے بعد وہ ریزہ ریزہ، ہو چکی تھی ساراشیرازہ منتشر ہوکر کرچی کرچی ہوچکا تھا۔ وہ اللہ سے ہر وقت یہی دعا کرتی کہ وہ اسے اپنے بچے سے جلد ملا دے ۔۔ اسے یقین تھا کہ اسکا بچہ شہید ہے جسنے اپنے نا شکرےمہمان پر اپنی جان وار دی تھی اسکا مال اور اسکی جان بچائی۔۔اسکے شہر میں تو یہ قتل و غار گری اور لوٹ مار روز کا معمول تھا پولیس گچھ تفتیش کرتی اورپھر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج ہو جاتا۔۔ ۔۔پھر وہ دعا کرتی یا اللہ مجھے بھی شہادت کی موت عطا کردے تاکہ میں بھی اپنے بچے کے پاس اسکی جنتوں میں چلی جاؤں ۔۔جوانی میں بیوگی کا اتنا بڑا صدمہ اور دکھ جھیلے اور پھر یہ دکھ اور صدمہ، اللہ تعالی سےوہ ہمہ وقت اب مذید أزمائشوں سے پناہ مانگتی۔۔لیکن یہ اللہ ہی کی ذات تھی جسنے اسکو حالات سے نبرد أزما ہونے کی ہمت اور حوصلہ دے رکھا تھا ۔زندگی کے دھارے میں بہتے بہتےاور حالات سے لڑتے لڑتےوہ جیسےپھر سے جی اٹھی۔بڑھاپا بھی أ ٓن پہنچا تھا۔ اپنے سارے معاملات اللہ کے سپرد کردئے ہر سانس کے ساتھ اللہ تعالی کی شکر گزاری تھی۔۔
اسکےبچےپہلے باقاعدگی سےمختلف مواقع اور اجتماعات میں مسجد جاتے تو اپنے لوگوں سے ملنے کے مواقع میسر آتے۔یہاں کی مساجد ایک طرح سے کمیونٹی سنٹر ہوتے ہیں۔نماز ، عبادت ،تقاریر ملنا ملانا ،گپ شپ اور پھر مختلف تقریبات ،لذت کام و دہن کے مواقع ،عیدین اور دیگر مواقع پر مختلف بازار بھی لگ جاتے اور اپنی دیسی اشیاء خوب بکتیں ۔۔اگر یہ نہ ہو تو اپنے جیسے لوگوں کو دیکھنےاور ملنے کو آدمی بری طرح ترس جائے ۔۔مختلف رنگ و نسل کے مسلمان، اپس کی یگانگت، محبت اور الفت اسکو بہت تسکین دیتی اپنے دین اوراپنے لوگوں سے جڑ کر روحانی تقویت مل جاتی ۔مساجد کے یہ مواقع تو اسکو اپنے ملک میں بھی میسر نہین تھےبچوں کو بھی نیک اور پاکیزہ ماحول میسر تھا۔۔
یہاں رفتہ رفتہ جو مسلمان مخالف جذبات نے سر اٹھایا،حالات بدلنے شروع ہوئے تو کمزور قسم کے مسلمانوں نے مساجد سے دوری اختیار کرنی شروع کی وہی اسکے بچوں نے کیا ۔۔انکو اپنی ملازمتوں ،اپنے بال بچوں اور اپنی رہائش کی فکر تھی ۔۔کبھی کبھی تو اسے محسوس ہوتا کہ ایک خوفزدگی کا ماحول ہے۔جابجا حجاب پہننے والی خواتین کو پریشان کیا گیا۔نیویارک میں ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کو گولی مار دی گئی ۔مساجد پر حملے ہونے لگے کہیں پر سؤر کا سر پھینک دیتے ایک أدھ جگہ أگ لگانے کی کوشش کی گئی توڑ پھوڑ ہوئی، سب سے بڑھ کر میڈیا پر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ہروقت بحث مباحثے ۔۔ کہا جاتا تھا کہ مساجد جانیوالوں پر نظر رکھی جارہی ہے انکا ریکارڈ رکھا جا رہا ہے ریپبلکن پارٹی کے امیدوار اور ابلاغ عامہ مسلمانوں کے متعلق ہر وقت زہر اگلتے
اس بات کاا سے بہت دکھ اور صدمہ تھا۔۔۔
داعش کی بہیمانہ کارروائیوں کی خبریں دہلانے والی تھیں مشرق وسطے تو مدتوں سے خونریزی کا میدان کارزار بنا ہواتھا۔۔ عالمی طاقتوں نے امن عالم کے نام پر اسے اپنا أکھاڑہ بنا رکھا تھا لاکھوں مسلمان ، مخالف مسلمانوں کے ہاتھوں،جنگوں اور بمباریوں سےہلاک ہوئےعراق اور شام کی قتل و غارتگری اور ہلاکت خیزی نے افغانستان، کشمیر ، پاکستان ، برما ، فلپائن اور وہاں کی خونریزیوں کو بھی کہیں پیچھے چھوڑ دیا ۔ ۔۔ القاعدہ کے بعد ISIS یا داعش کا ہوا اور فتنہ پوری دنیا کو دہلائے جا رہاتھا ۔۔ پیرس میں ۱۵۰ بےگناہوں کا خون بہایا گیا پوری دنیا لرز اٹھی اور داعش کی سر کوبی کیلئے متحد ہوگئی۔۔فرانس ، امریکہ ، روس اور بر طانیہ کی فضائی افواج کی بمباری سے بے شمار بے گناہ مارے جارہے تھے ۔۔
پیرس کی ہلاکتوں کے بعد رابرٹ کچھ اکھڑا اکھڑا ساتھا،”ہم ان لوگوں کو پناہ دیتےہیں اور پھر یہ ہمارے ہی ملکوں میں ہم لوگوں کو مارتےہیں اب پیرس کی ہلاکتوں کا کیا جواز ہے۔۔دہشت ہے دہشت، ان دہشت گردوں کو ہر قیمت پر روکنا ہوگا “
“میں بے حد افسردہ ہوں۔کاش کہ ایسا نہ ہوا ہوتامجرموں سے سختی سے نپٹنا چاہئے “وہ بس اتنا ہی بولی ۔ وہ تھک جاتی تو ایک بنچ پر بیٹھ جاتی وہ ادھر ادھر ٹہل ٹہل کر باتیں کرتا رہتا۔۔ دونوں ہی اسوقت غصے اور افسوس میں تھے۔۔
حفاظتی اداروں نے تھینکس گیونگ پر حملوں سےمتنبہ کیا تھاشکرہےکہ خیریت رہی ۔بلیک فرائڈے کی وہی رونقیں ، خریداریاں اور بھیڑبھاڑ۔۔
ہر جگہ کرسمس کی بتیوں کی چکا چوند تھی اسکے محلے کے تقریباً سارے ہی مکان کرسمس لائٹوں سے سج گئے۔ایک انکا گھر ان معدودے چند گھروں میں تھا جسپر بتیاں نہیں تھیں ۔اسنے اپنے بیٹے سے کہا کہ وہ لال پتوں والے دو گملے ہی لاکر باہر دروازے پر رکھ دے اسمیں أ ٓخر کیا برائی ہے ۔۔وہ یوں بھی زیادہ سخت مزاج نہیں تھی۔۔
کولوروڈو اسپرنگ میں خاندانی منصوبہ بندی کے دفتر پر فائرنگ ہوئی ۔۔ تین لوگ ہلاک ہوئے ۔۔ چھ گھنٹے مقابلے کے بعد حملہ أؤر پکڑا کیا اسنے اللہ کا بے حد شکر ادا کیا کہ اسکا مسلمانوں اور داعش وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں نکلا ۔۔امریکہ میں جو چاہےمن پسند گن، بندوق ، پستول خرید سکتا ہے ۔۔ اسلئے اسلحہ کے شائقین کی عیاشی ہے لیکن ساتھ ہی یہاں ہر ایک کے پاس بندوقیں أئے روز کی قتل و غارتگری کا سبب ہیں۔۔
رابرٹ سے اسکے بارے میں باتیں ہوئیں “بندوق ،گن guns پر پابندی ہونی چاہئےاگر یہ کھلا اسلحہ نہ ہو تو آئے دن کی یہ فائرنگ اور قتل وغارتگری قابو میں آجائیگی۔امریکہ میں آئے دن اسکولوں ،کالجوں یونیورسٹیوں اور مختلف جگہوں پرفائرنگ ہوجاتی اور کئی ہلاکتیں ہو جاتیں۔”۔وہ مسکرا کر کہنے لگا ،” مجھے تو گنز بہت پسند ہیں اور میں اس تجویز کی سختی سے مخالفت کرونگا۔ ہمیں اپنی حفاظت کیلئے گنز کی ضرورت ہے” وہ اسے حیرت سے دیکھنے لگی۔۔
وہ گھوم پھر کر واپس أئی تو ٹی وی پر سی این این لگایا ۔ سان برنارڈینو میں ذہنی معذورین کے سنٹر پر فائرنگ سے 14 افراد ہلاک اور کئی زخمی ہو چکےتھے۔۔تین حملہ آور فائرنگ کرکے فرار ہوچکے تھے ایک کہرام مچا ہوا تھا۔ہر چینل پر یہی خبر شد ومد کے ساتھ تھی ۔وہ بھونچکا رہ گئی یا اللہ خیر۔کسی مسلمان کی حرکت نہ ہو” اسنے اپنی دوست کی خیریت پوچھنے کے لئےفون کیا جو وہاں قریب ہی رہتی تھی۔۔وہ بھی ٹی وی سے جڑی پریشان بیٹھی تھی۔۔ دو سال پہلے وہ اسکےپاس گئی تھی اور دونوں جب ٹرین میٹرولنک پر لاس اینجلس جاتیں تو سان برنارڈینو کا اسٹیشن فورا ہی أٓجاتا۔۔شام کے ہوتے ہوتے دو قاتلوں کے نام منظر عام پر أئے ۔۔یہ پاکستانی نسل کا شادی شدہ جوڑاتھا۔۔مبینہ قاتل سید فاروق اسی ادارے میں کام کرتا تھا۔۔خبروں کے مطابق وہ وہاں ہونیوالی کرسمس پارٹی میں موجودتھا، اسکی ایک ساتھی کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی گھرأ ٓیااپنی بیوی تاشفین ملک کو لیا، چھ ماہ کی بیٹی کو ماں کے پاس چھوڑا یہ کہہ کر کہ ڈاکٹر کے پاس جارہے ہیں ۔جنگجؤں والے کپڑے پہنے اتنے سارے لوگوں کو ہلاک اور زخمی کر کے بھاگ أئے چار گھنٹے کے بعد پولیس نے انکو بے دردی سے قتل کردیا۔۔چشم دید گواہوں کے مطابق دونوں کے ہاتھ پیچھے کی طرف بندھے تھے۔ عورت تاشفین ملک باپردہ عورت تھی لیکن اسوقت وہ مختصر لباس میں تھی۔ میڈیا، پولیس اور ایف بی أئی مجرموں کو کیفر کردار کو پہنچانے پر مطمئن تھی ۔شروع میں تو کہا گیا کہ کسی گروہ سے تعلق نہیں ہے لیکن بعد میں ریڈیکالئزیشن کی گردان ان کا سب سے بڑا جرم ٹہری ۔۔اسلام پر عمل پیرا ہونا دہشت گردی پر اکساتا ہے ۔۔وہ بری طرح لرز گئی تمام مسلمان ہی دہشت زدہ رہ گئے۔ میڈیا پر تو ایک طوفان ایک ہنگامہ مچا ہوا تھا مسلمان اور پاکستانی اس جوڑے کے کردہ یا نا کردہ گناہ پر شرمسار اور نادم تھے۔۔یقین کرنیکو تو جی نہیں چاہ رہاتھالیکن شواہدیہی تھے کہ وہ دونوں قاتل تھے۔انکا ماضی حال کنگالا جارہاتھا ۔۔فاروق نے اپنی پسند کی پردہدار لڑکی سے ایک أ ٓن لائن ویب سائٹ کے ذریعے رشتہ کیا ۔۔نکاح مسجد الحرام مکہ معظمہ میں ہواتھا۔ایک اچھے مسلمان کے لئے تو یہ سب باعث سعادت تھا۔۔لیکن کیا وہ دونوں واقعی قاتل اور مجرم تھے؟۔متضاد خبروں نے اسکا ذہن بے حد پریشان کردیا۔ہر وقت کی خبریں اور تبصرے ذہنی اذیت اور کوفت کا باعث تھے اسپر سیاسی لیڈروں کے زہر آلود پیغامات۔۔
ان حالات کی وجہ سے وہ بہت دلبرداشتہ اور غمزدہ تھی۔۔
آج موسم ابرآلود تھا شام کو بارش کی پیشن گوئی تھی اسنےسوچا کچھ چہل قدمی کر أؤں شاید رابرٹ ملے ۔اسے یہ سوچ کر کچھ گھبراہٹ سی ہوئی ” اللہ جانے وہ کیا محسوس کررہا ہوگا ؟ ایک مرتبہ تو اسنے اتنا بھی کہا کہ یہ سارے مذہب ہی فساد کی جڑ ہیں “لیکن پھر وہ اسلام میں دلچسپی بھی لینے لگا تھا۔۔انکی بس یہی چلتے پھرتے ملاقات اور گپ شپ ہوتی وہ اپنے کتوں کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتاتھا۔۔بیوی سے طلاق ہوچکی تھی ایک بیٹا تھا وہ دوسرے شہر میں رہتا تھا۔
اسی ادھیڑ بن میں وہ باہر نکلی فون پر تلاوت لگا کر ایرپلگ لگالئے۔۔ایک عجیب سا سناٹا چھایا ہوا ۔اچانک دور سے رابرٹ اپنے ٹرک میں جاتا ہوا دکھائی دیا اسکے پاس ایک ہیوی ڈیوٹی پک اپ تھا جسے یہاں ٹرک کہتے ہیں ۔اسنے اسے ہاتھ ہلایا لیکن وہ جیسے نظر انداز کرکے گزر کیا۔۔” چلو کوئی بات نہیں جلدی میں ہوگا” اسنے جیسے اپنے آپکو تسلی دی۔ اچانک اسے محسوس ہوا جیسے کہ گھوم پھر کر چکر لگا رہا ہے اب وہ پارک کے قریب پہنچ چکی تھی ۔وہاں بھی ہو کا عالم تھا اتنے میں رابرٹ نےاسکے قریب آکر گاڑی آہستہ کی ،کھڑکی کا شیشہ نیچے کیا جیسے وہ اس سے کچھ کہنا چاہتا ہو۔۔ ” یو بلڈی ٹیررسٹ “اس نے جواب دینے کے لئے منہ کھولاہی تھا ۔۔تڑ تڑ تڑ تڑ گولیوں کی بوچھاڑ، وہ چکرا کر گر پڑی۔۔خون کے فوارے جاری تھے اسکی شہادت کی دعا قبول ہوچکی تھی ۔۔ اسکا فون دور گر پڑا ۔۔اور تم انہیں مردہ مت کہو جو اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں وہ زندہ ہیں اور اللہ کے ہاں رزق پا رہے ہیں البقرہ کی آیات کی تلاوت جاری تھی۔۔۔۔۔۔