دین اسلام مارکیٹ کا بہترین پھل
نارویجن معاشرے مین مذہب اسلام قبول کرنا ابھی تک ایک مشکل امر ہے ۔آخر کیون ایک آزاد معاشرے میں ایسی مشکل کیوں۔ناروے اپنی تاریخ میں کبھی بھی چقافتی یا مذہبی ہم آہنگی ک کا معاشرہ نہیں بن سکا۔لیکن یہاں کچھ نہ کچھ منفرد تو ضرور ہے۔پچھلے چالیس برسوں سے بتدریج ناروے غیر ملکیوں کی آمد اور گلوبلائیزیشن کے رجحان کی وجہ سے ایک کثیر ثقافتی معاشرے میں ڈھل رہا ہے۔ناروے میں بسنے والے ایک تہائی لوگوں کا تعلق دنیا کے پچاس مختلف ممالک سے ہے۔اس وجہ سے قدرتی طور پر اوسلو شہر کے ماحول میں ایک تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔یہاں پلنے والی نئی نسل آئے دن نت نئے مذاہبی تہوار تعلیمی اداروں میں مناتی رہتی ہے۔ناروے میں ایک لاکھ کے قریب اسلام پر اعتقاد رکھنے والے مسلمان رجسٹرڈ ہیں۔آٹھویں،نویں اور دہم جماعت کے بارے میں ایک تحقیقی رپورٹ کے دوران یہ پتہ چلا کہ یہاں سترہ اعشاریہ چھ فیصد نوجوانوں کا تعلق اسلام سے ہے۔اس کے علاوہ یہاں بدھ مت ،ہندو ،سکھ اور دوسرے مزاہب کے لوگ بھی رہتے ہیں۔مذہب بدلنے کی جرورت اس وقت پیش آتی ہے جب انسان زندگی مین تبدیلی کا خواہاں ہوتا ہیاسلام کو قبول کرنے کا مطلب ہے لائف اسٹائل کو مکمل تبدیل کرنا۔اس لیے یہ خاصا مشکل کام ہوتا ہے۔تاہم جو لوگ پہلے سے مسلمانوں سے میل جول رکھتے ہیں ان کے لیے یہ ذیادہ مشکل نہیں۔تبدیلی کا یہ عمل کچھ عرصہ بعد مکمل ہو جاتا ہے۔اگرچہ پچھلے چالیس برسوں میں نارویجن معاشے میں اسلام اپنی جگہ بنا چکا ہے مگر آج بھی جب کوئی اسلام کا مذہب اپنانا چاہتا ہے اسے اپنے خاندان کی نقطہ چینی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ مسلمان اسے ایک خوشگوار تبدیلی کے طور پر قبول کرتے ہیں۔